بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان انسائیکلوپیڈیا بتاریخ :۹،رمضان 1433ھ از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ رمضان اور بچہ [۵] بچوں کے روزوں کا حکم : بلاشبہ روزہ فرض تو بالغ مرد و عورت پر ہے لیکن تربیت کی بغرض اوربچوں عبادت کا عادی بنانے کے لئے روزہ رکھنے کا حکم دیا جائے گا ، مشہور صحابیہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کی صبح انصار کی آبادیوں میں منادی کرائی کہ جس نے روزہ کی نیت نہیں کی ہے وہ اب روزہ کی نیت کرلے اور جس نے روزہ کی نیت کی ہے وہ اپنا روزہ پورا کرے ۔ اس کے بعد ہم نے بھی روزہ رکھا اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھوایا ، حتی کہ ہم بچوں کے لئے رنگ برنگے دھاگوں کے کھلونے بنا کر رکھ لیتے اور جب وہ کھانے و پینے کے لئے بضد ہوتے تو بہلانے کے لئے انہیں یہ کھلونے دے دیتے حتی کہ روزہ افطار کرنے کا وقت ہوجاتا ۔ { صحیح بخاری : 1960 – صحیح مسلم : 1136 } ۔ اسی طرح ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جس نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تھا اور مزید یہ کہ اس نے دن میں شراب بھی پی رکھی تھی ، حضرت عمر نے اسے ڈاٹ پھٹکار سنائی اور کہا کہ تیرا برا ہو ، ہمارے بچے تو روزے سے ہیں اور تو نے شراب پی ہے ، پھر اسے سو درے لگائے اور مدینہ منورہ سے شہر بدر کردینے کا حکم دیا ۔ { صحیح بخاری و فتح الباری : 4/200، 201 } ۔ اس حدیث و اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ بچوں پر روزہ اگر چہ فرض نہیں ہے لیکن روزے اور عبادت کا عادی بنانے کے لئے انہیں روزے کا حکم دیا جائے گا بشرط یہ کہ بچے روزہ کی وہ طاقت رکھتے ہوں اور انہیں روزہ سے کوئی معقول جسمانی ضرر لاحق نہ ہوتا ہو ۔ روزہ رکھنے والے بچوں کی عمر : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کی تلقین کرو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز چھوڑنے پر انہیں مارو ۔ الحدیث ۔ { سنن ابوداود : 495 ، بروایت ابن عمرو } ۔ نماز ہی پر فقہاء نے روزہ اور دیگر اعمال عبادت کو بھی قیاس کیا ہے یعنی اگر بچے دس سال یا اس سے کچھ زیادہ عمر کے پہنچ جائیں اورروزہ کی طاقت رکھتے ہوں تو انہیں روزہ رکھنے کا تاکیدی حکم دیا جائے گا ، البتہ چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ان پر واجب نہ ہوگی ، نیز سات سال سےکم کے بچوں سے روزہ کا مطالبہ نہ کیا جائے گا ۔ روزہ کھلوائی کی رسم : آج چند سالوں سے یہ رسم چل چکی ہے کہ نابالغ بچوں سے روزہ رکھوایا جاتا ہے ، ان میں بہت سے بچے غیر تمیز اور بعض تو صرف پانچ یا چھ بلکہ بسا اوقات اس سے بھی کم عمر کے ہوتے ہیں ، پھر افطاری کے وقت ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں بچے کی روزہ کھلوائی کی رسم ادا کی جاتی ہے ، انہیں نئے نئے کپڑے پہنائے جاتے اور ہدیے اور تحائف پیش کئے جاتے ہیں وغیرہ، اور اب تو یہ چیزیں تصویروں کے ساتھ اخبار کی زینت بننے لگی ہیں ، یہ رسم قطعا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کئی خرابیاں ہیں : ۱- اس عمر میں روزہ خاص کر گرمی کے دنوں میں بچوں کے لئے باعث ضرر ہوتا ہے جسے شریعت جائز نہیں قرار دیتی ۔ ۲- بسا اوقات بچہ بھوک و پیاس کی تاب نہ لا کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ، جیسا کہ بار بار ایسی خبریں اخباروں میں پڑھنے میں آتی ہیں ۔ ۳- یہ چیز خالص نمائش اور اخباری بن کر رہ جاتی ہے جو روزہ جیسی عبادت جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک راز کی حیثیت رکھتا ہے کی حکمت کے قطعا خلاف ہے ۔ ۴- روزہ کھولنے اور کھلوانے کی یہ تقریب بدعت ہے جو عہد سلف میں نہیں تھی ۔ بچوں کی موت کا ذمہ دار کون : واضح رہے کہ اگر بچے کو والدین یا اس کے ولی نے روزہ رکھنے یا اسے برقرار رکھنے پر مجبور کیا اور وہ عمر کے اس مرحلہ میں ہے کہ بھوک و پیاس برداشت نہیں کرسکتا جس کے عوض اسے کوئی ضرر لاحق ہو رہا ہے تو اس کے ذمہ دار والدین یا ولی ہے ۔ اور اگر بچہ مرجاتا ہے تو جتنے لوگ اس میں شامل ہیں وہ گنہگار اور ان پر قتل نفس کا کفارہ واجب ہے یعنی دیت اور دو مہینے کا لگاتار روزہ ۔ واللہ اعلم ۔ بچہ اور تراویح : تروایح اور قیام رمضان المبارک کا ایک اہم حصہ ہے ، اللہ تعالی نے اس عبادت میں بڑی خیر و برکت رکھی ہے لہذا والدین اور گھر کے ذمہ دار کو چاہئے کہ جو بچے تراویح اور قیام کی استطاعت رکھتے ہوں انہیں اس کی ترغیب دلائیں اور اپنے ساتھ مسجد لے جائیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد سلف کا یہی عمل رہا ہے خاص کر عشرہ اخیر میں ۔ حضرت زینب بنت ابو سلمہ رضی اللہ عنہا بیان ہے کہ جب رمضان کے دس دن باقی رہ جاتے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کسی ایسے فرد کو سونے نہ دیتے جو قیام کی طاقت رکھتا ۔ {– الفتح : 4/269، بحوالہ سنن الترمذی ، و محمد بن نصر } ۔ ۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے ہر بڑے چھوٹے فردکو جو نماز کی طاقت رکھتا بیدار کرتے ۔ { مجمع الزوائد : 3/174 } ۔ ۔۔۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ محبوب ہے کہ جب رمضان کا آخری عشر ہ آجائے تو پوری رات تہجد میں مشغول رہا جائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی جو اس کی طاقت رکھیں شب بیداری کا حکم دے ۔ { لطائف المعارف : 341 } ۔ نابالغ بچے کی تراویح میں امامت : اگر صاحب تمیز اور نابالغ بچہ قرآن پڑھنا اچھی طرح جانتا ہے یا حافظ قرآن ہے اور وضو و نماز کے اہم مسائل سے واقفیت رکھتا ہے تو اس کی امامت تراویح و غیر تراویح میں جائز ہے ، عہد نبوی میں حضرت عمرو بن سلمہ جن کی عمر صرف چھ یا سات سال تھی اور وہ اپنے علاقہ کے لوگوں میںقرآن کے سب سے زیادہ حافظ کھتے اور وہ اپنی قوم کی امامت کرتے تھے ۔ { صحیح بخاری } ۔ رمضان میں خیر کے کام اور بچے : روزہ اور تراویح کی طرح رمضان المبارک میں تلاوت قرآن ، حفظ قرآن ، صدقہ و خیرات اور دیگر اعمال خیر کی طرف بھی بچوں کی توجہ دلانی چاہئے بلکہ ہر وہ عمل جو اس مبارک ماہ میں بالغوں کے لئے اہمیت رکھتا ہے نابالغ بچوں کو بھی ان میں شامل کرنا اور انہیں ترغیب دینا مطلوب ہے ۔ بعض مسائل : ۱- اگر نابالغ لڑکا روزہ کی نیت کے بعد کسی سبب سے روزہ توڑ دیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ ہے اور نہ ہی اس دن کی قضا و کفارہ لازم ہے ۔ ۲- ایک بچے نے روزہ رکھا لیکن دن میں سخت بھوک و پیاس کا شکار ہوگیا جس سے ضرر لاحق ہونے کا خطرہ ہے تو اس پر روزہ توڑ دینا واجب ہے اور اگر اس کے ذمہ دار اسے روزہ پر مجبور کرتے ہیں تو وہ گنہگار ہوں گے ۔ ۳- بچے نے روزہ نہیں رکھا اور دن میں بالغ ہوگیا تو باقی دن کا روزہ رکھنا اس پر واجب ہے اور اس کی قضا نہیں ہے ، لیکن اگر روزہ نہیں رکھا تو اس دن کی قضا واجب ہے ۔ ۴- بچے نے روزہ کی نیت کی اور دن میں بالغ ہوگیا تو اس پر یہ روزہ پورا کرنا واجب ہوگا اور یہ روزہ اس کی طرف سے فرض روزہ شمار ہوگا ۔ ۵- عام روزہ داروں کے حق میں جو نواقض روزہ ہیں وہی نابالغوں کے حق میں بھی ہیں ۔ ختم شدہ |