بسم اللہ الرحمن الرحیم
حقیقت محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
قسط نمبر : 3
سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ
مترجم: مقصود الحسن فيضي
{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }
پچھلے آخری سطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، یہی کلمہ اسلام کی بنیاد اور دار السلام یعنی جنت کی کنجی ہے ، خون، مال اور پورے معاشرہ کی حفاظت ہے یعنی شہادت ” لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ”
شہادت ” لا الہ الا اللہ ” کا معنی
"لا الہ الا اللہ ” کا معنی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے یہ کلمہ دو رکنوں پر مشتمل ہے، نفی اور اثبات ، "لا الہ” جو منفی رکن ہے اس سے ان تمام معبودوں کی نفی ہوتی ہے جنکی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے اور مثبت رکن "الا اللہ ” سے بلا شرکت غیر صرف اللہ اکیلے کی عبادت کا اثبات ہے ۔
اس کلمے کی [قبولیت وافادیت ] کی درج ذیل شرطیں ہیں: علم، یقین، قبول ،تابعداری ،سچائی ،اخلاص اور محبت ۔[ علم سے مراد یہ ہے کہ اس کلمے کے معنی اور مدلول کو سمجھا اور جانا جائے ، اسکے بر عکس جہل ہے۔
یقین سے مراد یہ ہے کہ اس کلمہ کے معنی اور مدلول پر یقین محکم ہو، اسکے بر عکس شک وریب ہے
قبول سے مراد یہ ہے اس کلمہ کا علم ہو جانے اور اس پر یقین کر لینے کے بعد اسکا اقراربھی کیا جائے، صرف علم ویقین کافی نہیں ہے، اس کے بر عکس رد کرنا ہے۔
تابعداری سے مراد یہ ہے کہ قبول کے ساتھ کے ساتھ اس کلمہ کے مقتضی پر عمل بھی کیا جائے، اسکے بر عکس اعراض ہے ۔
صدق وسچائی سے مراد یہ ہے بندہ اس کلمہ کے اقرار وانقیاد میں سچا ہو ، اس سے منافقین کے ایمان سے اعراض ہے ۔
اخلاص سے مراد یہ ہے اس کلمہ کا اقرار اور اسکے مقتضا کے مطابق عمل کسی مصلحت کی بنا پر نہیں بلکہ اخلاص پر مبنی ہو ۔
محبت سے مراد ہے بندہ اس کلمہ اس کلمہ کے مقتضا اور اللہ ورسول سے محبت رکھتا ہو اور انکی محبت کو ہر محبت پر غالب رکھتا ہو] بعض علماء نے ان پر ایک آٹھویں شرط کا بھی اضافہ کیا ہے یعنی اللہ کے سوا دوسرے تمام معبودوں کا انکار۔
اس کلمہ کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ، اسکا حق یہ ہے کہ واجبات کو بجالایا جائے اور محرمات سے پرہیز کیا جائے ۔
شہادت ” لا الہ الا اللہ” سے متعلق یہ چند مختصر جملے ہیں ، یہ مختصر بحث اسکی تفصیل کی متحمل نہیں ہے۔
” محمد رسول اللہ ” حقیقت اور تقاضے ”
البتہ جہاں تک شہادت ” محمد رسول اللہ’ کی حقیقت کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ شہادت چند امور کو شامل ہے ،
۱/ ایمان :
سب سے اہم چیز جو شہادت ” محمد رسول اللہ ” کی حقیقت میں داخل اور جسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاناہے ، اسطرح کہ اس بات پر مکمل ایمان اور پورا یقین ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور آپ کی رسالت تمام انسانوں عرب وعجم سب کے لئے عام ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : { قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا } [ سُورَةُ الأَعْرَافِ : 158 ]
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔
نیز فرمایا: { وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا} [ سُورَةُ سَبَأٍ : 28 ]
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئَے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کان النبی یبعث الی قومہ وبعثت الی الناس عامۃ [صحیح البخاری :۳۳۵ التیمم، صحیح مسلم : ۵۳۱ الصلاۃ براویت جابر بن عبداللہ] [مجھ سے پہلے] ہر نبی خاص اپنی قوم کیلئے بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے ۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” والذي نفسي بيده لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا كان من أهل النار” [ صحیح مسلم : ۱۵۳ الایمان ، کتاب الایمان لابن مندہ ۱/ ۵۰۹، بروایت ابو ھریرۃ]
اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا کوئی بھی فرد جو میرے بارے میں سن لے خواہ وہ یہودی ہویا نصرانی پھر میری رسالت پر ایمان لائے بغیر مرجائے تو وہ جہنمی ہے ۔
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جنوں کو بھِی شامل ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :{ وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ . قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ . يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ . وَمَنْ لاَ يُجِبْ دَاعِيَ اللهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَولِيَاءُ أُولَئِكَ فِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ } [ سُورَةُ الأَحْقَافِ : 29،32 ]
اور یاد کرو جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ، پس جب [ نبی کے] پاس پہنچ گئے تو [ایک دوسرے سے ] کہنے لگے خاموش رہو، پھر جب پڑ ھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبر دار کرنے کیلئے واپسہ لوٹ گئے، اے ہماری قوم ہم نے یقینا وہ کتاب سنی ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، جو سچے دین کی اور راہ راست کی رہنمائی کرتی ہے ، اے ہماری قوم اللہ کے بلانے والے کا کہنا مانو اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تعالی تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے پناہ دیگا اور جو شخصاللہ کے بلانے والے کا کہانہ مانے گاپس وہ زمین میں کہیں [بھاگ کر اللہ کو] عاجز نہیں کرسکتا، نہ اللہ کے سوا کوئی اسکا مد دگار ہونگے ، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔
اس ایمان میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ اللہ کے بندے ہیں آپ کی عبادت نہ کی جائے گی اور آپ اللہ کے رسول ہیں آپ کی تکذیب نہ کی جائے گی [ ۱ شیخ حفظہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان وتصدیق کے ساتھ یہ بھی ایمان رکھا جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے بندے ہیں، آپ میں الوہیت اور معبود ہونے کی کوئی صفت نہیں تھی ، یہی وجہ ہے آپ کی رسالت کے اقرار کے ساتھ آپ کی عبدیت کا اقرار بھی کیا جاتا ہے یعنی "واشھد ان محمد اعبدہ ورسولہ ” اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بنے اور اسکے رسول ہیں ، نیز اللہ تعالی نے بھی قران مجید میں متعدد جگہ آپ کو "عبد” کہا ہے، ارشاد ہے: { تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا } [ سُورَةُ الفُرْقَانِ : 1]
بہت بارکت ہے وہ اللہ تعالی جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے ]
آپ پر ایمان لانے میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ خاتم النبین اور خاتم المرسلین ہیں ، آپ پر نازل شدہ کتاب آسمان سے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے آخری کتاب اور تمام کتابوں کی محافظ ہے ، نیز یہ کہ آپ کی شریعت نے پہلے کی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا } [ سُورَةُ الأَحْزَابِ : 40 ]
لوگو تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نہیں ہیں لیکن وہ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ۔
نیز فرمایا: { الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } [ سُورَةُ الأَعْرَافِ : 157 ]
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جنکو وہ لوگ اپنے تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں ، اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے میں اور دن لوگوں پر جو بوجھ اور طرق تھے ان کودودکرتے ہیں ۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے: { وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ } [ سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ : 85 ]
اور جو شخص اسلام کے علاوہ اور دین تلاش کرے اس سے قبول نہ کیا جائیگا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
[اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ] یہ وہ باتیں ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہ تمام چیزیں انکے نزدیک ثابت شدہ عقائد میں داخل ہیں ۔
محمد رسول اللہ پر ایمان کے قرانی دلائل :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان سے متعلق بہت سی صریح آیتیں وارد ہیں جو کسی کے لئے عذر کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتیں ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: { يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 170 ]
اے لوگو تمہارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق لیکر رسول آگیا ہے ، پس تم ایمان لاو تاکہ تمہارے لئے بہتری ہو۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:{ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ } [ سُورَةُ الأَعْرَافِ : 158 ]
آپ کہہ دیں کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اسی اللہ کا بھیجاہوا ہوں جسکی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے ، اسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، سو اللہ تعالی پر ایمان لاو اور اسکے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالی پر اور اسکے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور انکی اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آجاو۔
ایک تیسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 136 ]
اے ایمان والو اللہ تعالی پر ایمان لاو، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے ایمان لاو ۔
بلکہ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے کا تمام نبیوں سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اگر وہ زندہ رہے تو ان میں سے کسی نبی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوگا ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے : { وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ . فَمَنْ تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ } [ سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ : 81، 82 ]
جب اللہ تعالی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمھیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمھارے لئے اس پر ایمان لانا اور اسکی مددکرنا ضروری ہے ، فرمایا کہ کیا تم اسکے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے ، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں گا ۔ پو اسکے بعد بھی جو پلٹ جائیں وہ یقینا پورے نا فرمان ہیں ۔
۲۔ اطاعت وفرمانبرداری اور تصدیق :
شہادت ” محمد رسول اللہ” کی حقیقت میں یہ بھی داخل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کاحکم دیں اسمیں انکی اطاعت کی جائے جس چیز کی خبر دیں اسمیں آپ کی تصدیق کی جائے اور آپ کی دعوت پر لبیک کہا جائے ، کیونکہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں متعدد جگہ اپنی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ بیان کیا ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: { مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ} [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 80 ]
جس کسی نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ۔
نیز فرمایا ہے: { قُلْ أَطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ } [ سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ : 32 ]
کہہ دیں کہ اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کرو۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 59 ]
اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور طاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ اختیار ہوں ۔
{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }
سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔