بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :143
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 24/25/ ذو القعدہ 1431 ھ، م 02/01 نومبر2010
حج کےارکان،واجبات،سنتیں؟؟؟
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يرمي على راحلته يوم النحر ويقول : لتأخذوا مناسككم فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتي هذه .
( صحيح مسلم : 1297 ، الحج – سنن أبوداؤد : 1970، المناسك – سنن النسائي :3063 ، المناسك )
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ یوم النحر { دسویں ذی الحجہ } کو اپنی سواری پر سے کنکری مار رہے تھے اور فرما رہے تھے : لوگو ! مجھ سے اپنے حج کا طریقہ ضرور سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اپنے اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں ۔
تشریح : کلمہ ٴ شہادت کے اقرار کا تقاضا یہ ہےکہ عبادت اس طریقہ پر کی جائے جو طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کیونکہ کلمہ ٴ شہادت کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ بندگی صرف اللہ تعالی کی ہونی چاہئے اور بندگی کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہو ، اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے :صلو کما رائیتمونی اصلی {صحیح البخاری }
جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے تم لوگ بھی اس طرح نماز پڑھو ، اور زیر بحث حدیث میں حج سے متعلق آپ نے فرمایا : لوگو ! اب دین مکمل ہوچکا ہے میدان عرفات میں کل اللہ تعالی نے تکمیل دین کا اعلان فرمادیا ہے ، بہت ممکن ہے کہ یہ میرا آخری حج ہو لہذا دھیان دو اور توجہ سے میرے اعمال حج کو دیکھو ، حج کا طریقہ سیکھ لو اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اس سے متعلق سوال کرلو ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ بغیر کسی کمیوزیادتی کے حج اسی طرح کرے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور صحابہ کرام کو کرایا ہے ، یعنی میقات سے احرام باندھے ، تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے مسجد حرام میں داخل ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرے ، مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے ، صفا و مروہ کی سعی کرے اگر صرف عمرہ یا حج تمتع کا احرام باندھا ہے تو بال کٹا یا چھلا کر حلال ہوجائے اور اگر مفر د یا قارن ہے تو اپنے احرام پر باقی رہے اور ان تمام کاموں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو لازم پکڑے ، پھر آٹھویں ذی الحجہ یعنی یوم الترویہ کو اپنی جائے قیام سے احرام باندھ کر تلبیہ پڑھتے ہوئے منی کا رخ کرے ، منی میں پانچ وقت کی نماز جمع و قصر سے پڑھے اور رات گزارے ، نویں تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد عرفہ کے لئے روانہ ہوجائے اور عرفہ میں داخل ہونے سے قبل وادی نمرہ میں قیام کرے سورج ڈھلنے کے بعد امام خطبہ دے اور ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر و عصر کی نماز جمع و قصر سے پڑھے ، نماز کے بعد میدان عرفات میں جائے اور سورج ڈوبنے تک تلبیہ و ذکر و دعا میں مشغول رہے ، سورج ڈوبنے کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات سے روانہ ہو اور مزدلفہ پہنچ کر ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب و عشاء کی نماز جمع و قصر کرکے پڑھے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اسی میدان میں رات گزارے ، فجر کا وقت ہوجائے تو فجر کی نماز پڑھ کر مشعر حرام کے پاس آکر دیر تک دعا کرے ، جب سورج نکلنے کے قریب ہو تو منی کے لئے روانہ ہو اور جمرہ عقبہ پر پہنچ کر اسے سات کنکری مارے قربانی کا جانور ذبح کرے اور بال چھلالے ،پھر مسجد حرام جا کر طواف اور سعی کرے ، اگر حج افراد یا قران کررہا ہے تو اس کے لئے پہلے کی گئی سعی کافی ہے ، پھر منی آکر تین دن یہاں گزارے اور روزآنا زوال کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارے ، ان تمام کاموں میں وہی طریقہ اپنائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، نیز مکہ سے روانہ ہونے سے قبل طواف وداع کرنا نہ بھولے ، اجمالا حج نبوی یہ ہے لیکن چونکہ انسان بھول چوک کا پتلا ہے بسا اوقات اعمال حج کی ادائیگی میں رکاوٹیں بھی پیش آجاتی ہیں ، خاص کر آج کل بھیڑ کی وجہ سے بہت سے کام ادھورے رہ جاتے ہیں ، لہذا علماء نے حدیثوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال پر نظر رکھ کر اعمال حج کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :
[۱] رکن [۲] واجب [۳] سنت ۔
رکن: یہ ہے کہ اسکا پورا کرنا اشد ضروری ہے اگر وہ چھوٹ جائے تو اسے پورا کرے لیکن اگر پورا کرنا ممکن نہ ہو اس کا حج صحیح نہ ہوتا اوراسے دوبارہ حج کرنا ہوگا ۔
واجب : یہ ہے کہ اسے ادا کرنے کی پوری کوشش کی جائے لیکن اگر کسی مجبوری سے چھوٹ گیا تو اس پر ایک دم {بکری ذبح کرنا } واجب ہے بغیر دم کے حج مکمل نہیں ہوگا اور اگر کوئی شخص واجب کو جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑ دیتا ہے تو وہ سخت گنہگار ہے جسے اپنے گناہ سے توبہ ، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد اور بطور جرمانہ کے ایک دم دینا چاہئے ۔
سنت : یہ ہے کہ اس کے چھوٹ جانے سے حج تو بے کار نہیں ہوتا البتہ اس سنت کی اہمیت کے لحاظ سے اجر وثواب میں کمی ضرور واقع ہوگی ۔
حج کے ارکان :
۱- احرام باندھنا ۔
۲-طواف کرنا ۔
۳- سعی کرنا ۔
۴- میدان عرفات میں وقوف ۔
طواف سے مراد طواف افاضہ ہے البتہ عمرہ کرنے والے اور حج تمتع کرنے والے کے لئے طواف قدوم بھی رکن ہے ۔
حج کے واجبات :
۱- میقات سے احرام باندھنا ۔
۲- میدان عرفات میں سورج ڈوبنے تک ٹھہرنا ۔
۳- مزدلفہ میں قیام ۔
۴ – کنکری مارنا ۔
۵- منی میں ایام تشریق کی رات گزارنا ۔
۶- بال کٹانا یا چھلانا ۔
۷- طواف وداع ۔
ان کے علاوہ باقی اعمال حج کے سنن میں داخل ہیں ، واضح رہے کہ بعض علماء نے مزدلفہ میں قیام اور بال کٹانے کو حج کے ارکان میں شمار کیا ہے لہذا اس کی دائیگی کا خصوصی دھیان دینا چاہئے ، دوسری یہ بات دھیان میں رہنا چاہئے کہ علماء نے اعمال حج کو ، رکن ، واجب اور سنت میں اس لئے نہیں تقسیم کیا ہے کہ حج کرنے والا واجب اور سنتوں کو عمدا چھوڑتا رہے اور اس کا اہتمام نہ کرے بلکہ یہ تقسیم صرف اسی لئے کہ اگر کسی شرعی عذر سے ان پر سے کوئی کام چھوٹ جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا ، لہذا حج سے متعلقہ کسی کام کو یہ کہہ کر چھوڑ دینا کہ یہ رکن نہیں صرف واجب ہے یا فلاں کام سنت ہے اس کا بجا لانا ضروری نہیں ہے ، یہ ایک غلط تصور ہے ایسے شخص کا حج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے مطابق نہیں ہے لہذا وہ حج پر مرتب اجر و ثواب کا بھی مستحق نہ ٹھہرے گا ۔ واللہ اعلم ۔۔۔
ختم شدہ