رمضان کا آخری عشرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رمضان کا آخری عشرہ

دینی بھائیو ! اس وقت ہم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں پہنچ چکے ہیں ، یہ بہت ہی مبارک عشرہ ہے اسی عشرہ میں لیلةالقدر ہے جو اجر و ثواب میں ہزار راتوں سے بہتر اور افضل ہے ، اسی عشرہ میں قرآن مجید جیسی کتاب نازل ہوئی ہے ، اسی عشرہ میں روزہ رکھنے والوں اور تراویح پڑھنے والوں کی مغفرت کردی جاتی ہے ، یہی عشرہ پورے مہینہ کا خلاصہ ہے ،

یہی وجہ ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ کو خصوصی اہمیت دیتے اور بعض وہ اعمال ادا فرماتے جنہیں اس مبارک مہینہ کے دوسرے عشرہ میں نہیں کرتے تھے ، جیسے :

( 1 ) شب بیداری اور تقریبا پوری رات قیام : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کیلئے اپنی کمر کس لیتے ، شب بیداری کرتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی بیدار رکھتے ۔ ( صحیح البخاری : 2024 / صحیح مسلم : )

ایک اور حدیث میں مائی عائشہ کا فرمان ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں عبادت میں وہ مجاھدہ کرتے اور مشقت سے کام لیتے جو دوسرے عشروں میں نہ کرتے ۔ ( صحیح مسلم : 1172 ، الصوم )

اس سے واضح ہوتا ہیکہ رمضان کے باقی دو عشروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کا قیام بھی فرماتے اور آرام بھی فرماتے لیکن جب یہ عشرہ داخل ہوجاتا تو رات میں بالکل ہی نہ سوتے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی بعض حدیثوں میں اسکا ذکر ہے ، دیکھئے : مسند احمد : 6 / 146 ۔

( ٢ ) اہل و عیال کو بیدار رکھتے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آخری عشرہ میں جہاں آپ اپنے طور پر عبادت و ریاضت میں مشغول رہے اور ذکر و تلاوت قرآن کا اہتمام فرماتے ، وہیں اپنے اہل و عیال کو بھی اس مقصد کیلئے بیدار رکھتے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار رکھتے ۔ [ سنن الترمذی : 795 ، الصوم / ابو یعلی : 1/282 ]

بلکہ بعض روایات میں ہے کہ ہر چھوٹا بڑا جو نماز اور بیداری کی طاقت رکھتا اسے آپ شب بیداری کا حکم دیتے ۔ [ طبرانی کبیر ، المجمع : 3/174 ]

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیکہ رمضان کے آخری عشر میں مجھے یہ پسندیدہ ہیکہ بندہ رات بھر نماز و عبادت میں گزارے ، اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار رکھے اور جو بچے نماز کی طاقت رکھتے ہیں انہیں نماز کا حکم دے(لطائف المعارف )

کاشکہ آج کا مسلمان اس سنت نبوی پر عمل کرتا کہ خود بھی آخری عشرہ میں جد و اجتہاد سے کام لیتا اور اپنے اہل و عیال کو بھی اسکی تر غیب دیتا تاکہ اس حکم الہی پر عمل ہوسکے کہ :

یا یہا الذِین آمنوا قوا نفسم واہلِیم نارا وقودہا الناس والحِجار ة ۔۔۔۔۔ مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچا و جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں

( ٣ ) اپنی کمر کس لیتے : جیسا کہ گزشتہ روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، البتہ اس عبارت کا دو مفہوم علما نے بیان کیا ہے ، ایک معنی یہ کہ آپ اپنی بیویوں سے دور رہتے اور انکے ساتھ شب باشی نہ فرماتے ، دوسرا معنی کمر کسنے کا یہ لیا گیا ہیکہ آپ نماز ، تلاوت قرآن ، ذکر و دعا اور توبہ و استغفار میں پورے انہماک سے لگے رہتے ، یہی معنی زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے اور حالت اعتکاف میں ویسے بھی بندہ اپنی بیوی کے قریب نہیں جاسکتا اسلئے اسکے ذکر کی ضرورت نہیں تھی ، چنانچہ ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں عبادت میں لگن سے کام لیتے جو دوسرے عشروں میں نہیں کرتے تھے ۔ ( صحیح مسلم : 1175 ، الصوم )

افسوس کہ ہمارا طریقہ اس اسوہ نبوی سے کس قدر مختلف ہیکہ ہم ابتدائی رمضان میں تو کافی نشاط دکھائی دیتے ہیں اور جب یہ مبارک عشرہ آتا ہے تو ہماری ساری کوششیں سرد پڑ جاتی ہیں ۔

( ٤ ) افطار کو سحری تک موخر کر دیتے : اس مبارک عشر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قسم کی عبادت میں اس قدر مشغول رہتے کہ غروب آفتاب پر افطاری کی بھی پرواہ نہ کرتے ، بلکہ رات میں صرف ایک وقت کھانے یعنی سحری پر

اکتفا کرتے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان شروع ہوتا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات میں قیام بھی کرتے اور کچھ وقت سوتے بھی تھے پھر جب آخری عشرہ آجاتا تو کمر کس لیتے ، عورتوں سے کنارہ کش ہوجاتے (اعتکاف فرماتے )اور دونوں اذانوں (مغرب و عشا ) کے درمیان غسل فرماتے اور اپنا شام کا کھانا سحری تک موخر کردیتے ، [ حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی عاصم نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اسکی سند قابل قبول ہے ، نیز اسکی تائید دو ضعیف حدیثوں سے بھی ہوتی ہے ایک حضرت انس بن مالک کی اور دوسری حضرت جابر بن عبد اللہ دیکھئے : (لطائف المعارف : 343 )

شرعی اصطلاح میں اسے صوم و صال کہا جاتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں صوم و صال داخل ہے ۔

( ٥ ) مغرب و عشا کے درمیان غسل : چونکہ ان راتوں میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے خاصکر شب قدر میں تو فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں اسلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ کی ہر شب کو غسل فرماتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ما سبق حدیث میں اسکا ذکر آچکا ہے ، نیز اسکی تائید بعض دوسری روایتوں سے بھی ہوتی ہے ، دیکھئے لطائف المعارف ، ص : 346 ، چنانچہ امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سلف امت رمضان کے آخری عشرہ کی ہر شب کو غسل کرنا مستحب سمجھتے تھے ، امام ابراہیم نخعی کے بارے میں آتا ہیکہ وہ اس عشرہ کی ہر شب کو غسل فرماتے (لطائف المعارف : 346 )

( ٦) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک عشرہ کے اعتکاف کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کے آخری دور تک رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اہتمام کرتے تھے ۔ (صحیح البخاری : 2026 ، الاعتکاف / صحیح مسلم : 1153 ، الصوم )

اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے اس آخری عشرہ اور اس سے قبل کے یعنی درمیانی عشرہ کا بھی اعتکاف کیا [ صحیح البخاری : 2044 ، الاعتکاف ، بروایت ابو ہریرہ ] بلکہ اس امر کیاہتمام کا یہ عالم تھا کہ ایک سال کسی عذر کی بنا پر آپ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف نہ کرسکے تو اس سال شوال میں دس دن کا اعتکاف فرمایا ۔ ( صحیح البخاری : 2033 ، الاعتکاف ، بروایت عائشہ )

اعتکاف کی حقیقت یہ ہیکہ بندہ ہر طرف سییکسو اور سب سے منقطع ہوکربس اللہ سے لو لگا کے اسکے درپہ ( یعنی کسی مسجد کے کونہ میں )پڑ جائے اور سب سے الگ اسکی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، اس عبادت کیلئے بہترین وقت رمضان المبارک اور خاصکر اسکا آخری عشرہ ہی ہوسکتا تھا اس لئے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب کیا ۔

آج یہ سنت کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے، اس سنت پر عمل کرنے والے لوگ اٹھتے جارہے ہیں اب اہل علم او ر علماء و حفاظ کی جماعت بھی اس سنت سے بے زار نظر آرہی ہے ، بلکہ اب تو ، اہل علم حضرات جنہیں لوگوں کیلئے پیش رو ہونا چاہئے وہ اس سنت پر لوگوں پر ترغیب بھی دنیا چھوڑ دے رہے ہیں ، اللہ تعالی سے دعا ہیکہ وہ مسلمانوں کو سنت نبوی کا پابند بنائے ۔ ( آمین )