بسم اللہ الرحمن الرحیم
حقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسط نمبر : 4 سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ مترجم: مقصود الحسن فيضي { ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu } پچھلی قسط کے آخری سطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 59 ] اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور طاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ اختیار ہوں ۔ اطاعت رسول کے فوائد : اس طرح اللہ تعالی نے ہدایت کو صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر معلق کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے: { قُلْ أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ } [ سُورَةُ النُّورِ : 54 ] کہہ دیں : اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ، پھر بھی اگر تم نے روگر دانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کردیا گیا ہے اورتم پر اسکی جو اب دہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ، ہدایت تو تمھیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی اطاعت کردگے ، یاد رکھو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہچا دیتا ہے ۔ اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا حق ادا کرتا ہے اسے اللہ تعالی نے بہتر ین لوگوں کے زمرے میں شامل کیا ہے ، چناچہ ارشاد فرماتا ہے : {وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 69 ] اور جو بھِی اللہ اور اسکے رسول کی فرما برداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے ،جیسے نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ ، یہ بہترین ساتھی ہیں ۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالی نے سب سے عظیم کا میابی یعنی دخول جنت کو اپنی اطاعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر معلق کیا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہے: { وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 13 ] اور جو اللہ تعالی اور اسکی رسول کی فرما برداری کریگا اسے اللہ تعالی ان ختبوں میں داخل کریگا جنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ جن میں وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کا میابی ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے دلائل : البتہ جہاں تک آپ کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کا تعلق ہے تو یہ بھی اس شہادت کی حقیقت میں داخل ہے، اسطرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلمکی دی گئی خبروں کو بغیر سچ مانے یہ شہادت مکمل نہ ہوگی ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ شخص جھوٹا اور منافق متصور ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئی خبروں کو حق ماننے پر مسلمانوں کی تعریف کی ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: { وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ } [ سُورَةُ الزُّمَرِ : 33 ] اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اسکی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں ۔ حضرت مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس اور ابن زید جیسے کبار مفسرین بیان کرتے ہیں کہ ” الذی جاء بالصدق ” یعنی ” جو سچا دین لے کر آیا” سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ” وصدق بہ” یعنی ” اور جس نے ان کو سچ مانا” سے مراد مسلمان ہیں ۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے رسول [کی تکذیب اور ان ] کا انکار کرنے والے کو سخت ترین عذاب کی دھمکی دی ہے ، چنانچہ ارشاد ہے { فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ } [ سُورَةُ الزُّمَرِ : 32 ] پس ان سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جو اللہ تعالی پر جھوٹ بولے اور سچا دین اسکے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے ؟ کیا ایسے کفار کیلئے جہنم ٹھکانا نہیں ہے ۔ سورہ المدثر میں رسول صلی اللہ وسلم کی دی ہوئی خبر اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید کی تکذیب کرنے والے متعلق سے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : { ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا . وَجَعَلْتُ لَهُ مَالاً مَمْدُودًا . وَبَنِينَ شُهُودًا . وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا . ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ . كَلَّا إِنَّهُ كَانَ لآيَاتِنَا عَنِيدًا . سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا . إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ . فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ . ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ . ثُمَّ نَظَرَ . ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ . ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ . فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ يُؤْثَرُ . إِنْ هَذَا إِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ . سَأُصْلِيهِ سَقَرَ } [ سُورَةُ الْمُدَّثِّرِ 11: 26 ] مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے ، اور اسے بہت سا مال دے رکھا ہے ، اور حاضر باش فرزند بھی اور میں نے اسے بہت کچھ کشاد گی دے رکھی ہے ، پھر بھی اسکی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں ، نہیں نہیں وہ ہماری آتیوں کا مخالف ہے ، عنقریب اسے میں ایک سخت چڑھائی پر چڑھاوں گا، اس نے غور کرکے تجویز کی ، اسے ہلاکت ہو کیسی تجویز سوچی ، اس نے پھر دیکھا ، پھر تیوری چڑحائی اور منھ بنایا، پھر پیچھے ہٹ گیا اور غور کیا اور کہنے لگا یہ تو صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے ، سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں ہے، میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا ۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالی کا یہ قدیم طریقہ رہا ہے کہ جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا وہ ذلت وخواری اور عذاب سے دو چار ہوا ، اللہ تبارک فرماتا ہے : { إِنْ كُلٌّ إِلاَّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ }[ سُورَةُ ص : 14 ] ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس نے رسولوں کی تکذیب نہ کی ہو ، پس میری سزاان پر ثابت ہوگئی ۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : { ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لاَ يُؤْمِنُونَ } [ سُورَةُ الْمُؤْمِنُونَ : 44 ] پھر ہم نے لگا تار رسول بھیجے ، جب جب جس امت کے پاس اسکا رسول آیا اس نے جھٹلایا ، پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگادیا اور انھیں افسانہ بنادیا ، ان لوگوں کودوری ہو جو ایمان قبول نہیں کرتے ۔ رسول اکرم کی دعوت پر لبیک کہنے اور اسے قبول کرنے کی دلیل : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے اور اسے پہلی فرصت میں قبول کرنے کی دلیل یہ فرمان الہی ہے : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ } [ سُورَةُ الأَنْفَالِ : 24 ] اے ایمان والو! تم اللہ اور اسکے رسول کے کہنے کو بجالاؤ ، جبکہ رسول تم کو تمھاری زندگی بخش چیز کی طرف بلا رہے ہوں [حضرت شیخ حفظہ اللہ نے شہادت ” محمد رسول اللہ ” کی حقیقت میں رسول کی دعوت کو فورا قبول کرنا بھی شمار کیا ہے جسکے لئے قرآن مجید میں لفظ ” استجاب” آیا ہے ، جسکے معنی ہوتے ہیں جواب کے لئے تیار رہنا ، سائل اور داعی کی بات کو بلا تردد اور بلا خیر قبول کر لینا ، یعنی مومن کی شان یہ ہونی چاہئے کہ جب بھی اللہ اور اسکے رسول کسی بات کا حکم دیں تو اسے فورا بلا کسی تردد وتاخیر کے قبول کرلے ، اسکی وضاحت صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو اس آیت کی تفسیر میں بیان کی گئی ہے، ابو سعید بن معلی بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے سے گزرے اور مجھے بلایا ، میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا: تم میرے بلانے پر فورا کیوں نہ آئے ؟ کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا :{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ}الحدیث صحیح البخاری : ۴۶۷۴ التفسیر ؛ مذکورہ آیت کو اس حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو استجاب کی حقیقت واضح ہو جائے گی کہ نماز جیسی چیز میں مشغولیت بھی رسول کی دعوت کے قبول کرنے میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئَے ] چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے رسول کا کہا بجالانے کا حکم دیا اور اسے اپنا کہا بجالانے کے ساتھ ملا کر بیان کیا نیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زندگی قرار دیا کیونکہ اسی میں لوگوں کی نجات اور بقا ہے اور کفر کی موت کے بعد اسی میں اسلامی زندگی ہے ۔ نیز اللہ تبارک وتعالی نے لوگوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک نہ کہنے پر دھمکی بھی دی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : { فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنَ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ } [ سُورَةُ القَصَصِ : 50 ] پھر اگر یہ تیری بات نہ مانیں تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہیں ، اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا اور کون ہوگا جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے ، بیشک اللہ تعالی ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ۳۔ محبت ونصرت اور موالات وتعظیم: شہادت "محمد رسول اللہ ” کی حقیقت میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے ، آپ کی مدد کی جا ئے ، آپ سے موالات رکھی جائے اور آپ کی تعظیم بجالائی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی سنت کی طرف سے دفاع آپ کی مدد میں داخل ہے ۔ محبت کی دلیل : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی دلیل آپ کا یہ فرمان ہے: ” فو الذي نفسي بيده لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده "[صحیح البخاری : ۱۴ الایمان ، سنن النسائی ۸/۱۵ بروایت ابو ھریرۃ] اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں کا کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسکے نزدیک اسکے والد واولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں ۔ نیز حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ” لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين ” [ صحیح البخاری : ۱۵ الایمان ، صحیح مسلم : ۴۴ الایمان بروایت انس] تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا حتی کہ میں اسکے نزدیک اسکے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ "ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان ، أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما” الحديث [صحیح البخاری : ۱۶ الایمان ، صحیح مسلم : ۴۳ الایمان بروایت انس] تین خصلتیں ہیں وہ جن میں ہونگی وہ انکی بدولت ایمان کی لذت پائے گا ، پہلی یہ کہ اللہ اور اسکے رسول اسے ان کے ما سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں ۔ اور جو شخص کسی کی محبت کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر مقدم رکھے گا تو اللہ تعالی نے اسےان الفاظ میں دھمکی دی ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : { قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ } [ سُورَةُ التَّوْبِةِ : 24 ] آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمھارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جسکی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمھیں اللہ سے اور اسکے رسول سے اور اسکی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے ، اللہ تعالی فاسقون کو ہدایت نہیں دیتا۔ اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ، اللہ کی قسم آپ میرے نزدیک میری ذات کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ ‘ تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسکے نزدیک اسکی جان سے سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاوں ، یہ سنکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ، اللہ کی قسم تب تو آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں یہ سنکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الآن یا عمر ، اے عمر اب [تم پورے مومن ہوئے ہو ] [صحیح البخاری : ۶۶۳۲ الایمان والنذور ، مسند احمد ۴/۲۳۳ بروایت عبد اللہ بن ھشام] { ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu } سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |