بسم اللہ الرحمن الرحیم
حقیقت محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
قسط نمبر :2
سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ
مترجم: مقصود الحسن فيضي
{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }
خلاصہ یہ کہ : اللہ تعالی نے رسولوں کو بھیجا اور جس قوم کی طرف بھیجا اس قوم کے ایک فرد اور انکا ہم زبان بھیجا ،تا کہ انکے لئے دین حق کو بیان کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے: { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ } [ سُورَةُ إِبْرَاهِيمَ : 4 ]
ہم نے ہر ہرنبی کو اسکی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے ، اب اللہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے راہ دکھا دے ، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے۔
اسی طرح ہر قوم میں رسول بھیجا گئے ، اللہ تعالی فرماتا ہے : { وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ } [ سُورَةُ يُونُسَ : 47 ]
اور ہر امت کیلئے ایک رسول ہے ۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :{ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خَلاَ فِيهَا نَذِيرٌ } [ سُورَةُ فَاطِرٍ : 24 ]
اور کوئی امت ایسی نہیں ہے جسمیں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔
[ واضح رہے کہ یہ ] تمام رسول ایک ہی دین دے کر بھیجے گئے ، یعنی دین اسلام ،جواللہ واحد کی عبادت ، توحید خالص اور سوااللہ تعالی کے ہر کسی کی عبادت سے اجتناب سے عبارت ہے ۔
ارشاد ہے: { وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اُعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلاَلَةُ فَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ } [ سُورَةُ النَّحْلِ : 36 ]
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو !صرف اللہ کی عبادت کرو اور اسکے سوا تمام معبودوں سے بچو۔
نیز فرمایا: { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُونِ } [ سُورَةُ الأَنْبِيَاءِ : 25 ]
تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اسکی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :” الأنبياء أخوة علات أمهاتهم شتى ودينهم واحد” [صحیح البخاری: ۳۴۴۳الانبیاء وصحیح مسلم: ۲۳۶۵ الفضاءل بروایت ابو ھریرۃ]
انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں جنکی مائیں [شریعتیں ] مختلف ہیں اور ان سب کا دین ایک ہے۔
اسی طرح ہر رسول اپنی قوم کو اپنی اطاعت کا بھی حکم دیتا ہے کیونکہ رسالت کا یہی تقاضا ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 64]
ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالی کے حکم سے اسکی اطاعت کی جائے
چنانچہ پے درپے رسول اپنی قوموں کی طرف آتے رہے اور انھیں توحید اختیار کرنے اور شرک سے بچنے کی دعوت دیتے رہے ، ارشاد باری تعالی ہے: { ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى } [ سُورَةُ الْمُؤْمِنُونَ : 44 ]
پھر ہم نے اپنے رسول لگاتار بھیجے
یہاں تک کہ رسولوں کا یہ سلسلہ حضرت موسی وعیسی علیہما السلام تک پہنچا جنکی کتابوں میں نبی کریم حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آمد کی بشارت ظاہر ہوئی ، اللہ تعالی فرماتا ہے:{ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ } [ سُورَةُ الأَعْرَافِ : 157 ]
جو لوگ ایسے رسول امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے: { وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ }[سُورَةُ الصَّفِّ : 6]
اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا : اے میری قوم بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا رسول ہوں ، مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمھیں خوشخبری سنا نے والا ہوں جنکا نام احمد ہے ۔
عیسی علیہ السلام کے اس دنیا سے اٹھا لئے جانے کے بعد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جب انسانوں پر عہد [نبوت] دراز ہو گیا تو ابلیس لعین نے ان پر اپنے سوار و پیادہ دوڑائے جسکے نتیجے میں اس نے گنے چنے لوگوں کے علاوہ تمام لوگوں کو بہت دور کی گمراہی میں ڈال دیا،انھیں شرک وکفر اور قسم قسم کی گمراہیوں میں مبتلا کردیا حتی کہ صورت حال یہاں تک پہنچی کہ گنے چنے چند لوگوں کے علاوہ تمام عرب وعجم پر اللہ تعالی ناراض ہوا ، پھراللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جنھوں نے اعلان کیا کہ : يا أيها الناس إنما أنا رحمة مهداة [ امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک میں روایت کرکے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی انکی تایید کی ہے ،مستدرک الحاکم ۱|۳۵ ،اسی طرح امام بزار [کشف الاستار۳|۱۸۹] اور امام طبرانی نےبھی اپنی معجم صغیر ۱|۹۵ میں اسے روایت کیا ہے جسکے الفاظ ہیں : "بعثت رحمۃ مہداۃ ” میں ہدیہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ، نیز امام طبرانی نے معجم اوسط [معجم البحرین ۶|۱۳۲]اور عبد اللہ القضاعی نے مسند الشہاب [۱۱۶۰: ۲|۱۸۹] میں اسکی تخریج کی ہے، یہ حدیث مجموعی اعتبار سے حسن درجہ کو پہنچتی ہے ، نیز اسکی تایید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” انی لم ابعث لعانا انما بعثت رحمۃ” میں لعن وطعن کرنے والا نہیں بلکہ سرایا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ، صحیح مسلم: ۲۵۹۹ البر بروایت ابو ہریرۃ دیکھئے الصحیحہ۴۹۰۔]
اے لوگوں میں تمہارے لئے رحمت کا تحفہ ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کی جو[ ناگفتہ بہ ] حالت تھی اسکا ذکر حضرت عیاض بن حمار المجاشعی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس طرح ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا : ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم مما علمني يومي هذا ، كل مال نحلته عبدي حلال، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم وحرمت عليهم ما أحللت لهم، وأمرتهم أن يشركوا بي مالم أنزل به سلطانا ، وإن الله نظر إلى أهل الأرض فمقتهم عربهم وعجمهم إلا بقايا من أهل الكتاب ، وقال إنما بعثتك لأبتليك وأبتلي بك وأنزلت عليك كتاباً لا يغسله الماء وتقرؤه نائماً ويقظاناً الحدیث [صحیح مسلم ۲۸۶۵ الجنۃ وصفۃ نعیمہا ، مسند احمد ۴|۱۶۲]
غور سے سنو !میرے رب نے آج مجھے جو کچھ سکھایا ہے تم اسے نہیں جانتےہو ،اور میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ وہ باتیں تمہیں بتلادوں [ اللہ تعالی فرمارہا ہے کہ] ہر وہ مال جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے وہ حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو دین حنیفی پر پیدا کیا، لیکن انکے پاس شیطان آئے اور انھیں انکے صحیح دین سے پھیر دیا ، ان پر وہ چیزیں حرام کردیں جو میں نے انکے لئے حلال کی تھی اور انھیں حکم دیا وہ میرے ساتھ شرک کریں جسکی کوئی دلیل ہم نے نازل نہیں کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا : اللہ تعالی نے اہل زمین کی طرف دیکھا تو اہل کتاب کے چند گنے چنے لوگوں کو چھوڑ کر سارے عرب وعجب پر ناراض ہوا ، نیز اللہ تعالی نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ میں نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ تمہیں آزماوں اور تمہارے ذریعہ لوگوں کو آزماوں اور میں نے تم پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے کہ اسے پانی نہیں دھو سکتا ، اس کتاب کو تم سوتے جاگتے پڑھوگے۔ الی آخر الحدیث۔
چنانچہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر لوگوں پر سے اپنے غضب ونار ضگی کو اٹھالیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام عالم کے لئے رحمت بنا کر، [راہ حق کے ] سالکین کے لئے راہنما اور تمام مخلوق پر حجت بنا کر بھیجا، ہدایت اور دین حق دیکر بھیجا ، قیامت سے پہلے خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا ، اللہ کے حکم سے اسکی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر سلسلہ رسالت کا خاتمہ کر دیا، آپ کے ذریعہ گمراہی سے ہدایت بخشی ،لا علمی کو دور کرکے علم سے نواز ، اور آپ کے ذریعہ بہت سے بینائی سے محروم آنکھوں کو بنیائی ،بہرے کا نوں کو سماعت بخشی اور پردے پڑے ہوئے دلوں پر سے پر دہ اٹھا رہا نتیجہ تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی زمین ایک بار پھر روش ہوگئی ،آپس میں مختلف دل ایک دوسرے سے مل گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالی ٹیڑھی ملت کر سیدھا کردیا ، واضح شاہر ا ہوں کو روشن کردیا ، لوگوںپر پڑے بوجھ کو اتا ردیا ، بندھشوں کو کھول دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو انس وجن سب کے لئے عام بنایا ، ارشاد باری تعالی ہے { وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ } [ سُورَةُ سَبَأٍ : 28 ]
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے بھیجا ہے
نیز فرمایا : { قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا } [ سُورَةُ الأَعْرَافِ : 158 ]
آپ کہہ دیں کہ اے لوگو! میں تم سب لوگوں کو طرف اللہ کا رسول ہوں ۔
رسولوں کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے اور کتابوں کا علم اٹھ جانے کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو مبعوث فرمایا ، اس وقت جبکہ کلام الہی میں تحریف کردی گئی تھی، شریعتیں بدل دی گئِ تھیں اور ہر قوم نے اپنی اندھی رائے پر اعتماد کرلیا تھا ، اللہ پر اور اللہ تعالی کے بندوں پر اپنے فاسداقوال اور باطل رایوں سے فیصلے کرنا شروع کردیا تھا ، چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کے ذریٰعہ لوگوں کو ہدایت بخشی راہ حق کو واضح کیا ، لوگوں کو [شرک وکفر کی ] تاریکی سے نکال کر [ہدایت ورشد کی ] روشنی کی طرف لائے ، اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ اندھے پن کا خاتمہ کردیا، گمراہی سے نکال کر صحیح راہ میں لگا دیا ۔آپ کے ذریعہ نیک وبد میں تفریق کردی ، ہدایت وکا میابی کا معیار آپ کی اتباع وموافقت کو ٹھہرایا اور گمراہی آپ کی نا فرمانی اور مخالفت میں رکھا ، آپ صلی اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما نداروں کے لئے شقیق ومہربان ثابت ہوئے ،تمام مخلوق کی ہدایت پر حریص تھے ان کا عنادولاپرواہی آپ پر بڑی گراں گزرتی تھی ، اس سلسلے میں ارشادمیں ارشاد باری تعالی ہے{ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ } [ سُورَةُ التَّوْبِةِ : 128 ]
تمھارے پاس ایک ایسے پیغمر تشریف لائے ہیں جو تمھاری جنس سے ہیں ، جنکو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے ، جو تمہاری منفعت کے بڑے خوا ہشمند ہیں ایما نداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔
[حاصل یہ کہ ] آپ کی دعوت کا خلاصہ خوشخبری دینا ، متنبہ کرتا اور علم وحکمت سے اللہ کی طرف دعوت دینا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا } [ سُورَةُ الأَحْزَابِ : 45 ]
اے نبی ہم نے آپ کو [رسول بنا کر ] گوا ہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانے والا اور آگاہ کرنے والا بھیجا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت وکتاب ما قبل تمام شریعتوں کی ناسخ اور تمام کتابوں پر حاکم ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے : { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ } [ سُورَةُ الأَحْزَابِ : 40 ]
[لوگوں ] تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم ] نہیں، لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والےہیں ، اور اللہ تعالی ہر چیز کا بخوبی جاننے والا ہے ۔
نیز فرمایا : { وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ } [ سُورَةُ الْمَائِدَةِ : 48 ]
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم [کا نام ] محمد و احمد ہے ، آپ کا ایک نام ماحی [مٹانے والا] بھی ہے کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالی نے کفرکو مٹادیا ہے ، آپ کا ایک نام حاشر [جمع کرنے والا ] بھی ہے یعنی تمام مخلوق آپ کے پیچھے حشر کے میدان میں جمع ہوگی ، آپ کا ایک نام عاقب [بعد میں آنے والا ] بھی ہے کہ آپ کے بعد کوئِی نبی نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لقب نبی تو بہ ونبی رحمت بھی ہے [اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ان لی اسماء انا محمد وانا احمد وانا الماحی الذی یمحو اللہ بہ الکفر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی وانا العاقب ۔ صحیح البخاری : ۴۸۹۶ التفسیر صحیح مسلم : ۲۳۵۴ الفضائل بروایت جبیر بن مطعم]
میرے کئی نام ہیں میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میرا ایک نام ماحی ہے جسکے ذریعہ اللہ تعالی کفرکو محو کردیتا ہے ، میرا ایک نام حاشر ہے جسکے پیچھے لوگ حشر کے میدان میں جمع کئے جائِں گے ، اور میرا ایک نام عاقب بھی ہے ۔
حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنا نام بتلاتے تھے آپ فرماتے : میں محمد واحمد ہوں ، میں مقفی او حاشر ہوں میں نبی تو بہ اور نبی رحمت ہوں [صحیح مسلم : ۲۳۵۵ الفضاءلمسند احمد ۴|۳۹۵ الفاظ صحیح مسلم کی ہیں] ۔ آپ کو اللہ تبارک وتعالی نے حوض اور ایک ایسے مقام محمود سے نواز ہے جس پر تمام مخلوق آپ کی حمد وتعریف کریگی ، یہ اس وقت ہوگا جب آپ عرش کے نیچے سجدے میں گرجا ئیں گے اور ایسے الفاظ حمد سے اللہ کی تعریف کریں گے جو آپ پر اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہوگا، پھر آپ سے کہا جائیگا: ارفع رأسك، وسل تعطى، واشفع تشفع [دیکھئے مختصر صحیح البخاری للالبانی ۳|۲۱۱، ۲۱۳صحیح مسلم : ۱۹۳ الایمان] اپنا سر اٹھاو ، مانگو تمھاری مانگ پوری کی جائیگی اور شفارش کرو تمھاری شفارا قبول کی جائے گی ۔
اللہ تبارک و تعالی نے آپکے سینے کو کھول دیا ، آپ سے بوجھ کو اتاردیا، آپ کے مخالف پر ذلت مسلط کردی ، آپ کے ذکر کو بلند کیا ، چنانچہ جہاں کہیں اللہ تعالی کا ذکر ہو اسکے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہوگا آپ کے شرف وفضل کے لئے یہی اتنا کافی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے جو سب سے بڑے شرف نوازا ہے کہ آپ کو کلمہء شہادتین عطا فرمایا ، یہی کلمہ اسلام کی بنیاد اور دار السلام یعنی جنت کی کنجی ہے ، خون، مال اور پورے معاشرہ کی حفاظت ہے یعنی شہادت ” لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ”
{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }
سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔