بسم اللہ الرحمن الرحیم
273:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
دعائے استفتاح
بتاریخ : 26/ شوال 1436 ھ، م 11، اگست 2015 م
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً – قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: هُنَيَّةً – فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: ” أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ ” ( صحيح البخاري : 744 ، الأذان – صحيح مسلم : 598 ، المساجد )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور سورہ فاتحہ پڑھنے کے درمیان تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہتے تھے ، میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں ، تکبیر تحریمہ اور قراءت کے درمیان جب آپ خاموش رہتے ہیں تو کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ "
اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کردے جتنی دوری مشرق و مغرب کے درمیان ہوتی ہے ، اے اللہ مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے ، اے اللہ میرے گناہوں کو پانی سے دھو دے ، برف سے اور اولے سے دھو دے ۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم } ۔
تشریح : نبی کریم ﷺ اپنی نماز کی ابتدا تکبیر [اللہ اکبر ] سے کرتے ، اس سے قبل کسی بھی دعا یا ورد جیسے زبان سے نیت وغیرہ کا ذکر کسی صحیح و ضعیف حدیث میں وارد نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے کچھ ایسا وارد ہے ، البتہ اللہ اکبر کے بعد نبی ﷺ سے قراءت کرنے سے قبل مختلف ذکر و دعا کے پڑھنے کا ذکر حدیثو ں میں ملتا ہے ، اس بارے میں سب سے صحیح حدیث وہ ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں مروی ہے اور جس کے الفاظ اوپر مذکور ہوئے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اللہ اکبر کہنے اور سورہ فاتحہ پڑھنے کے دوران نبی ﷺ کچھ دیر کے لئے خاموش رہتے ہیں ، اب ظاہر ہے کہ یہ خاموشی کسی مقصد کے لئے ہی ہوسکتی تھی کیونکہ نماز ذکر و دعا اور کلام الہی کی تلاوت کا نام ہے ، لہذا اس وقت کی خاموشی کچھ پڑھنے کے لئے ہی ہوسکتی ہے ، چنانچہ انہوں نے نبی ﷺ سے آپ کی خاموشی کے دوران پڑھنے والے ذکر سے متعلق سوال کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس دوران میں یہ دعا پڑھتا ہوں [ جس دعا کا ذکر ابھی ابھی ہوا ]۔ یہ دعا معنی کے لحاظ سے بڑی اہم ، نبی ﷺ کی عبدیت کا بین ثبوت اور امت کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے ، اس دعا میں تین جملے ہیں جن کا ماحاصل یہ ہے کہ :
اے میرے رب اولا تو مجھے ہر قسم کی خطاوں اور غلطیوں سے اس طرح دور رکھ جس طرح تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے اور اگر بتقاضائے بشریت کوئی خطا مجھ سے سرزد ہوجائے تو اس پر مواخذاہ نہ کیجئے گا بلکہ اس کو معاف فرما کر اس کے داغ و دھبے سے بھی مجھے ایسا پاک و صاف کردیجئے جیسا کہ میل کچیل دور کرکے سفید کپڑا بالکل پاک وصاف کردیا جاتا ہے اور اے اللہ میرے گناہوں کو پانی ، برف اور اولے سے صاف کردے ۔
یہاں گناہوں کو صرف پانی سے دھونے کی درخواست پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ پانی کے ساتھ اولے اور برف کا بھی ذکر کیا گیا کیونکہ اولا تو اولے اور برف اپنی فطرت پر باقی رہتے ہیں اور ثانیا چونکہ گناہ آگ پر جلنے کا سبب ہے اور آگ کو ٹھنڈا پانی زیادہ آسانی سے بجھاتا ہے ۔
افتتاح سے متعلقہ مسائل : [۱] ہر نماز میں فرض ہو یا نفل دعائے استفتاح پڑھنا مسنون ہے ،البتہ جنازہ کی نماز اس سے مستثنی ہے ، کیونکہ کسی بھی حدیث میں جنازے کی نماز میں دعائے استفتاح پڑھنے کا ذکر نہیں ملتا، اسی طرح عام نمازوں میں جب مقتدی جماعت میں اس حال میں شامل ہورہا ہے کہ دعائے افتتاح کا وقت نہیں ہے ، جیسے امام کو رکوع کی حالت میں پا رہا ہے ، یا تشہد وغیرہ کی حالت میں جماعت میں شامل ہورہا ہے ۔
[۲] زیر بحث حدیث میں مذکورہ دعا سند کے لحاظ سے سب سے صحیح حدیث ہے اور بندوں کی حالت کے بھی بالکل مناسب ہے ، اس کے علاوہ دیگر اذکار و ادعیہ میں اس سلسلے میں وارد ہیں ، جیسے : «سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ» {سنن ابو داود :775 – سنن الترمذی :242 } ۔ یہ ذکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے لحاظ سے بہت کامل ہے، اسی لئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے، لہذا اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے ، ان کے علاوہ بھی متعدد ذکر و دعا حدیثوں میں مذکور ہیں ، بہتر یہ ہے کہ بندہ بدل بدل کر پڑھتا رہے ، یہ نماز میں خشوع و خضوع کے حصول میں معاون ہے ۔ [۳] دعائے استفتاح کا سراً [ یعنی آہستہ ] پڑھنا سنت ہے الا یہ کہ اگر تعلیم مقصد ہو یا کسی وجہ سے سانس چڑھا ہوا ہے اور آواز نکل جارہی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کےساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے {ابتدائے نماز میں } کہا :اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ” نماز کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا : یہ کلمے کس نے ادا کیا ہے ؟ ایک شخص نے جواب دیا : یا رسول اللہ ! میں نے آپ نے فرمایا : مجھے اسی پر تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے
فوائد :
- صحابہ کی نبی کریم ﷺ کی حرکات و سکنات پر توجہ دینا، خاص کر عبادات سے متعلق ۔
- نبی کریم ﷺ کی عبدیت کا اظہار کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے اگلے پچھلے گناہوں کو بخش دیا تھا اس کے باوجود اس قسم کی دعاوں کا اہتمام فرماتے تھے ۔
- برف اور اولے کا پانی پاک ہے بلکہ عام پانی سےزیادہ صاف ہوتا ہے ۔
- تکبیر وقرات کے دوران دعا کی جاسکتی ہے اور یہ دعا کی قبولیت کے اوقات میں سے ہے ۔