حقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسط نمبر : 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حقیقت محمد رسول اللہ

صلی اللہ علیہ وسلم

قسط نمبر : 5

سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ

مترجم: مقصود الحسن فيضي

{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

پچھلی قسط کے آخری سطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ کی قسم تب تو آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں یہ سنکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الآن یا عمر ، اے عمر اب [تم پورے مومن ہوئے ہو ]

[صحیح البخاری : ۶۶۳۲ الایمان والنذور ، مسند احمد ۴/۲۳۳ بروایت عبد اللہ بن ھشام]

نصرت وتعظیم کی دلیل:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدداور تعظیم کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :{فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } [ سُورَةُ الأَعْرَافِ : 157]

سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور انکی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہی جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں ۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے : { إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا . لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً } [ سُورَةُ الفَتْحِ : 8،9 ]

یقینا ہم نے تجھے گواہی دینے والا ااور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے ، تاکہ [ اے مسلمانو] تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لاو اور اسکی مدد کرو اور اسکا ادب کرو اور اللہ تعالی کی پاکی بیان کرو صبح وشام ۔

نیز ارشاد فرمایا:{ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ }[ سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ : 81 ]

پھر تمھارے پاس وہ رسول آئے جو تمھارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہے۔

اور اہل ایمان کے ایک جماعت کی صفات بیان کرتے ہوئے اور انکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : { لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ } [ سُورَةُ الْحَشْرِ : 8 ]

فئ کا مال ان مہاجرین مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مال سے نکال دِیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اسکی رضا مندی کے طلبگار ہیں اللہ تعالی کی اور اسکی رسول کی مدد کرتے ہیں ، یہی راست باز لوگ ہیں ۔

نیز فرمایا : { إِلاَّ تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ } [ سُورَةُ التَّوْبِةِ : 40 ]

اگر تم ان [نبی صلی اللہ علیہ وسلم] کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی [اس وقت جبکہ کا فروں نے [دیس سے ] نکال دیا تھا ]۔

ایک اور جگہ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہوتے ] ارشاد باری تعالی ہے: { لاَ تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا} [ سُورَةُ النُّورِ : 63]

تم لوگ اللہ تعالی کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کا ہوتا ہے۔

موالات کی دلیل : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مولات کی دلیل یہ فرمان الہی ہے : { إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ . وَمَنْ يَتَوَلَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ } [ سُورَةُ الْمَائِدَةِ : 55، 56 ]

[مسلمانو] تمھارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں ،جو نمازوں کی پاندی کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع [خشوع وخضوع ] کرنے والے ہیں ، اور جو شخص اللہ تعالی سے اور اسکے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے وہ یقین مانے کہ اللہ تعالی کی جماعت ہی غالب رہے گی ۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : { إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ } [ سُورَةُ التَّحْرِيمِ : 4 ]

[اے نبی کی دونوں بیویو ]اگر تم دونوں اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرلو [تو بہت بہتر ہے ] یقینا تمہارے دل راہِ راست سے ہٹ گئے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو [جان لو کہ] اسکا کارساز اللہ ہے جبریل ہیں اور نیک ایمان دار اور انکے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں۔

4۔ مکمل تحکیم شریعت اور اس پر کامل رضا مندی :

اس شہادت کی حقیقت میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ آپ کی مکمل تابعداری کی جائے ، آپ ہی کو حکم وفیصل مانا جائے اور آپ کے فیصلے پر راضی ہوا جائے ۔

اسکی دلیل یہ فرمان الہی ہے : { فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 65 ]

سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔

ایک اور جگہ اللہ تبارک وتعالی اہل ایمان کی صفت بیان کرتے ہوئے ، انکی تعریف اور انکی شان خود سپر دگی کو سرا ہتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : { إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ }

[ سُورَةُ النُّورِ : 51 ]

ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول ان میں فیصلہ کردیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا ، یہی لوگ کامیاب ہونے والےہیں ۔

اور اسکے بر خلاف منافقین جو حقیقت کے خلاف ظاہر کرتے ہیں انکی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : { وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ . وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ . وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ . أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولَئِكَ هُمَ الظَّالِمُونَ } [ سُورَةُ النُّورِ : 47،50 ]

اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی اور اسکے رسول پر ایمان لائَے اور فرمانبرادار ہوئے ، پھر ان میں سے ایک فرقہ اسکے بعد بھی پھر جاتا ہے ، یہ ایمان والے ہیں ہی نہیں، جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اسکا رسول انکے جھگڑ چکا دے تو بھی انکی ایک جماعت منھ موڑنے والی بن جاتی ہے ، ہاں اگر انھیں کوئی حق پہنچتا ہو تو وہ مطیع وفرمانبردار بن کر اسکی طرف چلے آتے ہیں ،کیا انکے دلوں میں بیماری ہے ؟ پایہ شک وشبہ میں بتلا ہیں یا انھیں اس بات کاڈر ہے کہ اللہ تعالی اور اسکا رسول انکی حق تلفی نہ کریں ؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں ۔

نیز انھیں رسوا کرتے ہوئے اور انکا اپنا رویہ چھوڑنے پر ان پر سختی سے تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا . وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 60، 61]

کیا آپ نے انھیں نہیں دیکھا جنکا دعوی تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر انکا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں ، شیطان تویہ چاہتا ہے کہ انھیں بہکا کردور ڈال دے ، ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالی کے نازل کردہ کلام کی اور رسول کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منھ پھیر کررکے جاتے ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کو ہرچھوٹے بڑے معاملے میں نافذ کرنا ایسا واجبی فریضہ ہے کہ کسی مومن ومسلمان کیلئے اس سے روگر دانی کی گنجائش نہیں ہے۔ افراد کو اپنے آپ پر نافذ کرنا اور حکام وذمہ دار حضرات کا اپنے ما تحت اور اپنی رعایا پر نافذ کرنا ضروری فریضہ ہے بلکہ ایسا کرنا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” کے شہادت کی حقیقت میں داخل ہے ۔

۵۔ اقتدا اور پیروی:

اس عظیم شہادت ، شہادت "محمد رسول اللہ ” کی حقیقت میں یہ بھیداخل ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی جائے ، آپ کو اپنے لئے نمونہٴ حیات بنا یا جائے ، آپ کے سنتوں کی پیروی کی جائے ، آپ کی زندگی میں اختلاف کی صورت میں آپ کی طرف رجوع کیاجائے اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے حدیثوں کی طرف رجوع کیا جائے اور آپ کی حدِیث کو ہر ایک کی رائے پر مقدم کیا جائے خواہ وہ شخص کوئی بھی ہو ،اور آپ کی مخالفت ونافرمانی اور آپ کے فرمان سے روگردانی کرنے سے پر ہیز کیا جائے ، اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے : { لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا } [ سُورَةُ الأَحْزَابِ : 21 ]

یقینا تمھارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ موجود ہے ، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالی کی اور قیامت کے دن توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کو یاد کرتا ہے ۔

نیز فرمایا: وماآتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا الحشر:۱۷

اور تمھیں جو کچھ رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں رک جاوء

اور جب کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کیا تو اللہ تبارک وتعالی نے سورہٴ آل عمران کی یہ آیت امتحان نازل فرمائی :{ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ } [ سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ : 31 ]

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہوتو میری تابعداری کرو۔

ایک اور جگہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: { فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً } [ سُورَةُ النِّسَاءِ : 59 ]

پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ کی طرف اور رسول کی طرف ، اگر تمہیں اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ۔

نیز ارشاد ربانی ہے : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ } [ سُورَةُ الْحُجُرَاتِ : 1 ]

اے ایمان والو اللہ اور اسکے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے :{ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِينًا }[ سُورَةُ الأَحْزَابِ : 36 ]

اور دیکھو کہ مومن مرد اور مومنہ عورت کو اللہ اور اسکے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ،[یاد رکھو ] اللہ تعالی اور اسکے رسول کی جو بھی نافرمانی کریگا وہ صریح گمراہی میں جاپڑے گا۔

اس سلسلے میں ایک اور جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :{ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } [ سُورَةُ النُّورِ : 63 ]

سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر زبر دست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دور نہیں کہ تم پر آسمان سے پتھر بر سیں ، میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم دیا اور تم لوگ اسکے مقابلہ میں کہتے ہو کہ ابو بکر وعمر کا یہ قول ہے [دیکھئے مسند احمد ا/۳۳۷ معمولی اختلاف کے ساتھ ، اوپر مذکورہ الفاظ کتاب التوحید باب ۳۷ ص ۱۳۱، ۱۳۲]

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب کسی کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ثابت ہو جائے تو اسکے لئے کسی اور کے قول کی بنیاد پر اس حدیث کا چھوڑنا جائز نہیں ہے [اعلام الموقعین ۲/ ۲۸۲]۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، مجھے ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو سند اور اسکی صحت کو جان لینے کے بعد سفیان کی رائے پر عمل کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی فرماتا ہے : فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر زبر دست آفت نہ آپڑے یا انہیں درناک عذاب نہ پہنچے ]

کیا تم جانتے ہو اس فتنہ سے کیا مراد ہے ؟ اس سے مراد شرک ہے کیونکہ ہوسکتا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو رد کردے تو اسکے دل میں کجی پیدا ہو جائے جو اسکی ہلاکت کا سبب بنے [دیکحئَے کتاب التوحید باب ۳۷ص ۱۳۱، ۱۳۲]

[ذرا سوچیں ] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ فرمان اس شخص سے متعلق ہے جو حضرت سفیان ثوری جیسے امام وقت ، زاھد وعابد ، قابل اعتماد عالم وفقیہ کی خلاف سنت رائے کو قبول کرتا ہے، پھر اس شخص سے متعلق کیاکہا جائے گا جوان سے کم تر درجے کے کسی عالم کی رائے کو حدیث پر مقدم رکھے گا؟

{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں