بسم اللہ الرحمن الرحیم رمضان انسائیکلوپیڈیا بتاریخ :17،رمضان 1433ھ از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ رمضان اور مزدور [8] مزدور سے مراد ہماری مراد اس شخص سے ہے جو ایک مقررہ اجرت پر کسی اور کے یہاں کام کرتا ہے ، گویا وہ اپنے وقت کا ایک حصہ کسی اور کو ایک معاوضہ کے عوض بیچ دیتا ہے ۔ اسی طرح اس حکم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو اگر چہ کا م تو اپنا کرتا ہے لیکن چونکہ معمولی حیثیت کا مالک ہے لہذا بسا اوقات مشکل کام اور ایک محدود وقت میں کرنا پڑتا ہے ۔ مزدوری کرنا ایک فطری اور انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون ( الزخرف:32 ) ” ہم نے ہی ان کی زندگانئی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کرلے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے ” ۔ مزدوری اور بامشقت کام انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ حالت ہر زمانے اور ہر عصر میں موجود رہی ہے حتی کہ اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے انبیاء علیہم السلام نے بھی مزدوری اور مشقت کے کام کئے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں پر بھی رمضان آیا اور ان لوگوں نے بھی مزدوری کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک سے فائدہ اٹھایا ، لہذا ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم رمضان سے کیسے مستفید ہوسکتے ہیں ۔ مزدور اور رمضان : [۱] رمضان کی آمد پر خوشی : ایک مسلمان مزدور کو خواہ وہ کسی حالت میں ہو رمضان کی آمد پر خوش ہونا چاہئے کیونکہ رمضان کا مہینہ مل جانا بنفسہ ایک بڑی عظیم نعمت ہے ، یہ وہ مہینہ ہے جس میں رحمت الہی کی بارشیں ہوتیں اور مغفرت الہی کے سیلاب آتے ہیں ، الہی کرم کے ہوائیں چلتیں اور فضل الہی کے طوفان آتے ہیں : "قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ”(یونس: 58) "آپ کہدیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے ، وہ اس سے بدر جہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کررہے ہیں ” ۔ اس مبارک ماہ کی آمد کبیدہ خاطر اور ناراض قطعا نہ ہوں ورنہ خطرہ ہے کہ فریضہ ربانی اور احکام الہی کونا پسند کرکے کہیں اسلام کے منافی کام کے مرتکب نہ ہوجائیں : ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُم ( محمد:9) ” یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے ، پس اللہ تعالی نے [بھی ] ان کے اعمال ضائع کردیئے ” ۔ [۲] نیت درست رکھیں : مسلمان مزدور بلکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس مبارک مہینہ کی آمد پر روزہ ، تراویح اور دیگر اعمال خیر کے بارے میں اخلاص نیت اور احتساب کو مد نظر رکھے ،کیونکہ اگر نیت صالح رہی اور عزم صادق رہا تو اولا اللہ تعالی اپنے بندے کی عمل خیر پر مدد فرمائےگا، ثانیا اگر کوئی کمی رہ گئی تو نیت صادقہ کی برکت سے اللہ تعالی اس کمی کو پوری کردیگا، جیسا کہ علماء کہتے ہیں کہ "نیۃ المومن خیر من عملہ ” مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے ، کیونکہ بسا اوقات عمل پر اجر نہیں ملتا بلکہ بغیر نیت صادقہ کے عمل و بال بھی بن جاتا ہے جب کہ نیت صادقہ سے انسان بڑا اونچا مقام حاصل کرلیتا ہے ۔ [۳] کوشش : مسلم مزدور اور ہر مسلمان کو چاہئے کہ رمضان سے حتی الامکان مستفید ہونے کی کوشش کرے ، صحت اور فرصت کو غنیمت سمجھے اور اس بات پر اللہ کا شکریہ بجالائے کہ ایک بار پھر وہ بصحت و عافیت رمضان المبارک کو پا رہا ہے ، لہذا وہ ان لوگوں میں نہ شامل ہو جن سے متعلق ارشاد نبوی ہے : ” حضرت جبریل امین میرے پاس آئے اور فرمایا : جو رمضان کا مہینہ پالے لیکن اسے معاف نہیں کیا گیا لہذا وہ جہنم میں داخل ہوا تو ایسے شخص کو اللہ تعالی اپنی رحمت سے دور کردے ۔ کہئے آمین ، تو میں نے کہا : آمین ۔ مزدور اور روزہ : یہ امرواضح اور معلوم خاص و عام ہے کہ رمضان کا روزہ اسلام کا ایک رکن ہے، لہذا کسی بھی ایسے شخص کو جو رمضان کا مہینہ پالے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ، الا یہ کہ خود شریعت نے انہیں روزہ چھوڑدینے کی اجازت دی ہو ، جیسے مسافر ، مریض ، ایسا بوڑھا جو روزہ نہ رکھ سکتا ہو ، حاملہ اور مرضعہ عورتیں اور حیض و نفاس والی عورتیں، یا جو لوگ ان کے حکم میں ہوں ۔ اور کسی بھی نص شرعی میں مزدور اور بامشقت کام کرنے والوں کو اس حکم عام سے مستثنی نہیں کیا گیا ہے ، حالانکہ مزدوری اور عمل شاق ہر زمانے میں موجود تھا ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کے ماضی قریب تک ہمارے باپ دادا مزدوری اور مشکل سے مشکل ترین کام کرتے اور ساتھ ہی ساتھ روزہ بھی رکھتے رہے ہیں ۔ لہذا اصل یہ ہے کہ مزدوری اور عمل شاق روزہ افطا ر کرنے کے لئے عذر نہیں ہیں ، بلکہ ہر مزدور اور مشکل کام کرنے والے پر فرض ہے کہ رمضان کا روزہ رکھے اور بغیر کسی عذر شرعی کے افطار نہ کرے ۔ لیکن اگر کہیں ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ کام ایسا مشکل ہے کہ روزہ اور کام دونوں جمع نہیں ہوسکتے تو اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ شریعت میں اس کا حل نہیں ہے ، ایسا ہر گز نہیں ، بلکہ ہر مسئلہ کا حل شریعت میں موجود ہے اور علماء نے اپنی کتابوں میں اس کی وضاحت کی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے : [۱] کام کے وقت میں تخفیف اور رد وبدل کیا جائے اور روزہ رکھا جائے یعنی آٹھ گھنٹے ، دس گھنٹے کام کرنے کے بجائے صرف پانچ یا چھ گھنٹے کام کیا جائے ، اور صبح و شام کے ٹھنڈے وقت میں کام کیا جائے، جس طرح کہ سعودیہ عربیہ میں نظام ہے کہ رمضان میں مزدوروں سے صرف چھ گھنٹے کام لئے جائیں ۔ [۲] اگر یہ ممکن نہ ہوتو کام کو موخر کردیا جائے لیکن روزہ ضرور رکھا جائے ، جیسے دن کے بجائے رات میں کام کیا جائے ، یا کام کو رمضان کے بعد کے لئے موخر کردیا جائے ۔ [۳] اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو مزدور کو چھٹی لے لینی چاہئے اور روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے ، خواہ یہ چھٹی بلاتنخواہ ہی کیوں نہ ہو ۔ [۴] اگر چھٹی بھی ممکن نہ ہو تو ایسی نوکری کوچھوڑ کر اس کا کوئی بدل تلاش کرنا چاہئے لیکن روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے ،کیونکہ روزہ اللہ تعالی کا حق ہے ، جسے دوسرے تمام حقوق پر مقدم رکھا جائے گا اورمحض دنیا کے لئے ایک اسلامی رکن کو قربان نہ کیا جائے گا، نیز مومن کو یہ ایمان رکھنا چاہے کہ : وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب ( الطلاق :3)” جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے کوئی راہ ضرور نکالتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ” ۔ [۵] اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، جیسے یہ کہ روزی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور بچوں کے بھوکے رہنے کا خطرہ ہے یا اگر کھیتی کو ابھی نہ کاٹا گیا تو پانی یا چڑیوں وغیرہ کی نذر ہوجائے گی تو ایسی صورت میں روزہ افطار کرنا جائز ہوگا ، البتہ بعد میں دوسرے دنوں میں اس کی قضا کی جائےگی ۔ [۶] اور اگر دوسرے دنوں میں قضا ممکن نہ ہو جیسے کام برابر چلتا رہتا ہے جیسے بیکری وغیرہ جیسی جگہوں میں کام کرنے والے لوگ ، تو وہ روزہ افطار کریں گے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے ، ان کا حکم دائمی مریضوں اور بہت بوڑھوں کا ہوگا ۔ مزدور کے روزہ چھوڑنے کی شرط : [۱] چونکہ محض مزدوری اور عمل شاق عذر نہیں ہے لہذا ایسے لوگوں کو روزآنا سحری کھا کر روزہ کی نیت کرنی ہوگی ، کیونکہ یہ لوگ اس حکم الہی کے ضمن میں آتے ہیں : فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْه ( البقرة :185 ) ” جو رمضان کا مہینہ پالے وہ اس کا روزہ رکھے ” ۔ پھر دن کے جس حصے میں ان کے لئے روزہ جاری رکھنا مشکل ہوگا وہ روزہ افطار کردیں گے ۔ اس لئے کہ بہت ممکن ہے وہ اپنا روزہ پورا کرلیں ، جیسا کہ یہ بات تجربے میں ہے ۔ [۲] افطار اس صورت میں کریں گے جب خطرہ محقق ہوجائے یا غالب گمان ہوجائے ، صرف وہم اور خوف کی بنیاد پر افطار کرنا جائز نہ ہوگا، کیونکہ یہ بات تجربہ میں ہے کہ بہت سے اولا لوگ عمل شاق کی وجہ سے روزہ رکھنے سے ڈرتے رہے، لیکن جب اللہ پر اعتماد کرکے شروع کردیا تو روزہ پورا ہوگیا ۔ { تفصیل : فتاوی اللجنہ الدائمہ :10/234،236- فتاوی الشیخ ابن حمید :171،172 – مجلۃ الفقہ الاسلامی عدد :3، ج:2،ص:1115 ، اور اس کے بعد – فقہ الافلیات المسلمہ : 342، 343}۔ مزدور اور قیام رمضان : مزدور اورمحنت کے کام کرنے والوں کوبھی قیام رمضان سے غافل نہیں رہنا چاہئے اور حتی الامکان امام کےساتھ پوری نماز میں شریک رہنا چاہئے ۔ لیکن اگر کوئی مجبوری ہے کہ رات کو قیام وتروایح کا موقعہ نہیں ملتا، تو جس قدر ممکن ہو امام کے ساتھ تروایح کی نماز پڑھیں خواہ دو رکعت ہی کیوں نہ ہو اور اگر امام کے ساتھ ممکن نہ ہو تو تنہا پڑھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کرام بہت تھکے ہوئے تھے فرمایا تھا : یہ سفر مشکل اور پریشانی کا سبب ہے لہذا جب وتر ادا کر لو تو اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لو ، پھر اگر رات کے آخر میں بیدار ہوگئے تو تہجد پڑھ لینا ورنہ یہی دو رکعتیں تہجد کا کام دیں گی ۔ { صحیح ابن خزیمہ – صحیح ابن حبان – سنن دارمی بروایت ثوبان } ۔ یہ حدیث مشغول اور محنت کش لوگوں کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے ۔ نیز متعدد صحابہ [ ابن عمرو عائشہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہم ] اور بعض تابعین سے مروی ہے کہ جو شخص عشاء کے بعد چار رکعت نفل نماز پڑھ لے تو گویا اس نے لیلۃ القدر کا قیام کیا ۔ { ابن ابی شیبہ اور ابن نصر المروزی } ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان آثار کی سند صحیح ہے اور یہ مرفوع کے حکم میں ہیں ۔ { الضعیفہ : 11/103 } ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے جو لوگ امام کے ساتھ تروایح نہیں پڑھ سکتے یا مشغولیت کی وجہ سے عشاء کے بعد نہیں پڑھ سکتے تو اپنے کمرے میں رات کے کسی بھی حصے میں چند ساتھیوں کو لے کر جو کچھ میسر آئے پڑھ لیں، کیونکہ تروایح و قیام میں اصل مسئلہ تعداد رکعات کا نہیں بلکہ بندے کی نیت اور اس کی استطاعت کا ہے ۔ مزدور اور رمضان میں صدقہ وخیرات : رمضان کا موسم صدقہ و خیرات کے لئے بہترین موسم ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ا س ماہ میں تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہوجاتے تھے ۔ { صحیح بخاری بروایت ابن عباس } ۔ لہذا ہر مسلم مزدور کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے یعنی جو کچھ کم یا زیادہ ہوسکے اس شہر فضیل میں اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کریں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل صدقہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کم مال والا محنت و مزدوری کرکے خرچ کرے ۔ { سنن ابو داود بروایت ابو ہریرہ } ۔ نیز آپ نے فرمایا : اگ سے بچنے کا سامان کر وخواہ کھجور کا آدھا حصہ ہی خرچ کرکے ہو ۔ { صحیح بخاری } مزدور اور تلاوت قرآن : قرآن مجید کا رمضان سے گہرا تعلق ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں تلاوت قرآن اور حضرت جبریل کے ساتھ اس کے دور کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ، لہذا ہر مسلمان مزدور کو بھی چاہئے کہ اس ماہ میں تلاوت قرآن اور اس میں تدبر و غور و فکر کا اہتمام کرے ، ناظرہ تلاوت اور تفسیر کے دروس میں ضرور شریک ہو ، ایک بار تاجر پیشہ لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : اے تاجروں کی جماعت ، کیا تم اس سے بھی عاجز ہوکہ جب اپنے بازار سے واپس جاو تو دس آیتیں پڑھ لو ، اللہ تعالی ہر آیت کے عوض نیکیاں دے گا ۔ { شعب الایمان :3/385 ، بروایت ابن عباس } ۔ یعنی کم یا زیادہ جو کچھ بھی میسر آئے ضرور پڑھے اور یاد رکھے کہ اللہ تعالی کثرت و قلت کو نہیں دیکھتا بلکہ نیت و قصد کو دیکھتا ہے ۔ مزدور اور دیگر اعمال خیر : اسی طرح دیگر اعمال خیر جیسے توبہ و استغفار ، دعا اور صبر وغیرہ بھی اس شہر فضیل میں مسلم مزدور کے لئے لائق التفات ہیں ،کیونکہ جس طرح دیگر مسلمان ان امور کے ہر وقت اور رمضان المبارک خاص کر محتاج ہیں ایک مزدور بھی محتاج ہے ، بلکہ وہ دیگر لوگوں کے مقابلہ میں ان امور کا شاید زیادہ محتاج ہو ، توبہ وا ستغفار کا اس لئے کہ جہاں توبہ و استغفار گناہوں کا کفارہ ہیں وہیں روزی میں برکت کا سبب بھی ہیں ، اور دعا تو ہر مومن کا ہر میدان میں ہتھیار ہے ، البتہ جہاں تک صبر کا تعلق ہے تو ایک مزدور رمضان میں اس کا بہت زیادہ ضرورتمند ہے کہ وہ روزہ و تروایح وغیرہ کا اہتمام کرکے طاعت الہی پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے ، روزہ کی وجہ حاصل شدہ تکلیف اور قیام کی وجہ سے لاحق شدہ مشقت پر صبر کرکے اللہ کی راہ میں تکلیف پر صبر کا ثبوت دے رہا ہے اور روزے و قیام کے ثواب کو برباد کردینے والے گناہ کے کاموں کو ترک کرکے معصیت الہی سے رک کر صبر کا ثبوت پیش کررہا ہے ، اس موقعہ پر ہر روزہ دار شخص حضرت قیس بن صرمہ کے درج ذیل واقعہ سے سبق حاصل کرے ۔ ابتدائے اسلام میں یہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جب کوئی روزہ رکھتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر اگلی شام تک کچھ نہ کھا سکتا تھا ، چنانچہ قیس بن صرمہ رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا اور دن بھر کھیت میں کام کرتے رہے ، جب شام کو گھر واپس آئے تو اپنی اہلیہ سے پوچھا : کیا کھانے کے لئے کوئی چیز ہے ؟ وہ بولیں : کوئی چیز تو موجود نہیں ہے ،البتہ میں ابھی جاتی ہوں اور آپ کے کھانے کے لئے کچھ لاتی ہوں ، بیوی چلی گئی ، چونکہ حضرت قیس دن بھر کے تھکے ماندے تھے لہذا آرام کے لئے لیٹے اور آنکھ لگ گئی ، بیوی جب واپس آئی اور دیکھا تو انہیں بہت دکھ ہوا ، الغرض انہوں نے کچھ کھائے پئے بغیر پھر دوسرے دن کا روزہ رکھ لیا اور دوسرے دن بھی کھیت میں کام کرتے رہے لیکن ابھی آدھا دن ہی گزرا تھا کہ بھوک و پیاس کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہوکر گر پڑے ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی : وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر ( سورة البقرة :187 ) ” اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہوجائے تم کھاپی سکتے ہو ” ۔ { صحیح بخاری وسنن ترمذی و سنن ابو داود } ۔ ہمارے مزدور اورمحنت کش بھائی اس قصے میں غور کریں کہ جب قیس بن صرمہ رضی اللہ عنہ نے روزے پر صبر کیا تو کس طرح اللہ تعالی نے اس مشکل کو قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے آسانی میں بدل دیا، لہذا ایک مسلمان مزدور یا محنت کش مسلمان اگر مشکل و پریشانی کے باوجود روزہ نہیں چھوڑتا ، تروایح کا اہتمام کرتا اوررمضان میں دیگر اعمال خیر بجالاتا ہے تو کیا بعید کہ اللہ تعالی اس کے لئے اور اس کے ساتھیوں کے لئے کوئی آسانی پیدا کردے ، اور اس کی مشکل و پریشانی کو وسعت و نرمی میں تبدیل کردے ۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز ۔۔۔۔ ختم شدہ |