بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان انسائیکلوپیڈیا بتاریخ :10،رمضان 1433ھ از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ رمضان اور مریض [6] ارشاد باری تعالی ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [البقرة : 185] ” رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل ہیں ، لہذا جو شخص اس مہینہ کو پالے وہ اس کا روزہ ضرور رکھے ، ہاں ، اگر کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے ” ۔ زیربحث آیت میں جہاں رمضان المبارک کی فضیلت ، اہمیت اور اسکے روزے کے وجوب کو بیان کیا گیا ہے وہیں مریض اور مسافر کو وقتی طور پر روزہ نہ رکھنے کی اجازت بھی دی گئی ہے ۔ مریض : وہ شخص ہے جسے کوئی مرض لاحق ہو خواہ وہ مرض عارضی ہو یا دائمی ۔ مرض کی تعریف : انسان کی صحت کا حد اعتدال میں باقی نہ رہنا مرض یا بیماری ہے ، یعنی جس عام حالت میں اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا ہے اگر اس حالت میں تغیر پیدا ہوجائے اور ناسازی لاحق ہوجائے تو اسے مرض وبیماری کہا جاتا ہے ۔ روزہ اور بیماری : واضح رہے کہ انسان کو لاحق ہونے والی بیماریاں دو طرح کی ہوتی ہیں : ۱- دائمی بیماری ۔ ۲- عارضی بیماری۔ X دائمی بیمار سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے اور اس سے شفایاب ہونے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہے ، جیسے کینسر ، سخت قسم کے سوگر یا ہائی بلڈ پریشر کے مریض ۔۔۔۔ ایسے مریضوں کی دو حالت ہے : ۱- ان کے لئے کسی بھی موسم میں روزہ رکھنا باعث ضرر اور مشقت کا سبب ہے ۔۔ ایسے لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہے البتہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلانا ان پر واجب ہے ،جس کی صورت یہ ہے کہ یا تو ہر روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے ، یا ہر دن کے لحاظ سے سوا کیلو کے قریب غلہ مسکینوں کو دے دے ، یا پھر جتنے دن افطار کیا ہے اتنے مسکینوں کو جمع کرکے کھانا کھلادے ۔ ۲- دوسری حالت یہ کہ ایسے لوگ سخت گرمی اور بڑے دنوں میں تو روزہ نہیں رکھ سکتے ، یا لگاتار روزہ نہیں رکھ سکتے ، البتہ ٹھنڈے موسم میں جب دن چھوٹا ہوتا ہے تو ان کے لئے روزہ رکھنا آسان ہے ، ایسے لوگوں کے لئے مشقت کے دنوں میں افطار کرنا جائز ہے البتہ سہولت کے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے ۔ Xعارضی مریض سے مراد وہ مریض ہے جس کا مرض عارضی ہے ، یعنی دیر یا جلدی میں اس مرض سے شفایاب ہونے کی امید ہے ۔ ایسے مرض کی متعدد حالتیں ہوسکتی ہیں اور ہر ایک کا حکم بھی علحدہ ہے ۔ [۱] ایسی معمولی بیماری جو روزہ میں رکاوٹ نہیں ہے ، اور نہ ہی روزہ کی وجہ سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا خوف ہو جیسے معمولی زکام، سر درد ، ہلکا بلڈ پریشر اور معمولی سوگر کرکے مریض وغیرہ ۔ ۔ ایسے لوگوں کے لئے افطار جائز نہیں ہے کیونکہ مریض کے لئے روزہ کے رخصت کی جو علت ہے وہ یہاں موجود نہیں ہے ، علماء نے اس بارے میں جو ضابطہ رکھا ہے اس کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ [۲] ایسی شدید بیماری جس میں روزہ رکھنے سے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا البتہ روزہ رکھنے کی وجہ سے مریض کو مشقت و پریشانی ضرور لاحق ہوتی ہے ، اس حالت میں افطار جائز اور مستحب ہوگا ، اگر مشقت ہلکی ہے تو افطار جائز اور مشقت شدید ہے تو افطار مستحب ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس طرح اللہ تعالی کو یہ ناپسند ہے کہ اس کی نافرنانی کی جائے اسی طرح اسے یہ پسند ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصت پر عمل کیا جائے ۔ { مسند احمد : 2/108 ، – صحیح ابن حبان :2742 ، بروایت ابن عمر } ۔ [۳] روزہ کی وجہ سے مشقت کے ساتھ ساتھ ضرر بھی لاحق ہونے کا قوی اندیشہ ہے ، ایسی صورت میں روزہ رکھنا ناجائز ہوگا ، ارشاد باری تعالی ہے : وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ۔ البقرۃ:195″ اوراپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ” ۔ اور اگر اس ضررمیں جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہونے کا خطرہ ہو روزہ رکھنے کی حرمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ان دونوں قسم کے مریضوں کا حکم یہ ہے کہ وہ افطار کریں گے اور بیماری کے زائل ہونے کے بعد چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کریں گے ۔ شدید بیماری سے کیا مراد ہے ؟ علماء نے شدید بیماری کے لئے یہ ضابطہ رکھا ہے : ۱- روزہ کی وجہ سے بیماری میں اضافہ ہو ۔۔ ۲- روزہ کی وجہ سے شفا میں تاخیر واقع ہو ۔ ۳- روزہ کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو ۔۴- روزہ کی وجہ سے سخت مشقت لاحق ہوتی ہو ۔ مریض اور علاج : حالت روزہ میں مریض اپنا علاج کراسکتا ہے ، البتہ روزہ کے ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا حکم علاج کی نوعیت کی نوعیت پر ہوگا ، جس کا تفصیلی بیان روزہ کے نواقض میں آئیگا ۔یہاں بالاختصار اتنا معلوم رہنا چاہئےکہ جو دوا کھائی اور پی نہیں جاتی یا معدہ تک نہیں پہنچتی ، مریض اس کا استعمال کرسکتا ہے جیسے [۱] انجکشن لینا ، آنکھ میں دوا ڈالنا ، کان میں دوا ڈالنا ، سرمہ لگانا ، کیونکہ اولا:تو یہ دوائیں انسان کے معدہ تک نہیں پہنچتیں، ثانیا: روزہ کا باطل ہونا ایک شرعی حکم ہے جس کے لئے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہے جبکہ اس سلسلے میں جتنی حدیثیں وارد ہیں وہ یا سخت ضعیف ہیں یا پھر موضوع و من گھڑت ، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس بارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات ثابت نہیں ہے ۔ سنن الترمذی مع التحفہ3 /421، نیز دیکھئے عون المعبود7/4، ثالثا: سرمہ لگانا، کان میں تیل ڈالنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود اور کثیر الوقوع تھےاور ہر شخص اس کا حاجت مند تھا، پھر اگر یہ چیزیں فاسد صوم ہوتیں تو اس کا بیان ضرور ہوتا۔ [۲]آگے اور پیچھے کے راستے سے جو دوائیں دی جاتی ہیں، وقت حاجت مریض ان کا بھی استعمال کرسکتا ہے ، کیونکہ ان دواوں میں سے کوئی دوا بھی انسان کے معدہ تک نہیں پہنچتی ۔ ۔۔ ثانیا : شریعت میں اس کا بیان نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امور فاسد صوم نہیں ہیں ۔ [3] دمہ کے اسپرے وقت حاجت مریض استعمال کرسکتا ہے ، کیونکہ اس کا کوئی حصہ نہ معدہ میں جاتا ہے اور نہ ہی غذا کا حصہ بنتا ہے بلکہ گیس کی شکل میں صرف پھیپڑوں تک پہنچتا ہے ۔ [۴] دمہ کا وہ اسپرے جو پوڈر کی شکل میں ہوتا ہے مریض وقت حاجت اسے بھی استعمال کرسکتا ہے ، کیونکہ اس صورت میں بھی پوڈر پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے اور معدے میں داخل نہیں ہوتا ۔ [۵] البتہ وہ اسپرے جو مشین کے ذریعہ وینٹولین ، کرٹوزون اور پانی سے ملا کر لیا جاتا ہے ، اس کا بہت سارا مادہ مریض کے معدے میں جاتا ہے لہذا اس سے پرہیز کیا جائے ۔ [6] دل کا مریض جو گولی زبان کے نیچے رکھتا ہے تاکہ دل کی دھڑکن کنٹرول میں رہے مریض اس کا استعمال کرسکتا ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ اس کا کوئی حصہ معدہ میں داخل نہیں ہوتا ۔ بعض فتاوے : ۱- ایک شخص بیمار تھا ، لہذا صبح کو اس نے روزہ نہیں رکھا ، پھر دن میں وہ شفایاب ہوگیا تو دن کا باقی حصہ وہ کھا پی سکتا ہے ، اور اس دن کی بعد میں قضا کرے گا ، کچھ علماء کہتے ہیں کہ اسے دن کا باقی حصہ کچھ کھا پئے بغیر گزارنا چاہئے ۔ ۲- ایک شخص نے صبح کو روزہ رکھا لیکن دن میں اسے بیماری کا عارضہ لاحق ہوا تو اس کے لئے افطار جائز ہے ، جس کی قضا شفایاب ہونے کے بعد کرے گا۔ ۳- کسی ایسے مرض کی وجہ سے افطار کیا جس کے ختم ہونے کی امید تھی لیکن بعد میں وہ ایسا مرض ثابت ہوا کہ شفا کی امید نہیں ہے تو وہ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا ۔ ۴- ایک شخص نے رمضان کا روزہ بیماری کی وجہ چھوڑ دیا اور اس انتظار میں رہا کہ شفایاب ہو تو روزہ رکھے لیکن اسی حالت پر اسکا انتقال ہوگیا تو اس پر کوئی گناہ ہے اور نہ اس کے ولی پر روزہ رکھنا ہے ۔ ۵- ایک شخص کا مرض دائمی تھا جس نے افطار کیا اور مسکین کو کھانا کھلایا ، لیکن صورت حال ایسی ہوئی کہ اللہ تعالی نے اس کے علاج کی کوئی صورت پیدا کردی تو اب اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ۔ ۶- ایک شخص سے کسی بیماری کی وجہ سے روزہ افطار کیا جس سے اسے شفا بھی مل گئی اور روزہ قضا کرنے کا موقعہ بھی ملا لیکن اس نے قضا نہ کہ اور انتقال ہوگیا تو اس کے ترکہ سے فدیہ نکالا جائے گا یا پھر اس کے ولی اس کی طرف سے روزہ رکھیں ۔ ختم شدہ |