بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان انسائیکلوپیڈیا
بتاریخ :5،رمضان 1433ھ
از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
رمضان اور افطار [۴]
افطار کا وقت : یومیہ روزے کی ابتدا طلوع فجر سے ہوتی ہے اور غروب آفتاب اس کی انتہا ہے ، گویا جب سورج کی ٹکیہ افق مغرب سے غائب ہوجائے تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ” پھر رات تک اپنے روزے پورا کرو "۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اس طرف [ مشرق ] سے رات آئے ، اس طرف [ مغرب ] سے سورج جانے لگے اور مغرب میں سورج ڈوب جائے تو روزے دار نے افطار کرلیا ۔
{ صحیح بخاری : 1954 ، صحیح مسلم : 1100 } ۔
افطار کا حکم : وقت ہوجانے کے بعد افطار کرنا واجب ہے ، بلکہ سورج ڈوب جانے کے بعد روزہ ختم ہوجاتا ہے ، [ما سبق حدیث]
نیز آپ نےصوم وصال سے منع فرمایا ۔
{ صحیح بخاری : 1964 – مسلم : 1103 } ۔
افطار میں جلدی کرنا : سورج کے ڈوب جانے کی تحقیق ہوجائے تو افطار میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے ۔ ارشاد نبوی ہے : میری امت برابر خیر پر رہے گی جب تک افطار میں جلدی کرتی رہے گی ۔
سورج ڈوبنے کے بعد بطور احتیاط کے افطاری میں تاخیر بدعت ہے : ارشاد نبوی ہے : لوگ برابر بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے اس لئے کہ یہود و نصاری تاخیر کرتے ہیں ۔
{ ابو داود : 2353 – صحیح ابن خزیمہ : 2060 ، بروایت ابوہریرہ } ۔
سورج ڈوبنے سے قبل کسی بھی صورت میں افطار جائز نہیں ہے ،لہذا افطار کیلئے سورج ڈوبنے کا یقین یا غالب گمان ضروری ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : پھر میرا گزر ایک ایسی قوم پرہوا جنہیں ان کی ایڑیوں سے لٹکادیا گیا تھا ، اور ان کے جبڑے پھاڑے جارہے تھے جس سے خون بہہ رہا تھا ، میں نے پوچھا کون سے لوگ ہیں ؟ تو فرشتے نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو افطار کا وقت ہونے سے قبل افطار کرلیتے تھے ۔
{ صحیح ابن خزیمہ : 1986 – صحیح ابن حبان : 7448 ،بروایت ابو امامہ } ۔
یعنی سورج ڈوبنے سے قبل بغیر تحقیق کے روزہ افطار کرلیتے تھے ۔
افطار مغرب کی نماز پر مقدم ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک افطار نہ کرلیتے خواہ ایک گھونٹ پانی ہی سے ہو۔
{ صحیح ابن خزیمہ : 2063 – صحیح ابن حبان : 890 ، الموارد ، بروایت انس } ۔
افطار کس چیز سے کی جائے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ آپ تازہ کھجور سے افطار کرتے تھے خاص کر گرمی کے موسم میں لیکن اگر تازہ کھجور میسر نہ آتی جیسے سردی کا موسم تو آپ عام کھجور اور پانی سے افطار کرتے ، اگروہ بھی میسر نہ آتی تو پانی ضرور پی لیتے تھے ۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چند تازہ کھجوروں سے افطار کرتے ، اگر تازہ کھجور نہ ملتی تو عام کھجور سے افطار کرلیتے اور اگر وہ بھی میسر نہ آتی تو چند گھونٹ پانی کے لے لیتے ۔
{ سنن ابو داود : 2356 – احمد : 3/163 } ۔
افطار کسی ایسی چیز سے نہ کی جائے جو بدبودار ہو : نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے : جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علحدہ رہے ، یا یہ فرمایا کہ ہماری مسجد سے علحدہ رہے ۔
{ صحیح بخاری : 854 – صحیح مسلم : 564 ، بروایت جابر } ۔
اسی حکم میں ہر اس چیز کا کھانا و پینا داخل ہے جس سے نمازیوں کو تکلیف ہو ۔
افطار کا وقت بڑا مبارک ہے کیونکہ روزہ دار کی دعا عمومی طور پر اور افطار کے وقت خصوصی طور پر قبول کی جاتی ہے ، ارشاد نبوی ہے : تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ، روزہ دار جب روزہ افطار کررہا ہو ، انصاف پرور امام کی دعا اور مظلوم کی دعا ۔
{ سنن الترمذی : 2528 – ابن ماجہ : 1725 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
لہذا اس وقت میں ذکر و دعا میں مشغول رہنا چاہئے ۔
افطار میں مشغول ہوکر نماز میں زیادہ تاخیر اچھی نہیں ہے بلکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند کھجور اور پانی سے افطار کرکے نماز پڑھتے تھے ، دیکھئے : الضعیفہ للالبانی : 2/92، 93 ۔ ہاںاگر کبھی کبھار بھوک کی شدت ہے اور نماز میں دل نہ لگنے کا خطرہ ہے تو کھانا مکمل کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جب کھانا سامنے آجائے تو مغرب پڑھنے سے پہلے کھانا کھالو ۔۔ الحدیث ۔
{ بخاری : 672 – مسلم :557 } ۔
افطار کی دعا : واضح رہے کہ افطار سے قبل کی جو دعا مشہور ہے ” اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ، لہذا بسم اللہ کہہ کر اور دائیں ہاتھ سے افطار کرنا چاہئے اور اگر کوئی شخص اسے سنت نہ سمجھتے ہوئے بلکہ صرف ذکر کے طور پر اس دعا کو بھی پڑھ لیتا ہے تو ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے ، خاص کر بعض علماء نے اس حدیث کو قبول کیا ہے ۔ دیکھئے : { المرعاۃ : 6/475 } ۔
افطار کے بعد کی دعا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرلیتے تو یہ دعا پڑھتے : ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
[سنن ابوداود:2357.]
افطاری کرانا نیک کام ہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے اسے اس روزہ دار کے برابر اجر ملتا ہے اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔
{ الترمذی : 804 – ابن ماجہ : 1746 ، بروایت زید بن خالد } ۔
افطار کرانے والے کے لئے دعا : جس کے یہاں کھانا کھائے یا افطار کرے تو مستحب ہے کہ اس کے لئے دعا کرے ، اس موضوع سے متعلق بعض دعائیں یہ ہیں:
« أَكَلَ طَعَامَكُمُ الأَبْرَارُ ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ ، وَأَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ ». اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَاسْقِ مَنْ سَقَانِي
بعض مسائل :
۱- کسی شخص نے ایک مقام پر روزہ کی نیت کی پھر کسی اور شہر یا ملک کے سفر پر روانہ ہوا ، اگر یہ سفر مغرب کی سمت ہوتا ہے تو روزہ کی مدت لمبی ہوجارہی اور اگر یہی سفر جہت مشرق میں ہے تو روزہ گھنٹہ دو گھنٹہ چھوٹا ہوجار ہا ہے،لیکن ان تمام امور سے الگ تھلگ ہر صورت میں مکان افطار کا لحاظ کیا جائے گا ۔
{ فتاوی شخ ابن باز : 15/322 } ۔
۲- ایک شخص افطار کا وقت ہوجانے کے بعد ایر پورٹ پر افطار کرلینے کے بعد جہاز کا سفر شروع کرتا ہے چنانچہ کچھ دیر پرواز کے بعد اسے سورج دکھائی دیتا ہے ، ایسی صورت میں اس کا روزہ مکمل ہے اب اسے کھانے پینے سے رکے رہنے اور دوبارہ روزہ افطار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ختم شدہ