بسم اللہ الرحمن الرحیم
306:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [9]
شراب پینا ، جوا کھیلنا ، تہمت لگانا
بتاریخ : 21/ ربیع الاول 1438 ھ، م 20، ڈسمبر 2016 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
19- شراب پینا:شراب کو عربی میں خمر کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ڈھانپ لینا اور پردہ ڈال دینا ، چونکہ شراب پینے سے انسانی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اس لئے اسے خمر کہتے ہیں ،عقل اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ، حق و باطل کی تمیز کا بہترین آلہ ہے ، عقل نہ رہنے سے انسان اچھے برے اور حق و ناحق کی تمیز کو کھو بیٹھتا ہے، اسی لئے شراب کو اسلام میں بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے اور اسے شیطانی عمل بتلایا گیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90) إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (91)المائدہ ۔ اے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب ، جوا ، تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ، ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح پاو ،، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو ؟
شراب کی گونا گوں خرابیوں کی وجہ سے دنیا و آخرت میں اس پر سخت سزائیں رکھی گئی ہیں ، ارشاد نبوی ہے : جو شخص شراب پئے اسے درے لگاؤ ، اگر پھر پئے تو اس پر درے برساؤ ، اگر پھر پئے تو پھر اس پر درے برساؤ اور اگر چوتھی بار پئے تو اسے قتل کردو ۔ { سنن ابو داود ، سنن ابن ماجہ بروایت ابوہریرہ } ایک حدیث میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے یہ عہد کر لیا ہے کہ جو شخص کسی نشہ آور چیز کا استعمال کرے گا تو قیامت کے دن پینے کے لئے اسے” طینۃ الخبال ” دے گا ، صحابہ نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! "طینۃ الخبال ” کیا چیز ہے ؟ آپ نے بیان فرمایا : جہنمیوں کا نچوڑ [یعنی پسینہ اور خون و پیپ ] ۔ {صحیح مسلم بروایت جابر بن عبد اللہ } ۔ واضح رہے کہ ہر وہ چیز جو نشہ لائے وہ حرام اور شراب کے حکم میں ہے، خواہ اس کا کوئی بھی نام رکھا جائے ، اسی طرح ہر وہ چیزجونشہ لائے حرام ہے، خواہ اسے زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے جس سے نشہ آجائے یا تھوڑی مقدار میں استعمال کی جائے جس سے نشہ نہ آئے ، ارشاد نبوی ہے : ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے ۔ {صحیح مسلم بروایت ابن عمر } ۔ نیز فرمایا : جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ لائے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ۔ {سنن ابو داود ، سنن ابن ماجہ بروایت جابر }۔
۲۰- جوا کھیلنا : جوا اور قمار بازی ایسے عمل ہیں جن کا بنیادی مقصد لوگوں کا مال بہت ہی آسان ذریعے اورباطل طریقے سے کھانا ہے، اس طرح اس پر اپنی طاقت نہ صرف ہو اور کوشش بھی نہ کرنی پڑی ،بلکہ صرف ذہن کی تیزی اور ہاتھ کی صفائی سے فریق مخالف کا مال ہڑپ کرلیا جائے، بسا اوقات صرف مال ہی نہیں بلکہ بیوی اور بچوں پر بھی ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے جس کا نتیجہ بعد میں باہمی عداوت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر آگے بڑہ کر قتل کی نوبت پہنچ جاتی ہے ،یہ اس کے علاوہ ہے کہ جو شخص جوا اور قمار بازی میں مشغول ہوجاتا ہے وہ اللہ تعالی کے واجبی ذکر جیسے نماز وغیرہ سے بھی غافل ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اسے شیطانی عمل بتلایا ہے ، جیسا کہ ابھی سورہ مائدہ کی دو آیتیں گزر چکی ہیں کہ”اے ایمان والو یہ شراب ، یہ جوا ، یہ آستانے ، یہ پانسے کی تیر سب گندے اور شیطانی کام ہیں ، لہذا ان سے بچتے رہو تا کہ فلاح پاسکو ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو ؟ گویا یہ چیز یں ایک طرف تو گندے عمل ہیں جو انسان کی ذہنی گندگی اور مال کی ناجائز محبت پر دلیل ہیں، دوسرے یہ سب شیطانی کام ہیں جو رحمان کے احکام کے خلاف ہیں ، ثالثا : ان میں مشغولیت انسان اور اس کے ساتھی کے درمیان اختلاف ، بغض و عداوت پیدا کرتی ہیں اور ، رابعا : اللہ کے ذکر سے غافل کردیتی ہیں ۔ اس لئے جوا کھیلنا تو دور کی با ت ہے شریعت نے اتنی بھی اجازت نہیں دی ہے کی کوئی اپنے بھائی سے کہے کہ” آو ہم جو ا کھیلیں” ، چنانچہ ارشاد نبوی ہے : جس نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں یوں کہا :قسم ہے لات کی تو اسے چاہئے کہ کہے” لا الہ الا اللہ "اور جس نے اپنے ساتھ سے کہا : آو جو کھیلیں تو اسے چاہئے کہ کچھ صدقہ کرے ۔ {متفق علیہ ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
۲۱- پاکدامن عورت پر تہمت لگانا : نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر مسلمان کا خون ، اس کی آبرو اور اس کا مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے {صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ } ۔ یعنی جس طرح کسی مسلمان کا خون کرنا حرام ہے اور اس کا مال ہڑپ کرنا نا جائز کا م ہے اسی طرح اس کی عزت پر بھی حملہ شریعت کی نظر میں برا فعل ہے ، خاص کر اگروہ شخص اور بالاخص کوئی مومنہ عورت اپنے گفتار و کردار سے فواحش سے پرہیز کرنے والی ہو تو اس پر انگلی اٹھانا اور اس کی عزت سے کھیل کرنا بڑے سے بڑا جرم ہے ، کیونکہ اس سے صرف وہ عورت ہی بدنام نہیں ہوتی بلکہ پورا خاندان بدنام ہوجاتا ہے ، اس عورت کا گھر اجڑ جاتا ہے اور بچوں کو اپنا منھ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی، اسی لئے قرآن مجید میں ایک طرف ایسا کرنے والے پر سخت سزا مقرر ہے اور دوسری طرف اس پر سخت وعید وارد ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (4)النورجو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاو اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرلو ، یہ لوگ فاسق ہیں ۔ ایک جگہ ارشاد ہے : إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (23)النور ۔ جو لوگ پاک دامن ، بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی ایک سے زائد حدیثوں پر اس عمل کو ان سات بڑے سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو بندے کی نیکیاں تباہ و برباد کردیتے ہیں ، چنانچہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کردینے والے گناہوں سے بچو ، اس میں سے ایک : پاکدامن بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر تہمت زنا لگانا ہے ۔ {بخاری و مسلم ، بروایت ابو ہریر } واضح رہے کہ آیت قرآنی اور احادیث میں پاکدامن مومنہ عورت کا ذکر ہے ، البتہ علماء کے نزدیک یہی سزا کسی مسلمان مرد پر بھی تہمت زنا لگانے کی ہے ۔