موضوع الخطبة : ذو القعيصتين
الخطيب : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
موضوع:
دو چوٹیوں والے (ضمام بن ثعلبہ)
پہلا خطبہ:
الحمد للهِ العلاّمِ الحكيم، الواسعِ العظيم، المحيطِ العليم، وأشهدُ ألا إله إلا اللهُ المولى الحميد، الطيّبُ المجيد، الخبيرُ الشهيد وأشهد أن محمدا عبده ورسوله وصفيّه وخليله، بلغ الرسالة، وأدى الأمانة ونصح الأمة وجاهد في الله حقّ جهادِه صلّى الله علَيه وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا.
حمد وثنا کے بعد!
میں آپ کو اور اپنے آپ کو سب سے عظیم اور مفید ترین، سب سے سود مند اور جامع ترین وصیت کی تلقین کرتا ہوں، جس کی وصیت اللہ نے ہمیں اور تمام سابقہ امتوں کو کی:
﴿ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّهَ ﴾ [النساء: 131]
ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔
رحمتِ الہی کے بعد تقوی ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعہ جنت کی نعمت اور اس کے بلند وبالا درجات حاصل کئے جاسکتے ہیں:
﴿ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيّاً ﴾ [مريم: 63]
ترجمہ: یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں۔
اے ایمانی بھائیو! آپ کے سامنے نبی کا یہ منظر پیش خدمت ہے..
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ: ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اوراس کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں :کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر می ہم اس مہینہ رمضان کے روزے رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا :جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (نمائندہ اور سفیر ) ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔
مسند احمدکی ایک روایت میں ہے کہ: نبی جب اپنی بات سے فارغ ہوئے تواس شخص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد اللہ کے رسول ہیں، میں تمام فرائض ادا کروں گا اور آپ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے، ان سے بچتا رہوں گا، اس سے نہ زائد عمل کروں گا اورنہ ان میں کوئی کمی کروں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ شخص اپنی اونٹنی کی طرف لوٹ گیا، جب وہ لوٹا تو رسول اللہ نے فرمایا: دو چوٹیوں والا یہ شخص (اپنی بات کو) اگر سچ کر دکھائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا، پھر اس نے اونٹنی کی رسی کھولی اور اپنی قوم کے پاس چلا گیا ، اس کی قوم کے لوگ اس کے پاس جمع ہوئے، اس نے سب سے پہلے جو بات کہی وہ یہ تھی کہ: لات وعزى غارت ہوں، لوگوں نے کہا: چپ کرو اے ضمام! تم برص، کوڑھ اور جنون سے بچو، اس نے کہا: تمہاری بربادی ہو، یقیناً وہ دونوں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع، اللہ عزیز وبرتر نے ایک رسول بھیجا ہے، اس پر ایک کتاب نازل کی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تمہیں اس شرک وبت پرستی سے نکالنا چاہتا ہے جس میں تم غرق ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، میں ان کے پاس سے ان کے اوامر ونواہی لے کر آیا ہوں ، راوی کہتے ہیں: اس دن کی شام ہوتے ہوتے اس بستی کے سارے مرد وزن مسلمان ہوگئے۔راوی کا بیان ہے: ابن عباس فرماتے ہیں: میں نے کسی قوم کے ایسے نمائندہ کےبارے میں نہیں سنا جو ضمام بن ثعلبہ سے زیادہ افضل ثابت ہوا ہو۔
اللہ اکبر…ایمان جب دل میں جاگزیں ہوجائے تو اس کامقام کتنا عظیم ہوتا ہے!
میرے احباب! آئیے ہم ٹھہر کر اس قصہ پر ذرا غور وفکر کرتے ہیں:
- اس قصہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اور آپ کے صحابہ کرام کی باہمی زندگی میں مکمل امتزاج اور ہم آہنگی پائی جاتی تھی، بایں طور کہ ان کے پاس جو اجنبی شخص جاتا وہ صحابہ کرام کے درمیان نبی کو نہیں پہچان پاتا! "تم میں سے محمد کون ہیں؟” دوسری روایت میں ہے: "تم میں سے عبد المطلب کا فرزند کون ہے؟”، نہ آپ شہرت کا لباس پہنتے اور نہ آپ کی حالت وکیفیت میں (دوسروں سے) کوئی امتیاز ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کو آپ کے ارد گرد کھڑے رہنے سے منع فرمایا، جیسے عجمی لوگ (اپنے آقا کے) ارد گرد کھڑے ہوا کرتے تھے، تاکہ آپ تکبر اور تعلی کرنے والوں کی حالت سے دور رہیں، صحابہ کرام کے ساتھ اسی قربت ، امتزاج اور ہم آہنگی کے ذریعہ آپ نے ان کے تصور وتخیل اور اخلاق واطوار کو درست کیا اور آپ کی محبت ان کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوگئی۔
- دوسری اہم بات نبی کا یہ فرمان ہے کہ: ” جو تمہارا دل چاہے پوچھو”، حق کے متلاشیوں اور ہدایت کے طلب گاروں کے لئے آپ کا یہ قول توجہ طلب ہے، یعنی ان کے لئے سوال کرنے کی ممانعت نہیں ہے، کیوں کہ جس دین کے ساتھ رسول اللہ مبعوث ہوئے اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو ذکر کرنے یا جس کے تعلق سے سوال کرنے سے شرم محسوس کی جائے۔
- ایک اہم درس یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ نبی حسن اخلاق سے آراستہ تھے،ضمام بن ثعلبہ کی گفتگو میں شدت تھی، انہوں نے کہا: ” میں آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا”،معلوم رہے کہ یہ سوال انہوں نے فتح مکہ کے بعد کیا تھا جب کہ لوگ دینِ الہی میں جوق در جوق داخل ہونے لگے تھے، اس کے با وجود نبی نے ان کے اسلوب ِتخاطب اور طبیعت (کی شدت کو) برداشت کیا۔
الله تعالى مجھے اور آپ سب کو کتاب وسنت سے فائدہ پہنچائے ، ان میں جو ہدایت اور حکمت کی بات ہے، اسے ہمارے لئے مفید بنائے ، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوف معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى.
حمد وصلاۃ کے بعد:
- مذکورہ قصہ سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ: ضمام بن ثعلبہ نے دین کی صحیح تعلیم اور عقیدہ کی توثیق کو بہت اہمیت دی، اسی لئے انہوں نے سفر کیا تاکہ رسول اللہ کے حوالے سےجوباتیں انہیں پہنچی تھیں ان کی تحقیق کرسکیں اور اپنے سابقہ دین کے تعلق سے حتمی فیصلہ لے سکیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول کی صداقت ظاہر ہونےکے بعد وہ اس کی دین کی ذمہ داری اپنے کندھے پر اٹھانے کے لئے کتنی سنجیدگی سے تیار تھے، اور یہ صداقت رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد ظاہر ہوگئی۔
- ایک غور طلب امر یہ بھی ہے کہ: یہ ایمان جب دل میں جاگزیں ہوجائے تو بڑے تعجب خیر نتائج سامنے آتے ہیں،ضمام بن ثعلبہ اس حال میں اپنی قوم کی طرف لوٹتے ہیں کہ ان کے دل سے لات وعزی نکل چکے ہوتے ہیں، بلکہ وہ انہیں سب وشتم کررہے ہوتے ہیں! جس کی وجہ سے ان کی مشرک قوم کو خوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں انہیں برص اور کوڑھ کی بیماری نہ ہوجائے، لیکن ایمان اور توحید کی کرن جب روشن ہوتی ہے تو ہر قسم کی خرافات اور تقلید کو پسپا کردیتی ہے: "تمہاری بربادی ہو، یقینا ان دونوں (باطل معبودوں کو) نہ نقصان پہنچانے کی قدرت ہے اور نہ فائدہ "۔
ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ: ہمیں دین کی تبلیغ و اشاعت کی اہمیت محسوس کرنی چاہئے، ضمام بن ثعلبہ کو دیکھیں وہ اپنے ایمان کا سر عام اعلان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں: ” میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (نمائندہ اور سفیر ) ہوں” ابن عباس فرماتے ہیں: ” میں نے کسی قوم کے ایسے نمائندہ کےبارے میں نہیں سنا جو ضمام بن ثعلبہ سے زیادہ افضل ثابت ہوا ہو”۔
- اے اللہ! تو ضمام بن ثعلبہ، تمام صحابہ کرام، تابعین عظام سے راضی ہوجا اور اے ارحم الراحمین! اپنی رحمت سے ہمیں بھی ان کے ساتھ اپنی رضا وخوشنودی سے نواز۔
قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین