بسم الله الرحمن الرحيم
دو سائل دربار نبوت ۖمیں نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نماز نمازحج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حج حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک انصاری صحابی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ( بعض روایات میں کہ ہم لوگ مسجد منی یعنی خیف میں اللہ کے رسول ۖ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ‘ طبرانی الکبیر صحیح الترغیب ص: ٩ ج: ٤ ) انہوں نے سلام کیا اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں ‘ آپ ۖ نے فرمایا : بیٹھ جائو ۔ اس درمیان ایک ثقفی صحابی آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ۖ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں کیا پوچھ سکتا ہوں ؟ آپ ۖ نے فرمایا : انصاری کا حق تم سے پہلے ہے ‘ لیکن انصاری نے کہا کہ یہ ایک اجنبی شخص ہیں ایک اجنبی کا کچھ حق ہوتا ہے اس لئے آپ اسکے سوالوں کا جواب پہلے دیجئے ۔ چنانچہ آپ ۖ ثقفی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اگر چاہو تو جن چیزوں سے متعلق سوال کرنا چاہتے ہو انہیں بتلادوں چاہو تو تم خود ہی سوال کرو اور اس کا جواب دوں ؟ ثقفی صحابی نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول بلکہ آپ ہی ہمارے سوالوں کا جواب دیجئے ‘ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا : تم ہم سے رکوع ‘ سجدہ ‘ نماز (نفل ) اور (نفلی ) روزہ سے متعلق سوال کرنے آئے ہو ! ثقفی نے جواب دیا کہ اس ذات قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جو کچھ میرے دل میں تھا اس میں سے آپ نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ۔ آپ ۖ نے فرمایا : جب رکوع کرو تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھو پھر انگلیوں کو پھیلاؤ اور رکوع میں اتنی دیر تک ٹہرے رہو کہ جسم کا ہر حصہ اپنی جگہ لے لے اور جب سجدہ کرو تو اپنی پیشانی کو زمین پر جمادو اور ( کوے کی ) چونچ مارنے کی طرح چونچ نہ مارو ‘ اور دن کے أول حصہ اور آخر حصہ میں جب بھی چاہو نماز پڑھو ۔ ثقفی صحابی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول اگران دونوں یعنی صبح وشام کے درمیان نماز پڑھوں تو ؟ آپ ۖ نے جواب دیاکہ اس وقت بھی تم نماز پڑھو ‘ اور ہرماہ کی تیرہ ‘ چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھو ۔ اسکے بعد ثقفی صحابی اٹھ کرچلے گئے ۔ پھر آپ ۖ انصاری صحابی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اگر تم چاہو تو میں ہی بتلادوں کہ تم کیا پوچھنے آئے ہو اور اگر چاہو تو تم خود ہی سوال کرو اور تمہاری باتوں کا جواب دوں ؟ انصاری صحابی نے کہا کہ نہیں ‘ اے اللہ کے رسولۖ آپ خود ہی بتلادیں کہ میں کیا پوچھنے آیا ہوں ۔ آپ ۖ نے فرمایا کہ تو حج سے متعلق سوال کرنے آیا ہے کہ حاجی جب اپنے گھر سے نکلے تو اسکا کیا اجر ہے ؟ طواف اور اسکے بعد دورکعت نماز پڑھنے کا کیا اجر ہے ؟ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا کیا أجر ہے ‘ میدان عرفات میں ٹہرنے پر کیا أجر ہے ؟ کنکری مارنے کا أجر کیا ہے ؟ حلق کرانے کاکیا أجرہے ؟ اور طواف افاضہ کا کیا أجر ہے ؟ ۔ انصاری صحابی نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جو کچھ میرے دل میں تھا اس میں سے آپ نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ‘ آپ ۖ نے فرمایا حاجی جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسکی سواری جب پیر أٹھاتی ہے تو اس پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جب اپنا پیر زمین پر کھتی ہے تو اسکے عوض ایک گناہ مٹادیا جاتاہے ‘ اور طواف کے بعد دو رکعت پڑھنے پر بنو اسماعیل کے ایک غلام آزاد کرنے کا أجر ملتا ہے اور صفا ومروہ کے درمیان سعی ستر گردن آزاد کرنے کے برابر ہے ‘ پھر جب حاجی عرفات کے میدان میں ٹہرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی سمائے دنیاء پر نازل ہوتا ہے اورفرماتا ہے ( فرشتوں سے ) میرے بندوں کو دیکھو کس طرح پراگندہ بال اور گرد آلود چہرے والے ہیں ( ایک اور روایت ہے کہ عرفہ کی شام اللہ تعالی فرشتوں سے بطور فخر بیان کرتا ہے کہ میرے بندوں کو دیکھو وہ ہر جانب سے پراگندہ حالت میں آئے ہیں ‘ میری رحمت کے امیدوار ہیں ) تم گواہ رہو کہ اگر انکے گناہ پانی کے قطروں ‘ ریت کے ذرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں تو اسے بھی معاف کردوں گا ( میرے بندو! یہاں سے اس حال میں رخصت ہو کہ تمہیں بخش دیا گیا اور انہیں بھی بخش دیا گیا جنکی تم سفارش کررہے ہو ‘ اور جب حاجی کنکری مارتا ہے تو ہرکنکری کے بدلے جو وہ پھینکتا ہے ایک کبیرہ گناہ معاف کیا جاتا ہے ( اور اسکے علاوہ بھی اسکا اتنا بڑا اجر ہے کہ اس کا بدلہ قیامت کے دن ہی دیا جائے گا ) اور قربانی کا اجر اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پاس جمع کر رکھا ہے .. فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرة أعین ‘ اور جب سر چھلاتا ہے تو ہر بال جو گرتا ہے ( اسکے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ‘ ایک گناہ مٹایا جاتا ہے اور ) وہ بال روز قیامت حاجی کیلئے نور کا سبب ہوگا ۔ اور اسکے بعد جب حاجی بیت اللہ شریف کا طواف کرتا ہے تو اس حال میں کرتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے ایسا پاک صاف رہتا ہے کہ گویااسکی ماں نے اسے ابھی جنا ہے ( ایک روایت میں ہے کہ ایک فرشتہ آکر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ اب نئے سر ے سے عمل شروع کرو تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف کردئیے گئے ۔ ( صحیح ابن حبان ‘ الطبرانی الکبیر عن ابن عمرو ) ( والطبرانی الأوسط عن عبادة بن الصامت …. دیکھئے ! صحیح الموارد ‘وصحیح الترغیب ص: ٩ـ١٢ ج: ٢) |