بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان انسائیکلوپیڈیا
بتاریخ :15،رمضان 1434ھ
از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
رمضان اور موسم گرما [9]
اللہ تعالی نے شرعی مہینوں کا کچھ ایسا نظام رکھا ہے کہ ایک ہی مہینہ کبھی گرمی کے موسم میں آتا ہے اور کبھی سردی کے موسم میں ، وہی مہینہ کبھیموسم بہار میں آتا ہے اور کبھی موسم خزاں میں ، اسی سنت الہیہ کے تحت رمضان المبارک کا مہینہ بھی کبھی سردی کے موسم میں آتا ہے اور کبھی سختگرمی کے موسم میں ،کبھی روزہ رکھنے کے لئے دن بہت بڑا ہوتا ہے اور قیام کرنے کے لئے رات بہت چھوٹی ہوتی ہے ۔
ذلک تقدیر العزیز العلیم اللہ غالب و دانا کی تدبیر ہے
اس سال بھی رمضان المبارک کی آمد گرمی کے موسم میں ہے اور آئندہ کئی سالوں تک یہی سلسلہ چلتا رہے گا ، اس کے باوجود بہت سے نیک بندے اس مبارک ماہ کے استقبال کے لئے چشم براہ ہیں ،کیونکہ ان کے نزدیک یہ رحمتوں کا مہینہ ہے ، اس مبارک ماہ میں رحمان و رحیم کی مغفرتوں کاسیلاب آتا ہے اور اس کے کرم وفضل کی خصوصی ہوائیں چلتی ہیں، ان کا یہ ایمان ہے کہ یہ مبارک مہینہنیکیوں کے جمع کرنے کا مہینہ ہے ، اس مبارک مہینے کا روزہ سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے ، اس مبارک مہینے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔
ان کے برخلاف کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اس مبارک ماہ کی آمد پراور خصوصا اس سخت گرم موسم میں کبیدہ خاطر ہیں ، ان کی زبان سے دبے الفاظ ایسے کلمات ادا ہورہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں یہ مہینہ ان کے نزدیک مبارک نہیں بلکہ پریشانیوں کا سبب ہے ، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک دنیا اس قدر محبوب ہے کہ اپنی نوکری اور دیوٹی کا بہانہ بنا کر اس مبارک ماہ کا روزہ نہ رکھنےکا ارادہ کرلیا ہے ، کچھ لوگ مرض اور سفر کا بہانا بنا کر اس مبارک مہینے کا روزہ چھوڑنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں ، انہیں امور کا مشاہدہ کرتے ہوئے درج ذیل کلمات ہدیہ ناظرین کئے جارہے ہیں :
[۱] اس مہینے کا استقبال فرحت و سرور سے کیا جائے اور اس کی آمد پر پریشان و کبیدہ خاطر قطعا نہ ہو ا جائے ، ارشاد باری تعالی ہے : [قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ] {يونس:58}
آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالی کے انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئےوہ اس سے بدر جہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کررہے ہیں ۔
کیونکہ اللہ کے فضل و رحمت کو ناپسند کرنا نفاق کی دلیل اور اعمال کی بربادی کا سبب ہے ۔
[ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ] {محمد:28}
یہ اس بنا پر کہ یہ وہ راہ چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کیا اور انہوں نے اللہ کی رضا مندی کو ناپسند کیا تو اللہ تعالی نے ان کے اعمال اکارت کردئے ۔
[۲] قصد نیک رکھیں ۔ ارادہ پختہ کریں اور عزم میں ثبات پیدا کریں کہ ہمیں اس مبارک ماہ سے حتی الامکان مستفید ہونا ہے ، روزے یقنیا رکھنا ہے ، تراویح ضرور پڑھنی ہے ، حتی الامکان قرآن مجید کی تلاوت کرنی ہے اور جو کچھ میسر آئےاس میں سے صدقہ و خیرات کرنا ہے ، اس عزم و ارادہ کے بعد اللہ تعالی پر مکمل توکل کریں تو اللہ تعالی کی توفیق شامل حال رہے گی ،پھر اس عزم و ارادہ کے بعد اگر کوئی کمی رہ گئی تو اللہ تعالی اجر پورا دے گا ، کیونکہ اہل علم کہتے ہیں کہ ” نیۃ المومن خیر من عملہ ” مومن کی نیت اس کے عمل سے بہترہے ۔
[۳] صبر و احتساب سے کام لیں :
ہر نیک عمل صبر چاہتا ہے اور کوئی بھی نیک عمل بلا احتساب [ ثواب کی نیت ] مقبول نہیں ہے ، اس مبارک مہینے کا ایک نام شہر الصبر بھی ہے ، ارشاد نبوی ہے :
صوم شہر الصبر و ثلاثۃ ایام من کل شہر یذھبن و حر الصدر ۔
مسند احمد 2/163، صحیح ابن حبان:6523،ج 9/277 بروایت ابوہریرہ۔
ماہ صبر [ رمضان ] اور ہر ماہ تین دن کا روزہ دل کی گرمی کو ختم کرتا ہے ۔
احتساب سے متعلق ارشاد نبی ﷺ ہے :
من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ۔
صحیح البخاری:38 الایمان، صحیح مسلم:760 المسافرین بروایت ابوہریرہ۔
جسن نے ایمان و احتساب کےساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے تمام ماسبق گناہ معاف کردئے گئے ۔
خصوصی طور سے گرمی کے موسم میں جب دن طویل اور گرمی تیز ہوتی ہےاوراگر انسان ایمان و احتساب اور صبر سے کام لے تو اس کے لئے یہ روزہ کوئی مشکل کام نہیں ہوتا ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
[وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الخَاشِعِينَ] {البقرة:45} [الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ] {البقرة:46}
اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد کرو ، یہ چیز بہت بھاری ہے مگر ڈر رکھنے والوں پر جو جانتے ہیں کہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
اس آیت میں وارد لفظ صبر کی تفیسر بہت سے علماء نے روزہ سے کی ہے ، یعنی روزہ اور نماز الہی مدد کا بہترین ذریعہ ہیں اور یہ چیزیں اللہ سے ڈرنے والوں ہی کو حاصل ہوتی ہیں ۔
[۴] اجر و ثواب بقدر مشقت ہے :
اس گرمی کے موسم میں روزہ مشکل ضرور ہے لیکن ایک مومن کو یاد رکھناچاہئے کہ اسے کسی بھی حکم الہی کے بجا لانے میں جس قدر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اجر میں اسی قدر اضافہ ہوتا ہے ، نبی ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا :
ولکنھا عمل قدر نفقتک او نصبک ۔
{ صحیح بخاری : 1781 ، العمرہ – صحیح مسلم : 2/ 249 ، مع منۃ المنعم } ۔
اس عمرے میں تیرے تھکنے اور خرچ کرنے کے بقدر تجھے اجر ملے گے ۔
ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ کسی بھی مسلمان کو اگر تھکان لگتی ہے ، تکلیف پہنچتی ہے ، پریشانی لاحق ہوتی ہے ، غم پہنچتا ہے حتی کہ اگر ایک کانٹابھی چبھتا ہے تو اس کے عوض اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرماتا ہے ۔
{ صحیح بخاری : 5641 ، المرض – صحیح مسلم : 2572 ، البر ، بروایت عائشہ } ۔
لہذا یقین رہے اور ایمان رکھیں کہ گرمی کے موسم میں روزے کے عوض جو پیا س ، بھوک اور تھکان پہنچ رہی ہے وہ گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا سبب ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ سخت گرمی کے موسم میں بکثرت روزہ رکھتے تھے جیسے معاذ بن جبل اور ابو درداء رضی اللہ عنہا وغیرہ ۔
[۵] عبرت حاصل کریں :
سخت گرمی میں روزہ رکھ کر کام کرناپڑتا ہے تو اس دنیا کی دھوپ کو دیکھ کر آخرت کی دھوپ کو یاد کریں ، اگر گرمی محسوس ہو تو جہنم کی گرمی کو یاد کریں ، اگر بھوک و پیاس کا احساس ہو تو میدان حشر کی بھوک و پیاس کو یاد کریں اور اگر اس گرمی میں پسینہ سے پریشان ہوں تو میدان محشر کے پسینے کو یاد کریں ۔
کیونکہ دنیا میں سردی و گرمی کا اصل سبب جہنم کے دو سانس ہیں ، ارشاد نبوی ہے :
اشتكت النار إلى ربها فقالت : يا رب أكل بعضي بعضا فأذن لها بنفسين نفس في الشتاء و نفس في الصيف فأشد ما تجدون من الحر من سموم جهنم و أشد ما تجدون من البرد من زمهرير جهنم
.صحیح البخاری:537 الموقیت، صحیح مسلم: 617 المساجد۔
جہنم نے اللہ تعالی سے شکایت کی کہ اے میرے رب ! میرے بعض حصے نے مجھے کھالیا ، تو اللہ تعالی نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ، ایک سانس جاڑے کے موسم میں اور ایک سانس گرمی کے موسم میں ،یہی سبب ہے جو سخت گرمی اور سخت سردی تم محسوس کرتے ہو۔
[۶] سحری کھانا نہ چھوڑیں :
گرمی کے موسم میں سحری کھانے کی بڑی اہمیت ہے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً
سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانا باعث برکت ہے ۔
{ صحیح بخاری : 1923،ا لصوم – صحیح مسلم : 1095 ، الصوم ، بروایت انس }
[۷] گرمی کا اثر کم کرنے اور بھوک و پیاس کی شدت کو ہلکی کرنے کے لئے روزہ دار اپنے سر پر پانی ڈال سکتا ہے ، کلی کرسکتا ہے اور ہر وہ وسیلہ استعمالکرسکتا ہے جس سے اسے آرام ملے ، نبی کریم ﷺ ایک بار سفر میں روزے سےتھے جب پیاس اور گرمی کا احساس ہوا تو گرمی کے اثر کو کم کرنے کے لئے آپ نے اپنے سر پر پانی ڈال لیا ۔
{ سنن ابو داود : 2365 ، الصوم – مسند احمد :5/380 } ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کپڑا ترکرکے اپنے سر پر ڈال لیا کرتے تھے ، اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ تو اپنے لئے پانی کا ایک حوض بنوا رکھا تھا ، روزہ کی حالت میں جب گرمی اور پیاس محسوس ہوتی تو اس میں کود پڑتے ۔
{ صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، باب :25 – فتح الباری :4/ 152، 154 } ۔
[۸] گرمی کتنی ہی زیادہ ہو اور دھوپ کتنی ہی تیز ہو ، مسلمان کو روزہ رکھناچاہئے اور ہر اس عمل سے پرہیز کرنا چاہئے جو اس کے روزے میں اثر انداز ہو، لیکن اگر ایسی صورت پیش آگئی کہ بھوک و پیاس کی وجہ سے روزہ پورا کرنا مشکل ہوگیا ،حتی کہ جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تو اس صورت میں جان کو خطرے میں نہیںڈالنا چاہئے بلکہ اس کے لئے افطار کرنا جائز ہوگا ، البتہ بعد میں اس کی قضا کرے گا ۔
[۹] سلف اور گرمی روزہ :
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رمضان میں ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ، گرمی سخت تھی اور سایہ کی اس قدر کمی تھی کہ ہم لوگ اپنے ہاتھ سے سر پر سایہ کرتے تھے ، اس حال میں بھی ہمارے درمیان صرف رسول اللہ ﷺ اور عبد اللہ بن رواحہ روزے سے تھے ۔
صحیح بخاری : 1945، الصوم – صحیح مسلم : 1112 ، الصوم } ۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ایک بار سمندری سفر میں تھے ، غیب سے کسی ندا دینے والے کی آواز سنتے ہیں کہ وہ پکار رہا ہے : اے اہل کشتیٹھہر جاؤ ، ٹھہر جاؤ ، ٹھہر جاؤ، اور اللہ تعالی کا ایک فیصلہ سن لو ، حضرت ابو موسی نے عرض کیا : سناو کیا سنانا ہے ، جواب ملتا ہے کہ اللہ تعالی کا یہ فیصلہ ہے کہ جو شخص کسی گرم دن میں اپنے آپ کو پیاسا رکھے گا [ یعنی روزہ رکھے گا ] تو اللہ تعالی پر یہ حق ہے کہ اسے قیامت کے دن سیراب کرے ۔
اس کے بعد سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سخت گرمی کے دن کا انتظار کرتے تھے کہ اس دن کا روزہ رکھیں ۔
{ مسند البزار – کشف الا ستار : 1/488 }
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔
{ مجمع الزوائد :3/183 }
حضرت معاذ بن جبل اپنی موت کے وقت روتے تھے کہ اب گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے کا موقعہ نہیں ملے گا ۔ تفصیل دیکھئے
: لطائف المعارف : 551، 552
طبی نصیحتیں :
یہ چند مفید ہدایات ہیں جو گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے والوں کے لئے مختلف جگہوں سے ماخوذ ہیں :
1) ایسی غذائیں جن میں گرم مسالے زیادہ استعمال ہوتے ہیں انہیں کھانے سے پرہیز کیا جائے ، خاص کر سحری کے وقت ، کیونکہ ایسے کھانوں کے بعد پانی کی خواہش زیادہ ہوتی ہے ۔
2) رات میں رہ رہ کر تھوڑا تھوڑا پانی پیا جائے ۔
3) سحری میں میٹھی اور ہلکی غذا استعمال کریں ، کیونکہ میٹھی چیز معدہ میں دیر تک رہتی ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : "نعم سحور المومن التمر ” مومن کے لئے سحری میں بہترین چیز کھجور ہے ۔{ سنن ابو داود : 2345 ، الصوم ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
4) رات اور خصوصا سحری کے وقت سبزیاں اور تازے پھل استعمال کریں ، کیونکہ ان غذاؤں میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور ایسے مواد پر مشتمل ہوتی ہیں جو انتڑیوں میں دیر تک جگہ بنائے رکھتی ہیں ، نتیجۃ بھوکو پیاس کا احساس کم ہوتا ہے ۔
5) زیادہ نمک والی غذاؤں سے پرہیز کریں اور سلاد وغیرہ میں نمک کے بجائے لیمون استعمال کیا جاسکتا ہے ، جوکسی حد تک نمک کا مزہ دیتا ہے ۔
6) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر کے وقت بکثرت پانی پی لینے سے دن میں پیاس کا احساس کم ہوتا ہے، حالانکہ یہ تصور غلط ہے، کیونکہ اس پانی کا زیادہ حصہ چونکہ جسم کی ضرورت سے زائد ہوتا ہے ، لہذا تھوڑی ہی دیر میں گردہ اسے باہر نکال پھینکتا ہے ۔
7) بہت سے لوگ رمضان المبارک میں بازاروں میں ملنے والا جوس اور کولا وغیرہاستعمال بکثرت کرتےہیں ، جب کہ یہ چیزیں ایسے مواد پر مشتمل ہوتی ہیں جو معدہ پر بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ ہاضمہ میں رکاوٹ بنتی ہیں اور ہاضمہسے متعلق بعض بیماریوں کا سبب بنتی ہیں ۔
8) بعض لوگ افطار کے وقت سخت ٹھنڈا پانی پیتے ہیں ،