*دوسرا پارہ(سیقول)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

*دوسرا پارہ(سیقول)*

تحویل قبلہ: اس پارے کی ابتداء میں تحویل قبلہ کا ذکر ہوا ہے۔ابتدائے اسلام میں نماز کے لئے مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس تھا، اور نبی کریم ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے تو اس طرح نماز پڑھتے کہ کعبہ آپ کے سامنے ہوتا اور آپ کا رخ بیت المقدس کی طرف ہوتا۔لیکن ہجرت کے بعد جب آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو بیت المقدس اور کعبہ بالکل مخالف سمت میں پڑتےتھے۔چنانچہ آپ ﷺ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ،لیکن آپ کی دلی خواہش یہ تھی کہ کاش کہ ہمارا قبلہ کعبہ مشرفہ ہوتا ۔ اس وقت اللہ تعالی نے قبلہ کی تبدیلی کا حکم دے دیا۔اس پورے معاملے کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے ۔
جب قبلہ تبدیل ہوا تو یہود و منافقین نے مسلمانوں میں خلفشار پیدا کرنے کیلئے بہت سے اعتراضات اٹھائے۔ اس پارے کی ابتداء انہیں اعتراضات کے ذکر اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے۔
پارے کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ ﵟ سَيَقُولُ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَ ٱلنَّاسِ مَا وَلَّىٰهُمۡ عَن قِبۡلَتِهِمُ ٱلَّتِي كَانُواْ عَلَيۡهَاۚ ” عنقریب بے وقوف لوگ کہیں گے کس چیز نے انہیں ان کے (سابقہ)قبلے سے پھیر دیا”؟ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ احکام الہی پر اعتراض کرنے والے بے وقوف و احمق ہوتے ہیں ۔
ان میں سے دواعتراض کا ذکر بہت ضروری ہے:
1) قبلہ کی تبدیلی کی ضرورت کیا تھی ؟ اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا کہ مشرق و مغرب سب اللہ کا ہے ،وہ جس طرف بھی رخ کرنے کا حکم دے یہ اختیار اسی کو حاصل ہے، بندے کو چاہئے کہ اس کے حکم کی تعمیل کرے۔ نیز صراطِ مستقیم وہی ہے جس کا وہ حکم دیتا ہے ، وہی ہدایت وضلالت کا مالک بھی وہی ہے، وہ جسے چاہتاہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دے دیتا ہے[البقرہ:142]
2) جو مسلمان قبلہ کی تبدیلی سے پہلے وفات پا گئے، یا شہید ہوگئے ان کی نمازوں کا کیا ہوگا؟ ان کی نمازیں تو پھر ضائع ہو گئیں ؟
اس اعتراض کے جواب میں اللہ نے فرمایا:”وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ”’’اور اللہ تعالی تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا‘‘۔یعنی تمہاری پہلی نمازیں جو تحویلِ قبلہ سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی ہیں ، اللہ تعالی انہیں ضائع نہیں کرے گا۔
ان کےاعتراضات کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی بعض فضیلتوں کا ذکر اور قبلہ کی حقانیت بیان کی گئی۔اور مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ غیروں کے اعتراضات کی پرواہ کئے بغیر حکم الہی کو قبول کریں۔
نیز یہ بھی واضح کیا گیا کہ اصل چیز دلوں کی اصلاح اور نیک اعمال کی طرف سبقت ہے [البقرہ:148]۔
آیت 152، 153 – اس موضوع کے آخر میں اس عظیم نعمت یعنی تحویل قبلہ اور رسول اکرمﷺ کی بعثت پر مسلمانوں سے اللہ تعالی اپنے ذکر اور شکر کا مطالبہ کررہا ہے اور ذکر کی وہ فضیلت بیان فرمائی ہے جو شاید ہی کسی اور عمل خیر کی ہو، یعنی تم میرا ذکر کیا کرو میں تم کو یاد رکھوں گا ۔
آزمائش کے وقت مسلمانوں کی ذمہ داری:
دین کے راستے پر چلنے میں جن تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ان کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مختلف طریقوں سے یقینی طور پر مسلمانوں کو آزمایا جائے گا اور انہیں بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑیں گی ، لیکن اس وقت مسلمانوں کو دو چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہو گی :نماز اور صبر۔ اسی لئے یہاں ان کا خصوصی حکم دیا گیا اور پھر صبر کرنے والوں کیلئے انعامات کا ذکر بھی کر دیا گیا۔ [البقرہ:153 تا 157]۔
o تحویلِ قبلہ کے ذکر کی مناسبت سے، نیز ایک امتحان کے طور پر صفا ومروہ کے درمیان سعی کا حکم دیا گیا ، اور یہ اشارہ کیا گیا کہ یہ وہ چیز ہے جس کا علم قبلہ پر اعتراض کرنے والوں کو پہلے ہی سے ہے، لیکن وہ لوگ اسے چھپا رہے ہیں۔اسی مناسبت سے انہیں حق چھپانے پر سرزنش کی گئی اور حق کا اقرار کرکے توبہ کی دعوت بھی دی گئی۔ ورنہ انہیں چاہئے کہ آخرت میں دردناک عذاب کے لئے تیار رہیں۔
o اس پارے کے چوتھے صفحہ یعنی آیت نمبر۱۶۳ سے لیکر آیت نمبر۲۴۲ تک، یعنی 80 کے قریب آیات اسلامی احکام سے متعلق ہیں۔
o آیت 163 سے لیکر 176 تک مختلف اسلوب سے توحید کا بیان ہے، اللہ واحد سے محبت کا حکم ، شیطان کی اتباع سے پرہیز، اور اس عظیم کائنات کے مختلف حقائق بیان کرکے منطقی انداز سے شرک کی تردید کی گئی ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171) "کفار کی مثال ان جانوروں کی ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی کو سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) وہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں ، انہیں عقل نہیں ہے”۔
توحید کے بیان کے بعد اور فقہی احکام کا ذکر کرنے سے پہلے مسلمانوں کو ایک خصوصی نصیحت کی گئی ہے کہ اپنی روزی میں حلال و حرام کے احکام کو مدنظر رکھیں۔چنانچہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائیں اور حرام ومشکوک چیزوں سے مکمل طور پر اجتناب کریں ۔
توحید کے بیان کے دوران اور فقہی احکام بیان کرنے سے پہلے شیطان کی پیروی سے روکنا، باپ دادا کی اندھی تقلید سے بچنے کی دعوت دینا اور حلال کھانے کا حکم دینا، بڑا معنی خیز ہے۔ اس کے کئی اہم اسباب ہو سکتے ہیں:
1) توحید کا پہلا تقاضا یہ بھی ہے کہ بندہ حلال کھانے کا اہتمام کرے۔تاکہ اس کے جسم میں حلال کا خون بنے۔
2)حلال روزی سے دور رکھنے میں شیطان کا بہت بڑا دخل ہے۔
۳) باپ دادا کی اندھی تقلید شرک میں مبتلا ہونے اور حلال روزی سے دور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
۴) حلال روزی کھانا عبادات کی قبولیت کیلئے شرط ہے۔
o آیت ۱۷۴—۱۷۶ میں حرام مال کی ایک باطنی شکل پر تنبیہ کی گئی، یعنی حکمِ شرعی کو بدل کر یا چھپا کر جو مال لیا جاتا ہے وہ بھی تمہارے لئے اسی طرح حرام ہے جس طرح مردار اور خنزیر ۔
o آیت 177 میں متقین (نیکوں) کی صفات بیان کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ نیکی مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل نیکی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور اللہ کا تقوی اختیار کرنا ہے ،لہذا سمتوں کے بار ے میں بحث مباحثے کی بجائے احکام الہی کی پیروی کی جائے اور ایمان اور اعمال صالحہ پر توجہ دی جائے۔
o اس ضمن میں متقیوں کی چھہ اہم صفات کا بھی ذکر آگیا ہے۔
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (177)البقرة "ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰة کی ادائیگی کرے، جب وعده کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں”۔

o آیت 178سے احکام فقہیہ کا بیان شروع ہوا ہے اوراس پارے کے آخر تک تین درجن کے قریب احکام کا ذکر ہوا ہے۔
o قصاص کا ذکر کرتے ہوئے اسے زندگی کہا گیا ہے:”وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يا أولي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” ’’اے عقل والو! تمہارے لئے قصاص(خون کے بدلے خون) میں زندگی ہے، تاکہ تم(قتل نا حق سے) بچ سکو‘‘۔
اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو قصاص (خون کا بدلہ خون) وغیرہ شرعی حدود اورسزاؤ ں کو وحشیانہ سزائیں کہتے ہیں اورانہیں انسانیت کے ساتھ ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔
o آیت 180 تا 182 میں وصیت کے احکام بیان کئے گئے ہیں اور اس میں ردوبدل کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔
o آیت 183 تا 188 تک روزے کے احکام و مسائل بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں، روزے کی فرضیت، روزے کے بارے رخصت کے پہلو کا بیان اور رمضان و قرآن کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ تفصیل قرآن مجید میں کہیں اور نہیں ملے گی ۔
احکام روزہ کے دوران چار اہم چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:
1)دعاکا حکم اور اہمت بیان ہوئی ہےز جس کا مطلب ہے کہ دعا کا رمضان اور روزے کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔
2) مردوں کو عورتوں کا اور عورتوں کو مردوں کا لباس کہا گیا ہے۔اور یہ بات تو طے شدہ ہے کہ کوئی بھی حالت ایسی نہیں جس میں انسان کو لباس کی حاجت او ر ضرورت نہ ہوتی ہو۔
3) اعتکاف اور اس کے بعض احکام کا بیان ہوا ہے۔ کیونکہ اصل اعتکاف جو مسنون ہے وہ رمضان (کے آخری عشرے)کے ساتھ خاص ہے ۔
4) لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی ممانعت ۔
در اصل اس میں ایک لطیف اشارہ یہ ہے کہ روزے کی حالت میں وہ کھانا جو اصل میں حلال ہےجب وہ تمہارے اوپر حرام ہے،تو دوسروں کا مال جوہر حال میں تم پر حرام ہے وہ کیسے حلال ہوسکتا ہے ۔
o آیت 189 میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت بیان ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے لو گ اپنی عبادات جیسے روزہ ، حج ، معالات اور لین دین کے اوقات معلوم کرلیں۔
اسی ضمن میں ایک جاہلی رسم کی بھی تردید کی گئی ہے۔ جاہلیت میں بعض قبائل کا دستور تھا کہ جب وہ حج وعمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص حاجت کے لئے گھر میں آنے کی ضرورت پڑتی تو دروازے سے آنے کے بجائے خیمے کے پیچھے یا دیوار کی کسی کھڑکی یا سوراخ سے داخل ہوتے۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ کوئی نیکی نہیں ہے ، بلکہ یہ دین میں بے جا تکلف اورایک بدعت ہے۔ اصل نیکی یہ ہے کہ بندہ ہر میدان میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہے۔ اسی تابعداری میں کامیابی ہے۔
o آیت 196 تا 203 میں حج کے احکام بیان ہوئے ہیں اور بڑے اعجازی انداز میں حج کے ارکان وآداب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ان آیات میں 10 کے قریب حج کےآداب بیان ہوئے ہیں ۔
1- اخلاصِ نیت۔ آیت :۱۹۶
2- شہوت اور شہوانی باتوں سے پرہیز۔ آیت: ۱۹۷
3- گناہوں سے عموما پرہیز۔ خواہ صگیرہ ہوں یا کبیرہ۔ آیت:۱۹۷
4- جدل وجدال سے دوری۔ آیت: ۱۹۷۔
5- حج و عمرہ کے ارکان کو مکمل طور پر ادا کیا جائے۔ آیت ۱۹۷
6- نیکی کے کاموں کی کثرت۔ آیت: ۱۹۷
7- سفر خرچ کا اہتمام، تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ آیت: ۱۹۷
8- تواضع اور خالساری۔ آیت :۱۹۹
9- تقوی کا خصوصی اہتمام ۔ آیت :۱۹۷
10- استغفار و توبہ۔ آیت:۱۹۹
نیز اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں حج کے ان افعال کا ذکر ہے جن کا تعلق ظاہری عمل کے ساتھ ہے ،جیسے احرام باندھنا، احرام کی پابندیاں،وقوف عرفہ و مزدلفہ و غیرہ۔جبکہ سورہ حج میں ان افعال حج کا ذکر ہے جن کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔
o اس کےساتھ ساتھ درمیان میں کچھ دیگر احکام بیان ہوئے ہیں، جیسے چاند دیکھنےکا مسئلہ،حرم مکہ کا احترام ، حدودِ حرم دفاعی جنگ کی اجازت، اللہ کے گھر سے روکنے والوں سے قتال کی مشروعیت، شراب اور جوئے کی حرمت او ران کے نقصانات کا ذکر ہوا ہے۔
o آیت ۲۰۴-۲۰۷ ۔
آیاتِ حج کے خاتمے پر دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہوا ہے، ایک جو دنیا کے لئے دعا کرتا ہے اور دوسرا آخرت کے لئے۔ ان آیات میں انہیں کا ذکر ہے کہ ایک شخص جو منافق اور کافر ہے جو خدمتِ نبوی میں حاضر ہوکر قسمیں تو کھاتا ہے اور اپنے مخلص ہونے کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کا مقصد دنیا کا حصول ہے، جس کے لئے وہ جھوٹ اور زمین میں فساد کا سہارا لیتا ہے۔ جبکہ دوسرا سچاا ور مخلص مومن ہے جو دینِ حق اور اللہ کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔
o آیات ۲۰۸ سے آیت ۲۱۵ تک کا انداز ناصحانہ ہے، جن میں مسلمانوں کو متعدد قیمتی نصیحتی کی گئی ہیں۔جیسے:
1- دین اسلام میں کلیۃ یعنی قلب وقالب سے داخلے اور تمامِ احکام دین کو قبول کرنے کی دعوت ہے، تفرق واختلاف سے بچنے کا حکم ہے ۔
2- اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے، دنیاوی زیب وزینت سے پرہیز ، تقوی اختیار کرنے کی تاکید اور متقیوں کی فضیلت کا ذکر ہے۔ وغیرہ
3- آیت ۲۱۵ میں مسلمانوں کو تسلی ہے کہ کفار ومشرکین جو تمہارا استہزاء کرتے ہیں اور اس سے تم کو ایذا پہنچتی ہے، یہ خلاف تمہارے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ اہلِ حق کو ہمیشہ ہی آزمایا گیا ہے۔ ایسے موقعوں پر تمہیں صبر سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالی کی طرف سے آسانی کی امید رکھنا چاہئے۔
o پھر اس کے بعد مسلمانوں کے معاشرتی مسائل کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے چند اہم امور یہ ہیں۔
1) اہلِ شرک مرد ہوں یا عورت، ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ [البقرہ:221].
2)حالت حیض میں میاں بیوی کے تعلقات جائز نہیں ہیں ۔ اسی طرح کے دیگر مسائل[البقرہ:222]۔
3)غیر فطری طریقے سے عورت کے ساتھ مباشرت کرنی جائز نہیں ہے[البقرہ:223]۔
4) قسم کے بعض مسائل کا ذکر ہے ۔البقرہ:224، 225
5)ایلاء(خاوند کا اپنی بیوی سے قطع تعلقی کی قسم کھالینا)کے احکام اور یہ کہ اس کی مدت صرف چار مہینے ہے ۔[البقرہ:226] لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (227) "جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کے لئے چار مہینے کی مدت ہے، پھر اگر وه لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے واﻻ مہربان ہے۔اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے”۔
گویا کسی بھی شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی بیوی سےناراض ہو کر چار مہینے سے زیادہ اس سے قطع تعلق رکھے۔بلکہ یا تو اس سے تعلقات قائم رکھے یا اسے طلاق دے کر آزاد کر دے۔
5) عورتوں کی طلاق کی عدت کا بیان اور عدت کے احکام وآداب کا بیان ہے۔[البقرہ:228]
6) طلاق کا مشروع کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی اگر طلاق دینی بھی ہو تو اس کا صحیح طریقہ کون سا ہے؟[البقرہ:229]
یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند کو رجوع کا حق رہتا ہے وہ دو بار ہے۔ پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے۔ البتہ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
7) طلاق او رعدت کے دوران عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید کی گئی ہے[البقرہ:230]
بڑی خوبی یہ ہے کہ ان آیات میں مسلمانوں کو تقوی اختیار کرنے اور آخرت پر ایمان کو دھیان میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی لئے ان آیات کا اختتام اللہ تعالی کے اسمائے حسنی "سمیع، علیم، بصیر ، عزیز ” اور ‘حکیم” پر ہوا ہے۔
8) رضاعت یعنی دودھ پلانےکےاحکام و مسائل ایک طویل آیت (233)میں بیان کر دئیے گئے ہیں۔بلکہ اگر غور کیا جائے تو رضاعت کے اکثر مسائل کا بیان اس آیت میں کر دیا گیا ہے،جیسے:
*والدہ پر واجب ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلائے۔*رضاعت کی مدت دو سال ہے۔*حسب ضرورت اس میں کمی بھی کی جاسکتی ہے۔*مدت رضاعت میں والدہ کا خرچہ بچے کے والد یا ولی کے ذمے ہوگا۔*رضاعت کا خرچہ بھی والد یا بچے کے ولی پر ہوگا۔*دودھ پلانے کی حقدار والدہ ہے، لہذا دودھ پیتے بچے کو والد اس سے نہیں چھین سکتا۔*عورتوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ اپنی صحت خراب ہونے کے ڈر سے بچے کو زبردستی دودھ چھڑائیں۔
9) جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت اور اس سے متعلقہ مسائل کا بیان[البقرہ:234] اس آیت میں تین احکام بیان ہوئے ہیں۔
۱- جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے اس عورت کی عدت چار مہینہ دس دن ہے۔
۲- اس مدت میں وہ ہر قسم کی زینت سے دور رہے گی۔
۳- عدت گزرنے کے بعد وہ زیب وزینت اختیار کر سکتی ہے ، اور اپنے ولی کی اجازت سے دوسری شادی بھی کر سکتی ہے۔
10) عدت وفات کے دوران منگنی کرنےکے احکام و آداب کا ذکر کرتے ہوئے دوران عدت نکاح، نکاح کا پیغام وغیرہ کی ممانعت کو بھی واضح کیا گیا ہے [البقرہ:235]
11) حق مہر کے احکام کا بیان کیا گیا ہے۔ نیز طلاق کی صورت میں مہر کا کیا حکم ہوگا؟ اس کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کچھ صورتیں ذکر کی گئی ہیں:
پہلی صورت:حق مہر مقرر تھا اور ہمبستری کے بعد طلاق دی گئی۔
اس صورت میں عورت کامل مہر کی حقدار ہوتی ہے[جیسا کہ آیت نمبر 229 سے معلوم ہوتا ہے]۔
دوسری صورت: حق مہر مقرر نہیں تھا اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو گئی۔
اس صورت عورت کسی مالی حق کی مستحق نہیں ہے،البتہ خاوند حسب استطاعت کچھ نہ کچھ دے کر روانہ کر دے [البقرہ:236] ۔
تیسری صورت:حق مہر مقرر تھا، لیکن ہمبستری سے پہلے طلاق ہو گئی۔
اس صورت میں عورت نصف مہر کی حقدار ہوگی۔ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اپنا حق معاف کردے تو الگ بات ہے۔ [البقرہ:237] ۔
o ان معاشرتی احکام کے درمیان مسلمانوں کو بعض عبادات کا خصوصی حکم دیا گیا ہے۔جیسے:
1 عموما ہرنماز کی پابندی عموما اور خصوصانمازِ عصرکی پابندی کا تاکیدی حکم۔ آیت: ۲۲۸
2 خوف اور ہنگامی حالات میں بھی نماز کی تاکید، بلکہ پیدل وسوار کوئی بھی حالت ممکن ہو نماز کا اہتمام کرنا ہے
3 خوف کے جاتے رہنے کے بعد نماز کو اس کے ارکان وآداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔آیت:۲۲۹
4 جان کی پرواہ کئے بغیراللہ کی راہ میں جہاد۔ آیت:۲۴۴
5 اللہ کی راہ میں خرچ کا حکم اور اس پر بے حساب اجر کا وعدہ۔ آیت:۲۴۵
o اس پارے کے آخر میں دو اہم قصے بیان کئے گئے ہیں جو اس امت کیلئے باعث عبرت ہیں۔
٭٭ پہلا قصہ ان لوگوں کا ہے جو طاعون کی بیماری کے ڈر سے یا کسی اور وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں یا علاقے سے نکل کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالی نے انہیں موت دے دی اور پھر انہیں زندہ کردیا ۔
اس واقعے میں کچھ اہم عبرتیں یہ ہیں:
o 1)تم اللہ کی تقدیر سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
o 2)انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالی ہی کی ذات ہے۔
o 3)اللہ تعالی دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے او روہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اس نے ان لوگوں کو مار کر دوبارہ زندہ کردیا۔
٭٭ دوسرا قصہ طالوت و جالوت کا ہے جس کا ذکر آیت 246 سے لیکر 251 تک چھ آیات پر مشتمل ہے۔اس قصے میں بھی بڑی عبرتیں ہیں۔ خاص کر عصر حاضر کے مسلمانوں کے لئے یہ مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
o 1)—دین سے بے زاری اور صراط مستقیم سے دوری دشمن کے تسلط و غلبےکا سبب ہے۔
o 2)جہاد کے لئے کسی امام عام کا ہونا ضروری ہے۔
o 3) داعی کیلئے صبر و ثابت قدمی بہت اہم چیز ہے۔
o 4)جو شخص دنیاوی تکالیف پر صبر نہیں کر سکتا وہ دین کی وجہ سے ملنے والی تکالیف کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:«إِيَّايَ وَالتَّنَعُّمَ؛ فَإِنَّ عِبَادَ اللهِ لَيْسُوا بِالْمُتَنَعِّمِينَ»’’زیادہ عیش و آرام سے بچو ،بلاشبہ اللہ کے بندے عیش و آرام والی زندگی گذارنے والے نہیں ہوتے‘‘[مسند احمد(5/243)الصحيحة(353)بروایت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ]
o 3) فتح و شکست کا دار و مدار کثرت و قلت پر نہیں بلکہ اللہ کی مدد پر ہے۔
o ۴) اللہ کی مدد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ بندے صبر سے کام لیں ۔
o اس پارے کا اختتام اس فطری قانون پر ہوتا ہے:”وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ” . ’’اگر اللہ تعالی بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے نہ ہٹاتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے‘‘.
اس فرمان الہی کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں:
o 1)اللہ تعالی اگر نیک لوگوں (نمازی اور پرہیز گاروں) کی وجہ سے گناہ گاروں (بے نماز اور تقوی اختیار نہ کرنے والا) سے عذاب کو نہ ٹالتا تو تمام لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ۔ تفسیر المحرر الوجیز
o 2) اگر اللہ تعالی ظالموں اور ان کے ظلم کے خاتمے کیلئے اہل حق کو کھڑا نہ کرتا تو ظالموں کے گناہوں کی وجہ سے ساری دنیا ہلاک ہو جاتی۔
o اس پارے کی آخری آیت میں اللہ تعالی نے نبیﷺ کو یہ اطمینان دلایا کہ یہ گزشتہ واقعات جو اللہ تعالی کے بتانے سے آپ کو معلوم ہورہے ہیں ان میں آپ کی صداقت کی دلیل ہے۔تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (252)البقرة "یہ اللہ تعالی کی آیتیں جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں ، بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں”۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] –حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ہجرت کے بعدابتدا میں) سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔ ادھر آپ کو یہ پسند تھا کہ کاش آپ  کا قبلہ کعبہ مشرفہ ہوجائے۔  چنانچہ آپ کی خواہش کے مطابق آپ کو کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا، اس کے بعد آپﷺ نے سب سے پہلی عصر کی نماز پڑھی۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک شخص    کا گزر ایک مسجد والوں پر سے ہوا جو ابھی عصر کی نماز پڑھ رہے تھے تو  اس نے کہا: میں اللہ کا نام لے کر  اس بات کی گواہی  دیتا ہوں کہ میں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے۔ یہ سننا تھا کہ ان تمام لوگوں نے نماز ہی کی حالت میں  کعبہ کی طرف  رخ کرلیا۔ جبکہ یہود اس سے خوش تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ   بیت المقدس  یعنی اہل کتاب کے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں ، پھر جب آپ نے  اپنا رخ کعبہ کی طرف کرلیا  تو اس پر اعتراض کرنے لگے ، حتی کہ وہ یہ کہنے لگے کہ جو مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے اور ان کا انتقال ہوچکا  یا وہ شہید ہوچکے ہیں تو ان کی نمازوں کا کیا حکم ہوگا ؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی "وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ.[البقرة: 143] اللہ تعالی ان کے ایمان یعنی ان کی نمازوں کو ضائع کرنے والا نہیں ہے”۔                                                                            صحيح البخاري:4486

[1] — اس  حکم  میں ہمارے لئے دو بڑے اہم فائدے  مذکورے ہیں۔

نماز کی اہمیت کہ اسے ایمان کہا گیا ہے۔
ایمان  صرف دل کی تصدیق یا زبان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں اعمال بھی داخل ہیں۔

[1] — اس جگہ امتِ مسلمہ کی دو بڑی اہم فضلیتوں کا ذکر ہوا ہے۔

اول—یہ امت امت وسط ہے یعنی بہتر اور افضل امت ہے۔

دوم—اسی فضیلت  کا  مظہر ہے  کہ وہ قیامت کے دن دوسری امتوں   پر بطور گواہ کے پیش ہوگی اور خوبی یہ کہ  اس  کی گواہی اللہ کے نزدیک معتبر بھی ہوگی۔ تفصیل دیکھئے  راقم کی کتاب "امت محمدیہ کے فضائل”  ص: 76 اور اس کے بعد

[1] –دوسرے پارے کےشروع  سے  آیت 125 تک پڑھیں تو آپ کو ملے گا کہ نبیﷺ کوکعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم تین مرتبہ ، عام مسلمانوں کو یہ حکم دو مرتبہ ، اس قبلہ کے حق ہونے کا ذکر تین مرتبہ اور ہر جگہ اسی کی طرف متوجہ ہونے کا حکم تین مرتبہ  وارد ہے۔  اس سے اس حکم کی تاکید اور اس کی شان واضح ہوتی ہے۔ تفسیر القرآن اکریم  لحافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ  1/128 نقلا عن ابن عاشور

[1] –ﵟوَلِكُلٍّ وِجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَاۖ فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٰتِۚ أَيۡنَ مَا تَكُونُواْ يَأۡتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٍ قَدِيرٌ (١٤٨)” ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے تم نیکیوں کی طرف دوڑو۔ جہاں کہیں بھی تم ہوگے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے”۔

[1]–حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہود جس قدر ہم پر ان(درج ذیل) چیزوں پر حسد کرتے ہیں کسی اور چیز پر حسد نہیں کرتے۔ایک تو یہ کہ  اللہ تعالی نے ہمیں جمعہ کے دن کی معرفت کی توفیق بخشی اور وہ اس سے محروم رہ گئے۔دوسری  یہ کہ اللہ تعالی نے ہماری رہنمائی صحیح قبلہ کی طرف  کی اور وہ اس سے محروم رہ گئے۔ اور تیسری یہ کہ   امام کے پیچھے ہمارے آمین کہنے پر۔ مسند احمد6/ 134 دیکھئے الصحیحہ2/460، 461

[1] –ﵟفَٱذۡكُرُونِيٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡكُرُواْ لِي وَلَا تَكۡفُرُونِ (١٥٢)” اس لئے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔

امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ذکر کی فضیلت صرف سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر وغیرہ کہنے میں  محصور نہیں ہے بلکہ اللہ کی طاعت پر ہر عامل اللہ کا ذاکر ہے۔ المجالس القرآنیہ ص:۴۸

[1] –ﵟوَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَيۡءٍ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٰلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّٰبِرِينَ (١٥٥)” اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے۔

یہ ہیں وہ پانچ ناپسندیدہ چیزیں جن سے ہر مومن کو سابقہ پڑنا ہے۔

[1] — يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (172) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (173)البقرة "اے ایمان والو!جو پاکیزہ چیزیں   ہم نے  تمہیں دے رکھی ہیں انہیں  کھاؤ ،پیو اور اللہ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔ تم پر مردہ اور بہا ہوا خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا ہو حرام ہے، پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہواس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں ، اللہ تعالی بخشش کرنے والا مہربان ہے”۔

[1] — ﵟإِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَيَشۡتَرُونَ بِهِۦ ثَمَناً قَلِيلًا أُوْلَٰٓئِكَ مَا يَأۡكُلُونَ فِي بُطُونِهِمۡ إِلَّا ٱلنَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ (١٧٤)” بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

علمائے یہود میں یہ مرض عام تھا کہ عوام سے رشوت لے کر ان کے مطلب کے موافق فتوے دیدیتے  تھے، اور توریت کی آیات میں تحریف کرکےان کے مطلب کے موافق بناتے تھے۔ اس میں امتِ محمدیہ کے علماء کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ ایسے اعمال سے اجتناب کریں، کسی نفسانی غرض سے احکامِ حق کے اظہار میں کوتاہی نہ کریں۔ معارف القرآن ۱/۴۲۸

[1] — ﵟكُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (١٨٠)” تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اور ﺛابت ہے۔

وصیت کا یہ حکم آیاتِ مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا۔ نبیﷺ کا فرمان ہے:” اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، یعنی ورثہ کے حصے مقرر کر دئے ہیں۔ پس کسی وارث کےلئے  وصیت کرنا جائز نہیں”۔ البتہ ان ایسے رشتے داروں کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں، یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے۔ اور اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار ایک ثلث یعنی ایک تہائی رکھی گئی ہے۔ تفسیر احسن البیان ص:۶۹

[1] — یہاں اعتکاف سے متعلق  دومسئلوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک تو یہ کہ اعتکاف کا تعلق روزے سے گہرا ہے، لہذا معتکف کو حالتِ اعتکاف میں روزہ رکھنا ضروری ہے، دوم یہ اعتکاف مسجد میں ہو سکتا ہے۔

[1] — وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (188)البقرة ” اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ﻇلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حاﻻنکہ تم جانتے ہو”۔

[1] — اس سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی بات کو نیکی سمجھ کر دین میں داخل کر دینا  مذموم اور ممنوع ہے، بدعات بھی اسی ضمن میں آتی ہیں۔تیسیر القرآن 1/ا45

[1] — بعض اہل علم نے کہا کہ سورہ بقرہ اور سورہ حج میں جہاں حج کا بیان ہے اس دوران حاجی کو بارہ مرتبہ تقوی کا حکم ہے۔لیدبروا آیاتہ ص:99

[1] — ﵟوَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (٢٠٧)” اور بعض لوگ وه بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے واﻻ ہے۔

مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اپنی ہجرت کے موقع پر جب قریش نے انہیں روکنا چاہا تو اپنا سارا مال ان کے حوالے کردئے اور ہجرت کر گئے۔ جیسا کہ اس سے ماقبل آیتوں کا شانِ نزول اخنس بن  شریق کی ذات بتلاتے ہیں ۔ واللہ اعلم

[1] — ﵟأَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ (٢١٤)” کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک تم پر وه حاﻻت نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے”۔

[1] –اس سے معلوم ہوا کہ اسلام معاشرتی احکام وآداب  کے بارے میں بھی مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے ،اس لئے معاشرتی مسائل اور خاندانی معاملات خاص طور پر  میاں بیوی کے معاملات کو ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ ایک مسلمان بہتر طریقے سے زندگی گزار سکے۔

[1] — جیسے ا- کسی نیکی کے کام سے باز رہنے ، کسی گناہ کے کام کو انجام دینے کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ جیسے  کہ میں فلاں سے بات نہیں کروں گا، میں ان دونوں کے درمیان (صلح کی غرض سے)  نہیں پڑوں گا۔

2- اللہ تعالی ایسی قسم پر گرفت نہیں کرتا جو بلا قصد و ارادہ زبان سے ادا ہوتی ہے۔ یعنی اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔

البتہ جو قسم نیت اور ارادے سے کھائی جائے اس پر گرفت نہیں ہے ۔  اگر کسی نیک کام کے  کرنے کی قسم کھائی گئی ہے تو اسے پورا کیا جائے اور جو قسم کسی گناہ کرنے  کے لئے کھائی گئی ہو اس کو پورا نہ کیا جائے۔ بلکہ اسے توڑ کر اس کا کفارہ ادا کیا جائے۔

[1] — اس قصے کی کوئی تفصیل کسی صحیح حدیث میں مروی نہیں ہے ۔ تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ بتایا گیا ہے۔ اور اس پیغمبر کا نام  جن کی دعا سے انہیں اللہ تعالی نے انہیں دوبارہ زبدہ کیا،  حزقیل علیہ السلام بتلایا گیا ہے۔ یہ لوگ جہاد میں قتل کے ڈر سے  یا کسی وبائی بیماری کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے  ، تاکہ موت کے چنگل سے بچ جائیں ، لیکن اللہ تعالی نے ان کے اوپر موت طاری کردی ۔  تفسیر احسن البیان ص:111

[1] –ان آیات کی روشنی میں مفسرین رحمہم اللہ نے جو قصہ بیان کیا ہے   اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام  کی وفات کے بعد بنو اسرائیل  جب تک صراط مستقیم پر گامزن رہے یا اس کے قریب رہے  اس وقت تک  تو پاس پڑوس اور ارد گرد کی قوموں پر   انہیں فوقیت حاصل رہی اور ان پر غالب رہے،  لیکن جیسے ہی ان میں بے دینی اور بدعات پیدا ہوئیں تو اللہ تعالی نے  ان پر ان کے   دشمنوں کو مسلط کردیا، جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی بڑی تعداد کو غلام بنالیا۔

اس وقت دشمنوں کے حاکم کا نام  جالوت تھا جو ایک ظالم حاکم تھا۔

پھر جب  حضرت شمویل علیہ السلام نبی بنائے گئے تو بنو اسرائیل کے سرکردہ لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ ان کے لئے کسی بادشاہ کو مقرر کریں جس کی قیادت میں وہ جہاد کرسکیں اور اپنی زمین کو واپس  لے سکیں۔

وقت کے نبی  نے ان سے طاعت وفرمابرداری  کا عہد لینے کے بعد اللہ تعالی سے دعا کی اور بحکم الہی ان کے لئے طالوت  نامی ایک بادشاہ مقرر فرمایا جو جسمانی قوت اور علمی فوقیت میں ممتاز تھا۔

اس بادشاہ کے عہد میں بنو اسرائیل کے اطمینان کے لئے اس حاکم  کی کرامت کے طور پر  تابوت سکینہ نازل ہوا جس میں تورات کا نسخہ اور حضرت موسی اور هارون علیہما السلام کے تبرکات تھے۔

طالوت بادشاہ جب اپنی فوج لیکر جالوت کی فوج سے مقابلہ کے لئے نکلے تو راستے میں ایک ندی آئی ، جہاں اللہ تعالی نے بنو اسرائیل کو آزمانا چاہا، چنانچہ ان کے حاکم طالوت نے  اپنی فوج کی آزمائش  کے لئے یہ شرط رکھی کہ جو شخص اس ندی سے پانی نہ پئے گا  وہ میرے ساتھ رہے گا اور جو اس سے پانی پی لے گا وہ ہمارے ساتھ میں ثابت قدم نہ رہ سکے گا، البتہ اتنی اجازت ہے کہ سخت پیاس کی صورت میں اپنی پیاس بجھانے کے لئے ایک دو چلو پانی پی سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ سبھی لوگ  پیاس برداشت نہ کر سکے اور ندی سے پانی پی لیا ،جس کے نتیجے میں ایک چھوٹی جماعت کے علاوہ  پوری فوج جالوت کے مقابلےمیں حصہ لینے سے باز رہی۔ البتہ جو لوگ مقابلے کے لئے اٹھے انہوں نے واضح کر دیا کہ ہار وجیت لشکروں کی قلت وکثرت پر نہیں ،بلکہ صبر وثبات اور اللہ کی مدد پر ہے۔ لہذا وہ مقابلے کے لئے بڑھے اور اللہ تعالی نے انہیں دشمنوں پر فتح دی اور داود علیہ السلام کی ہاتھوں جالوت کا خاتمہ ہو گیا۔

[1] — ﵟكَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةً كَثِيرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ (٢٤٩)ﵞکتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

[1] — اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ "نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنا نبیوں کا کام نہیں ، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہوتو مفسد لوگ شہروں کو ویران کر دیں۔