خیر وبرکت کا مہینہ آگیا

خیر وبرکت کا مہینہ آگیا

پہلا خطبہ:

الحمدُللهالعزيزالغفور،العليِّالشكور،شرعالصوملتعظُمالتقوىفيالصدور،وأجزلللصَّائمينالأجور،وأشهدأنلاإلهإلااللهوحدَهلاشريكَله،وأشهدأنَّنبيَّنامحمَّدًاعبداللهورسوله،صلَّىاللهعليهوعلىآلهِوصَحبهوسلَّمتسليمًاكثيرًا.

حمد وثنا کے بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، کیوں کہ تقوی آخرت کے لیے سب سے بہترین توشہ اور اللہ کی بیش بہا نعمتوں کا شکرانہ ہے۔

اے  معزز روزے دارو! جب بھی رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے، مسلمانوں کے لیے مبارک گھڑیاں اور ان بابرکت ایام کی نوازشیں  لوٹ آتی ہیں،  یہ ایسا مہینہ ہے جس میں روزے دار پاکبازی کی طرف اپنا قدم بڑھاتے ہیں، اور اپنی پیشانی سے زندگی کی شدت ومشقت  كو دور کر لیتے ہیں،  مسلمان اور متقی حضرات  خوشی وفرحت اور شادمانی ومسرت  کے ساتھ اس مہینہ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

أَتَىرَمَضَانُمَزْرَعَةُالْعِبَادِ

لِتَطْهِيرِالْقُلُوبِمِنَالْفَسَادِ

فَأَدِّحُقُوقَهُقَوْلاًوَفِعْلاً

وَزَادَكَفَاتَّخِذْهُلِلْمَعَادِ

وَمَنْزَرَعَالْحُبُوبَوَمَاسَقَاهَا

تَأَوَّهَنَادِمًايَوْمَالْحَصَادِ

ترجمہ: رمضان آگیا  جو بندوں کے لیے (نیکیوں کی) کھیتی ہے، تاکہ وہ اپنے دلوں کو (گناہوں کی ) غلاظت سے پاک وصاف کرسکیں۔ اپنے کردار وگفتار کے ذریعہ اس کے حقوق ادا کرو اور اسے آخرت کے لیے توشہ کے طور پر اختیار کرو۔جو شخص بیج   تو بوتا ہے لیکن اس میں پانی نہیں   ڈالتا تو  اسے  کٹائی کے موسم میں حسرت وافسوس  کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

روزہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک راز ہے، اس کے ذریعہ بندہ اخلاص کا درس بروئے عمل لاتا ہے، تاکہ  ریا ونمود سے دور رہ کر تمام عبادتوں کوروزہ ہی کی طرح  اخلاص کے ساتھ ادا کرے، روزہ  میں بندہ پیاس کی شدت اور بھوک کی تلخی برداشت کرتا ہے، جس کے بدلے روزہ داروں کے لیے  جنت میں ایک ایسا  دروازہ  ہے جس سے روزہ دار کے علاوہ کوئی نہیں داخل ہوگا، روزہ کے ذریعہ بھوکے  مسکین اور تنگ دست لوگوں کی یاد دلائی جاتی ہے، کیوں کہ روزہ کی حالت میں خوش حال وتنگ دست سب برابر ہوتے ہیں، سب کے سب اپنے پروردگار کے لیے روزہ رکھتے ہیں، اپنے گناہوں پر مغفرت طلب کرتے ہیں، ایک ہی وقت میں کھانے پینے سے باز رہتے ہیں، اورایک ہی وقت میں افطار کرتے ہیں،   بھوک او رپیاس  کے معاملے میں  دن بھر ان سب کی حالت یکساں ہوتی ہے، تاکہ تمام لوگوں کے بارے میں اللہ کا یہ فرمان سچ ثابت ہو کہ: ﴿ إِنَّهَذِهِأُمَّتُكُمْأُمَّةًوَاحِدَةًوَأَنَارَبُّكُمْفَاعْبُدُونِ ﴾ [الأنبياء: 92].

ترجمہ:یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے او رمیں تم سب کا پروردگار ہوں ، پس تم میری ہی عبادت کرو۔

اس ماہ کی راتیں پورے سال کی راتوں کا تاج ہے،  ان راتوں کے اوقات خوش نما ہوتے ہیں اور ان راتوں کی مناجات وسرگوشی شیریں اور دلکش ہوتی ہے،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے) اس حدیث کو مسلم اور اصحاب سنن نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ (جس نے امام کے ساتھ قیام کیایہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا)۔اس فضيلت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ بھی اس کی ادائیگی کا اہتما م کریں –اللہ آپ کی حفاظت فرمائے- ، تاکہ آپ بھی اس فضیلت سے سرفراز ہوسکیں۔

جو شخص اپنے نفس کو اطاعت الہی کا عادی  اور محبت الہی  کا خوگر نہیں بناتا  وہ  معصیت ونافرمانی اور ذلت وخواری سے دوچار ہوتا ہے۔

اے اصحاب فضیلت! رمضان ، دل کو غفلت  سے بیدا ر کرکے اس میں زندگی کی روح ڈالنے اور ایمان کی غذا فراہم کرنے  کا ایک حسین موقع ہے۔ "تاکہ اللہ کی محبت، اس (کے اجروثواب کی) امید اور اس (کے عذاب ) کا خوف  ہمارے دل میں پیدا ہو”۔رمضان،تقوی کی خصلتوں سے دامن مراد کو بھرنے کا ایک بہترین موقع ہے، رمضان میں اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کے بہت سے بیش بہا مواقع میسر ہوتے  ہیں۔

روزہ سے نفوس کی اصلاح ہوتی ،اس کے ذریعہ روزہ دار  اچھی خصلتوں سے آراستہ ہوتا  اور بری صفتوں سے دور رہتا ہے،  اس سے گناہ معاف ہوتے اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (جس نے رمضان کا روزہ ایمان ویقین کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رکھا اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے)۔متفق علیہ۔اور بخاری کی مرفوع روایت ہے: (جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ (روزے کے نام سے) اپنا کھانا پیناچھوڑ دے)۔

رمضان اطاعت، نیکی اور بھلائی کا مہینہ ہے، مغفرت ورحمت اور رضا وخوشنودی کا مہینہ ہے، آپ علیہ الصلاۃ السلام کی  حدیث ہے: (جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے مکمل طور پر کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، نیز شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں)۔

ترمذی اور ابن ماجہ کی مرفوع روایت ہے جسے البانی نے صحیح کہا ہے: (جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جنجکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رُک  جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے)۔سرکش جنوں کو جکڑ  دیا جاتا ہے، لیکن انسانوں میں جو شیطان ہیں وہ  اپنی سابقہ حالت پر آزاد پھرتے رہتے ہیں، اس لیے ان سے ہوشیار رہیں۔

اے روزے دراو! رمضان میں فحش اور حیاسوز ٹی وی چینلز عجیب وغریب طریقے سے متحرک ہوجاتی ہیں، جیسا کہ ہمارا مشاہدہ ہے، انسان سوچنے لگتا ہے کہ: رمضان جوکہ عبادتوں کا مہینہ ہے، اور جسے اسلامی شریعت  میں خاص مقام ومرتبہ حاصل ہے،  اس کا اس فنی، ڈرامائی اور تفریحی چیز سے کیا تعلق ہے؟ ا س سے بھی زیادہ خطرنا ک یہ کہ ان چینلز میں عریانیت ، فحاشی اور اس کے اسباب ومحرکات نشر کیے جاتے ہیں، اس لیے –اے میرے مبارک بھائی-آپ اپنے اجروثواب کی حفاظت کے فکر مندر ہیں، اپنے آپ کو خیر وبھلائی اور اطاعت وعبادت میں مصروف رکھیں اور کم از کم ایسے کاموں میں تو ہرگز مشغول نہ رہیں جو آپ کے لیے وبال جان بن جائیں۔

ایمانی بھائیو! رمضان ایک تربیت گاہ ہے  جس میں صاحب ایمان مسلمان یہ تربیت حاصل کرتا ہے کہ  محرمات کی تعظیم کا ارادہ مضبوط کرے اور زمین وآسمان کے مالک کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردے، اس طرح مسلمان اس تقوی کو بروئے عمل لاتا ہے  جو   روزہ کی مشروعیت کے پیچھے اللہ کا مقصد ہے:

﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواكُتِبَعَلَيْكُمُالصِّيَامُكَمَاكُتِبَعَلَىالَّذِينَمِنْقَبْلِكُمْلَعَلَّكُمْتَتَّقُونَ ﴾ [البقرة: 183].

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

نفس کا جائزہ  لینے اور غلطیوں پر اس کا محاسبہ کرنے اور آنے والے دنوں میں تلافی مافات کرنے کے لیے رمضان ایک بڑا موقع ہے،  بطور خاص اس لیے کہ اس مہینہ میں سرکش جنوں کو قید کردیا جاتا ہے، چنانچہ ہمیں اللہ اور رسول کی حرام کردہ  منہیات اور منکرات سے  بچنا چاہئے ،اور فرائض وواجبات کی پابندی کرنی چاہئے، سنن اور مستحبات کو کثرت سے ادا کرنا چاہئے ، کیوں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکتوں سے بہرہ ور فرمائے، ان  میں جوآیتیں او رحکمت کی باتیں ہیں ان سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ سب اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقیناً وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمدللهالموفِّقالمعين،إيَّاهنعبدوإياهنستعين،والصلاةوالسلامعلىالصادقالأمين،وعلىآلهوصحبهوالتابعينلهمبإحسان.

حمد وصلاۃ کے بعد:

میرے مبارک بھائی! آپ کے سامنے اس حدیث قدسی سے متعلق چند فکر انگیز نکتے بیان کرر ہا ہوں جسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے،  اللہ عزوجل  کا ارشاد گرامی ہے:  (ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں مگر روزہ، وہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کابدلہ دوں گا)۔ مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے: (ابن آدم کے ہر عمل (کے ثواب) میں اضافہ کیا جاتا ہے، نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا بلکہ (اس سے بھی زیادہ) جتنا اللہ چاہے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مگر روزہ (اس قانون سے مستثنی ہے) کیوں  کہ وہ (خالصتاً) میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ بندہ میری خاطر اپنی خواہشات اور کھانا ترک کرتا ہے)۔

پہلا نکتہ: یہ استثناء (مگر روزہ)  اس عظیم الشان عبادت کے مقام ومرتبہ کو واضح کرتی ہے۔

دوسرا نکتہ: اللہ تعالی نے جزا کو اپنی ذات کریمہ کی طرف منسوب کیا  ہے، یہ بات معلوم ہے کہ نوازش دینے والے کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے، اللہ پاک وبرتر غنی وبے نیاز، سخی وکرم فرما اور فیاض ہے، اس لیے آپ اس عبادت کو مکمل حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیجیے، کیوں کہ روزہ صرف کھانے پینے سے رک جانے کا نام نہیں ہے،(جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ (روزے کے نام سے) اپنا کھانا پیناچھوڑ دے) صحیح بخاری۔

تیسرا نکتہ: سوال پیدا ہوتا ہے کہ  تمام عبادتوں میں روزہ ہی کو یہ خصوصیت کیوں دی گئی ہے کہ : (سوائے روزہ کے، کیوں کہ  وہ (خالصتاً) میرےلیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا) ، جبکہ ساری عبادتوں کا مقصد اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہی ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: اس سلسلے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں  جن میں ایک مضبوط ترین قول یہ ہےکہ:

روزہ ہی وہ عبادت ہے  جس کے ذریعہ انسان کسی مخلوق کا تقرب حاصل نہیں کرتا ہے، برخلاف دیگر عبادتوں کے، دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ  غیر اللہ کے لیے نماز پڑھتے، مال خرچ کرتے ، ذبح کرتے اور اس سے دعا کرتے ہیں،  لیکن روزہ میں اس قسم کا شرک داخل نہیں ہوتا ، برخلاف دیگر اعمال کے، یہ بھی نہیں آیا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں کے لیے روزہ رکھا کرتے تھے، معلوم ہوا کہ روزہ خالص اللہ عزیز وبرتر کے لیےہے۔

ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ: اولاد آدم کے سارے اعمال قیامت کے دن  بطور قصاص ( دوسروں کو دیے جائیں گے) اور جن لوگوں کا  اس نے  دنیا  میں حق مارا ہوگا اور ان پر ظلم کیا ہوگا، وہ اس سے اپنا بدلہ لیں گے، سوائے روزہ کے ،  اللہ تعالی اسے محفوظ رکھے گا اور اس پر قصاص لینے والے غالب نہیں ہوپائیں گے، اور یہ عمل اس کے مالک کے لیے اللہ کے پاس محفوظ رہے گا، اس کی دلیل یہ حدیث ہے: (ابن آدم کا ہر عمل، اس كے لیے کفارہ ہے سوائے روزہ کے، وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا) صحیح بخاری۔

ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہےکہ: روزہ ایک باطنی اور مخفی عمل ہے جس سے اللہ پاک وبرتر کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، وہ دل کی نیت پر منحصر ہوتا ہے، برخلاف دیگر اعمال کے ، کیوں کہ سارے اعمال نظر آتے ہیں اور لوگوں کی نگاہ میں ہوتے ہیں، لیکن روزہ بندہ اور اس کے رب کے درمیان ایک راز کی طرح ہوتاہے۔

اے اللہ! ہمیں ایمان ویقین اور  حصول ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق عطا کر، ایمان ویقین اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام اللیل کرنے کی توفیق عطا کر، اے اللہ! قرآن مجید کو ہمارے دلوں  کی بہار بنادے۔

صلى اللہ علیہ وسلم

 

از قلم:

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں