رمضان انسائیکلوپیڈیا :7

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رمضان انسائیکلوپیڈیا

بتاریخ :12،رمضان 1433ھ

از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

رمضان اور مسافر [7]

گذشتہ درس میں مذکور آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حالت سفر میں مسافر پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ، البتہ ان روزوں کی بعد میں قضا کرے گا۔

نیزحضرت حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : کیا میں سفر میں روزہ رکھو ں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چاہو تو روزہ رکھو یا چاہو تو افطار کرو ۔

{ صحیح بخاری : 1934 – مسلم : 1121 } ۔

حضرت انس بن مالک الکعبی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے مسافر پر سے آدھی نماز اورروزہ معاف کردیا ہے ۔ { مذکورہ آیت و احادیث سے مسافر کے لئے روزہ افطار کی اجازت ملتی ہے خواہ رمضان کا مہینہ اس وقت داخل ہوا جب وہ سفر میں تھا یا رمضان شروع ہونے کے بعد اس نے سفر شروع کیا ۔

مسافر کون ؟ :

اپنی جائے اقامت سے اتنی مسافت تک جانے والا شخص جتنی مسافت پر نماز قصر کی جاتی ہے مسافر ہے ، قصر کی مسافت 80 کیلو متر سے زیادہ کی مسافت ہے ۔

سفر میں افطار کے لئے کیا شرطیں ہیں :

سفر میں افطار کی رخصت کے لئے علماء نے درج ذیل شرطیں رکھی ہیں :

۱- سفر لمبا ہو یعنی کم از کم 80 کیلو میڑ یعنی جتنی مسافت پر نماز قصر کی جاتی ہے ،واضح رہے کہ روزے کے سلسلے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہے ، البتہ علماء نے روزے کو نماز پر قیاس کیا ہے ۔

۲- منزل پر پہنچنے کے بعد وہاں مدت اقامت کی نیت نہ کرے یعنی وہ مدت عام حالات میں چار دن سے کم ہو یا معلوم نہیں ہے کہ اسے کتنے دن قیام کرنا ہے ۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں پندرہ دن تک قیام پذیر رہے اور افطار کرتے رہے ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔

۳- بہت سے علماء کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ وہ سفر کسی گناہ کے کام کے لئے نہ ہو لیکن راجح یہ ہے کہ اس سفر کا گناہ اسے ہوگا البتہ چونکہ وہ مسافر ہے لہذا اسے روزہ افطار کرنے اورقصر کرنے کی اجازت ہوگی ۔

{ فتاوی ابن عثیمین : 19/143 } ۔

۴- البتہ اگر یہی سفر روزہ افطار کرنے کی غرض سے کیا جائے تو افطار کی اجازت نہ ہوگی کیونکہ اس نے سفر صرف روزہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کیا ہے ۔

{ فتاوی ابن عثیمین : 19/133 } ۔

سفر کی رخصت کب ختم ہوگی :

۱- اپنے گھر واپس آجائے ۔

۲- جس جگ سفر کی نیت سے گیا ہے وہاں اقامت کی نیت کرلے ۔

مسافر کے لئے افضل کیا ؟ روزہ یا افطار :

روزہ رکھنا اور افطار کرنا مسافر کے لئے دونوں امر مشروع ہیں ، البتہ افضل کیا ہے اسے درج ذیل نقاط سے سمجھنا چاہے :

[۱] اگر مسافر کے لئے روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں برابر ہیں اور بعد میں روزہ قضا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے تو افطار افضل ہے کیونکہ اللہ تعالی کو یہ پسند ہے کہ بندے اس کی دی ہوئی رخصت کو قبول کریں جس طرح اسے یہ ناپسند ہے کہ بندے اس کی نافرمانی کریں ۔

{ مسند احمد : 2/1080 – صحیح ابن حبان : 2742 } ۔۔۔

نیز ارشاد نبوی ہے : سفر میں روزہ افطار کرنا اللہ تعالی کی طرف سے ایک رخصت ہے لہذااگر کسی نے اسے قبول کیا تو یہ افضل ہے اور جسے روزہ رکھنا پسند ہو تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے ۔

{ صحیح مسلم : 1121 } ۔

[۲] اگر بعد میں روزہ رکھنا مسافر کے لئے مشکل ترین کام ہو تو اس کے لئے روزہ رکھنا افضل ہے خواہ بعض مشقتوں کا ہی سامنا کرنا پڑے ، اس لئے کہ اس میں براءۃ الذمہ ہے اور انسان کو گناہ سے بچانا ہے ۔

[۳] اگر مسافر کے لئے روزہ رکھنا آسان ہے تو روزہ رکھنا آسان ہوگا اور اگر افطارافضل ہے تو افطار کرنا افضل ہوگا ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےجب سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تمہارے لئے آسان ہو اس پر عمل کرو ، اگر سفر میں روزہ رکھنا آسان ہے تو روزہ رکھو اگر سفر میں افطار کرنا آسان ہو تو افطار کرو ۔

{ الصحیحہ : 2884 } ۔

[۴] اگر روزہ میں مشقت ہے لیکن ایسی مشقت نہیں جو شدید ہو یا ضرر رساں ہو تو روزہ رکھنا نا پسندیدہ اور مکروہ فعل ہے ، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو ایسی پریشانی میں ڈالا ہے جس کی ضرورت و حاجت نہیں تھی ، چنانچہ کسی سفر میں نبی صلی اللہ علیہ سلم کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو روزے سے تھا اور سخت دھوپ کی وجہ سے لوگ اس پر سایہ کئے ہوئے تو آپ نے فرمایا : سفرمیں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے ۔

{ صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔

۔۔۔ اسی طرح ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر کسی ایسے شخص پر سے ہوا جو پریشانی سے الٹ پلٹ رہا تھا آپ نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے بتلایا کہ یہ شخص روزے سے ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا اس کے لئے بطور نیکی کے یہی کافی نہیں ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں نکلا ہوا ہے اور رسول اللہ کے ساتھ ہے ۔

{ احمد : 3/327 }

۵- اگر کوئی شخص کسی اہم کام کے لئے سفر کررہا ہے اور روزہ اس کام کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس کے لئے افطار کرنا مستحب اور سنت ہوگا ، چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا ، تم لوگ اپنے دشمن کے مقابل ہونے والے ہو اور روزے نہ رکھنا تمہاریقوت و طاقت کا سبب ہے لہذا افطار کردو ۔

{ صحیح مسلم – سنن ابو داود :2406 } ۔

اسی طرح اگر کوئی شخص عمرہ کے سفر پر جارہا ہے اور روزہ رکھنا عمرہ ، طواف اور دیگر اعمال خیر میں رکاوٹ بن رہا ہے تو سنت ہے کہ افطار کرے اور اطمینان اور آسا نی سے اپنا عمرہ پورا کرے ۔

۶- اگر سفر میں روزہ رکھنے سے مشقت شدیدہ اور ضررر لاحق ہونےکا خطرہ ہے تو روزہ رکھنا ناجائز ہے ، اس لئے کہ اسلام ضرر کا حکم نہیں دیتا ،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں روزہ رکھنے والوں سے متعلق فرمایا : یہی لوگ نافرمان ہیں ، یہی لوگ نافرمان ہیں ۔

{ صحیح مسلم : 1114 } ۔

مسافر روزہ افطار کب کرے ؟:

جو شخص سفر کے ارادے سے نکلنا اور روزہ افطار کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے عام علماء کی رائے یہ ہے کہ وہ شہر یا آبادی سے باہر نکل جائے تب افطار کرے ، شہر کے اندر افطار کرنا جائز نہ ہوگا، جس طرح کہ نماز کا قصر اسی وقت مشروع ہوتا ہے جب مسافر شہر سے باہر نکل جائے ۔

لیکن بعض حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر سفر کا عزم و ارادہ ہے تو سفر شروع کرنےسے پہلے بھی افطار کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ محمد بن کعب بیان کرتے ہیں کہ ہیں حضرت انس بن مالک کی خدمت میں رمضان میں حاضر ہوا، اس وقت وہ سفر کے لئے نکل رہے تھے ، ان کی سواری تیار کی جاچکی تھی اور انہوں نے سفر کا کپڑا پہن لیا تھا اس حالت میں ان کے لئے کھانا لگایا اور کھایا۔ یہ دیکھ کر میں نے پوچھا : کیا سنت کا یہی طریقہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں ، پھر سواری پر سوار ہوگئے ۔

{ صحیح سنن الترمذی: 641 } ۔

اس معنی میں دیگر احادیث بھی کتب حدیث میں ہیں ۔

{ نیل الاوطار :4/229 } ۔

بعض مسائل :

[۱] اگر مسافر گھر واپس آجائے خواہ روزہ شروع کرنے سے چند منٹ پہلے ہو تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا فرض ہے ۔

[۲] اگر مسافر روزہ شروع ہونے یعنی طلوع فجر کے بعد گھر پہنچتا ہے اور اس نے طلوع فجر سے قبل روزہ کی نیت نہیں کی ہے تو اسے اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی ۔

[۳] اگر کوئی شخص کسی جگہ چار دن سے کم کے لئے مقیم تھا ، لیکن بعد میں مزید قیام کی نیت کرلیا تو اس پر باقی دنوں کا روزہ رکھنا واجب ہوگا ۔

[۴] ایک شخص رمضان میں ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتا تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں :

۱—- جس شہر میں تھا اور جس شہر میں منتقل ہورہا ہے دونوں شہر کا مطلعایک ہے اور دونوں شہروں کے رہنے والوں ایک ساتھ روزہ رکھا ہے۔ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

۲— جس شہر کی طرف منتقل ہورہا ہے اس شہر والوں نے جس شہر میں منتقل ہورہا ہے ان سے پہلے روزہ رکھنا شروع کیا ہے ۔ لیکن اس کے 29 دن یا 30 دن پورے ہوگئے تو راجح یہی ہے کہ شہر والوں کے ساتھ روزہ پورا کرے اور انہیں کے ساتھ عید منائےگا، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : روزہ کا دن وہ شمار ہو گا جس دن تم سب لوگ روزہ رکھو اور عید کا وہ دن شمار ہوگا جس دن تم سب لوگ افطار کرو ۔

{ سنن ابو داود – سنن ترمذی } ۔

۳— جس شہر کی طرف منتقل ہورہا ہے اس شہر والوں نے روزہ پہلے رکھنا شروع کیا ،جس کی وجہ سے اس کا صرف اٹھائیس روزہ ہورہے ہیں تو وہ عید اہل شہر کے ساتھ منائے گا اور چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کرے گا ۔

یا اس شہر والوں نے روزہ بعد میں رکھنا شروع کیا تو اس کے روزوں کے تعداد "31” یا "32” ہوجارہی ہے تو ایسا شخص دونوں صورتوں میں عید تو مسلمانوں کے ساتھ منائے گا اور اگر روزے زیادہ ہوجاتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں