بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان انسائیکلوپیڈیا بتاریخ :4،رمضان 1433ھ از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ رمضان اور سحری [۳] سحری کی تعریف:سحری اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو روزہ رکھنے کی نیت سے سحر کے وقت کھایا جاتا ہے ، سحر رات کے آخری حصہ کو کہا جاتا ہے ۔ سحری کا حکم : سحری کھاناسنت بلکہ ایک تاکیدی سنت ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سحری کھاو ، کیونکہ سحری کھانا باعث برکت ہے ۔ { صحیح بخاری – صحیح مسلم : 1095 ، بروایت انس } ۔ نیز فرمایا : جو روزہ رکھنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ سحری کھائے ۔ { مسند احمد : 3/367 – مسند ابو یعلی :3/438 ، بروایت جابر } ۔ سحری کا کھانا برکت ہے لہذا اسے ترک نہ کرو خواہ ایک گھونٹ پانی پی کر ہو ۔ الحدیث ۔ مسند احمد3/12، ابن ابی شیبہ3/83 بروایت ابوسعید۔ سحری کی فضیلت : سحری کھانے میں اللہ تعالی نے دینی وددنیوی بڑی خوبیاں رکھی ہیں۔ 1– سحری کھانے والوں پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اور فرشتے ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سحری کا کھانا باعث برکت ہے ، اسے چھوڑو نہیں خواہ ایک گھونٹ پانی ہی سےہو، کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ { مسند احمد: 3/12 } ۔ ۔۔ 2– سحری امت مسلمہ کا شعار ہے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے ۔ { صحیح مسلم : 1096 } ۔ 3– اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ برکت کا کھانا ہے جسے اللہ تعالی نے تمہیں عطا کیا ہے لہذا اسے چھوڑو نہیں ۔ { مسند احمد : 5/270 – سنن النسائی : 4/145 } ۔ سحری کی حکمت اور فوائد : سحری کھانے میں بڑے فوائد اور اس کی بڑی عظیم حکمتیں ہیں جیسے : ۱- سنت کی پیروی ، ۲- اہل کتاب کی مخالفت ، ۳- عبادت کے کام کے لئے قت ، ۴- نشاط وچستی ، ۵- صدقہ و خیرات کا موقعہ ، ۶- ذکر و دعا کیونکہ یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے ، ۷- روزے کی نیت کا تدارک ۔۔ وغیرہ { فتح الباری : 4/639 } ۔ سحری کا وقت : سحری کا وقت آدھی یا تہائی رات کے بعد کا حصہ ہے جو طلوع فجر صادق تک رہتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ، البقر’ 187.” کھاو اور پیو یہاں تک صبح کی سپیدی رات کی سیاہی سے نمایاں ہوجائے ” ۔ سحری کا افضل وقت : سحری طلوع فجر کے جس قدر قریب کھائی جائے وہ اس کا افضل اور بہتر وقت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا یہی عمل رہا ہے ۔ { مصنف عبد الرزاق :7591 – الفتح : 4/199 } ۔ نیز حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر آپ نماز فجر کے لئے کھڑے ہوگئے ، آپ کے سحری کھانے اور اذان کے درمیان صرف پچاس آیت پڑھنے کی مقدار کا فاصلہ تھا ۔ { صحیح بخاری : 1921 – صحیح مسلم : 1097 } ۔ یعنی آٹھ منٹ یا دس منٹ قبل۔ طلوع فجر سے پہلے پہلے سحری کھالینی چاہئے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : فجر دو ہیں [ صبح صادق اور صبح کاذب ] ایک فجر کھانے کو حرام کردیتی ہے اور نماز کو حلال اور دوسری فجر نماز [فجر ] کو حرام کرتی ہے اور کھانے [ سحری ] کو حلال ۔ { صحیح ابن خزیمہ : 356 – الحاکم :1/191 ، بروایت ابن عباس } ۔۔ یعنی صبح کاذب میں روزہ رکھنے والے کے لئے کھانا جائز ہے اور نماز فجر پڑھنا حرام ہے کیونکہ ابھی اس فجر کا طلوع نہیں ہوا ہے جس میں نماز فجر پڑھی جاتی ہے ، البتہ دوسری فجر جسے صبح صادق کہتے ہیں اس میں روزہ رکھنے کی نیت کرنے والے کے لئے کھانا حرام ہوجاتا ہے اور نماز فجر حلال ہوجاتی ہے ۔ نیز اللہ تعالی نے قرآن مجید میں رمضان کی راتوں میں کھانے پینے کی حد فجر صادق رکھی ہے ، لہذا فجر صادق کا ثبوت ہوجانے کے بعد سحری کھانا بند کردینا ضروری ہے ۔ طلوع فجر میں شبہ ہوتو کھا پی سکتا ہے : کیونکہ اصل چیز رات کا بقا ہے ، پھر جب تک طلوع فجر کا غالب گمان یالیقین نہ ہوجائے رات شمار ہوگی جس میں کھانا اور پینا جائز ہوگا ۔ صحابہ کی ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ { المجموع : 6/360 } ۔ سحری کھانے کے لئے ضروری نہیں کہ بھوک سے یا پیٹ بھر کر کھانا کھائے بلکہ معمولی سی چیز جیسے کھجور کے چند دانے یا گلاس کا دودھ یا چند گھونٹ پانی بھی سنت کی ادائیگی کے لئے کافی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سحری کھاو خواہ صرف پانی ہی پی کر ہو ۔ { صحیح الجامع الصغیر : 1/567 ، بروایت عبد اللہ بن سراقہ } نیز فرمایا : مومن کی سحری کے لئے کھجور کتنی اچھی چیز ہے ۔ { سنن ابو داود – صحیح ابن حبان : 883 ، الموارد ، بروایت ابو ہریرہ } ۔ گویا معمولی کے پینے اور کھانے سحری کی فضیلت حاصل ہع جائے گی۔ اگر موذن وقت سے پہلے اذان دیتا ہے تو اس کی اذان پر سحری بند کرنا ضروری نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیثیں اسی پر محمول ہیں ، ارشاد نبوی ہے : بلال رات کو اذان دیتا ہے جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے اس وقت تک کھاو اور پیو ۔ { صحیح بخاری : 617 – صحیح مسلم : 1097 ، بروایت عبد اللہ بن عمر } نیز فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اذان سن لے اور سحری کے کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہے تو اپنی ضرورت پوری کرنے سے قبل برتن کو نہ رکھے ۔ { سنن ابو داود : 2350 – احمد : 2/510 ، بروایت ابوہریرہ – دیکھئے المرعاۃ : 6/469 } ۔ ختم شدہ |