بسم الله الرحمن الرحيم
پہلی قسط :2/1
روزہ کے آداب اور روزہ توڑنے والے کام
پہلا باب
واجبی آداب :
واجبی آداب یہ ہیں کہ روزہ دار تمام ان قولی وفعلی عبادات کو بجالائے جنہیں اسکے اوپر اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے ، ان میں سب سے اہم فرض نمازیں ہیں جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ تاکیدی رکن ہے ، لہذا ضروری ہے کہ روزہ دار اس پر محافظت اور ارکان وواجبات وشرطوں کے ساتھ اسکی ادائیگی کا اہتمام کرے ، وقت کی پابندی کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھے کیونکہ باجماعت نماز یہ اس تقوی کا ایک حصہ ہے جسکے لئے روزہ مشروع اور فرض کیا گیا ہے ، برخلاف اسکے نماز کو ضائع کرنا تقوی کے منافی اور عذاب الہی کا سبب ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : فخلف من بعد ھم خلف أضاعوا الصلاة واتبعوا الشھوات فسوف یلقون غیا ( سورئہ مریم : ٥٩ ) ترجمہ : پھر انکے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے ، سو ان کا نقصان انکے آگے آئے گا ۔
٭٭ ان پر واجب ہونے کے باوجود بعض روزہ دار باجماعت نماز کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی نے اسکا حکم دیا ہے : ذاکنت فیھم فاقمت لھم الصلاة فلتقم طائفة منھم ……………….. ( النساء : ١٠٢ ) ترجمہ : جب تم ان میں ہواور ان کیلئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو ، پھر یہ سجدہ کرچکیں تویہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں ……….٭ ذرا سوچیں کہ جب اللہ تعالی حالت حرب وخوب میں باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن واطمینان کا حالت میں تو بدرجہ أولی اسکا حکم ہوگا ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہیکہ ایک نابینا صحابی نے عرض کیا : ائے اللہ کے رسول ۖ ، مسجد تک لانے کیلئے کوئی میرا مدد گار نہیں ہے اسلئے آپ مجھے گھرمیں نماز پڑھنے کی رخصت دے دیجئے ( آپ ۖ نے اولا تو رخصت دے دی ) لیکن جب وہ جانے لگے تو آپ نے انہیں واپس بلایا اور سوال کیا : ھل تسمع النداء ، کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟انہوں نے جوا ب دیا ہاں ، اذان کی آواز سنتا ہوں ، تو آپ ۖ نے ارشاد فرمایا : فأجب تب تو اسکا جواب دو ( یعنی مسجد میں حاضری دو ) ( صحیح مسلم : ٦٥٤)
٭٭ اسی طرح باجماعت نماز کی بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی آپ ۖ کا فرمان ہے : باجماعت نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ
ثواب رکھتا ( صحیح بخاری : ٦٤٥ ، مسلم : ٦٥٠ )
اسی طرح باجماعت نماز چھوڑنے والوں کو آپۖ نے منافقین کی صف میں شامل فرمایاہے ، اسی طرح آپ ۖ فرماتے ہیں کہ : اقامت کا حکم دوں اور جماعت چھوڑنے والوں کو انکے گھروں سمیت جلادوں ( بخاری : ٦٥٧ ، مسلم : ٦٥١ )
ٔٔ٭٭ روزے کے واجبی آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ روزہ دار ایسے تمام اقوال وافعال سے پرہیز کرے جنہیں اللہ اور اسکے رسول نے حرام قرار دیا ، چنانچہ جھوٹ سے پرہیز کرے ( واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں ) اور سب سے بڑی جھوٹ اللہ اور اسکے رسول پر جھوٹ بولنا ہے جیسے کسی حرام کام کی حلت اور حلال کام کی حرمت کی نسبت اور اسکے رسول کی طرف کرنا ، ارشاد باری تعالی ہے : ولا تقولوا لما تصف ألسنتکم الکذب ھذا حلال وھذا حرام ……..( النحل: ١١٦ ، ١١٧ ) ترجمہ :کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو ، سمجھ لو کہ اللہ تعالی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ۔
٭٭ روزہ دار کو غیبت سے بھی پرہیز کرنا چاہئے ، اپنے بھائی کی ناپسندیدہ بات عیب کو اسکے پیٹھ پیچھے بیان کرنا غیبت ہے ، آپ ۖ کاارشاد ہے : تو اپنے بھائی کا عیب بیان کررہا ہے اگر اس میں پایا جارہا ہے تو یہی تو غیبت ہے اور اگر اسکا عیب جو بیان کررہاہے وہ اس میں نہیں ہے تو ، تو نے اس پر بہتان باندھا ہے ۔ ( الترمذی : ١٥٧٨ )
ٔٔ٭٭ روزہ دار کو چاہئے کہ چغل خوری سے پرہیز ، چغل خور ی یہ ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص تک فساد واختلاف کی غرض سے پہنچائی جائے چغل خوری گناہ کبیرہ ہے ، اس سے متعلق اللہ کے رسول ۖ کا فرمان ہے کہ : لا یدخل الجنة نمام ( بخاری : ٦٠٥٦ ، مسلم : ١٠٥ ) چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا ،
٭٭ روزہ دار کو چاہئے کہ خرید وفروخت ، پیشہ مزدوری اور رہن وغیرہ جیسے معاملات میں دھوکہ دہی سے بچتا رہے اور ہر مشورہ اور نصیحت طلبی کے وقت بھی دھوکہ دہی سے پرہیز کرے ، کیونکہ دھوکہ دینا کبیرہ گناہ ہے ، دھوکہ دینے والے سے اللہ کے رسول ۖ نے براء ت کا اظہار کیا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا : من غشنا فلیس منا ، جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ، حدیث ان الفاظ میں بھی مروی ہیکہ : من غش فلیس منی ( صحیح مسلم : ١٠٢ ) جس نے دھوکہ دیا وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے ۔
ٔٔ٭٭ روزہ دار کو چاہئے کہ گانے بجانے کے آلات سے پرہیز کرے ، لہو ولعب کے تمام آلات خواہ وہ سارنگی ہو ،رباب ہو ، دو تارو ستار ہو ، یا بانسری وکمان ،سب کے سب حرام ہیں اور اگر اسکے ساتھ سوریلی آواز میں گیت اور جذبات کو ابھارنے والے گانے ہوں تو انکی حرمت وقباحت او ر بڑھ جاتی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں ، جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنکے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ( لقمان : ٦)
مستحب آداب
مستحب آداب میں سے ایک ادب سحری کھانا بھی ہے ، رات کے آخری حصہ میں ( روزہ رکھنے کی نیت سے ) جو کھانا کھایا جاتا ہے اسے سحری کھانا کہتے ہیں ، اسکا نام سحری اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ کھانا سحر کے وقت کھایا جاتا ہے ، اللہ کے رسول ۖ نے سحری کھانے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے : تسحروا فن فی السحور برکة ( صحیح بخاری : ١٩٢٣ ، مسلم : ١٠٩٥ ) ترجمہ : سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔ اور ایک جگہ آپ ۖ فرماتے ہیں کہ سحری کا کھانا برکت ہے اس لئے اسے چھوڑو نہیں ، اگرچہ صرف ایک گھونٹ پانی ہی پی لو ، کیونکہ اللہ تعالی اور اسکے فرشتے سحری کھانے والوں کیلئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔ ( أحمد ،ج: ٣ ، ص: ١٢ ، صحیح الجامع : ٣٦٨٣ ) اسی طرح روزہ کیلئے نیت دل کے ارادہ کا نام ہے ، زبان سے الفاظ اداکرنا سنت سے ثابت نہیں ہے ۔
٭٭ روزے کے مستحب آداب میں سے ایک ادب افطار میں جلدی کرنا ہے ، جب کہ دیکھنے سے سورج کا غروب ہونا محقق ہوجائے ، یا اذان وغیرہ یا وبا وثوق ذریعہ سے سورج کے ڈوبنے کا غالب گمان ہوجائے ( تو افطاری میں جلدی کرنا مستحب ہے ) چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا : لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر ( صحیح بخاری : ١٩٥٧ ، مسلم : ١٩٠٢ ) ترجمہ : لوگ برار بخیر رہیں گے جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ،سنت یہ کہ تازہ کھجور سے افطار کیا جائے ، اگر نہ ملے تو عام کھجور سے پھر اگر وہ بھی نہ ملے تو پانی سے ( صحیح الترمذی : ٥٦٠ )
٭٭ روزہ کے مستحب آداب میں تلاوت قرآن ، ذکر ودعاء ، نفلی نماز وصدقات میں کثرت سے مشغولیت بھی ہے ، چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ۖ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبرئیل آپکے پاس تشریف لاتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تو آپ کی سخاوت میں مزید اضافہ ہوجاتا ، اس وقت تو رسول ۖ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے ( صحیح بخاری : ٢٦٠ ، مسلم : ٢٣٠٨ ) ۔
٭٭ روزہ کے مستحب آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ روزہ دار اپنے اوپر اللہ تعالی کی اس نعمت کو دھیان میں رکھے کہ اللہ تعالی نے اسے روزہ رکھنے کی توفیق بخشی اور روزہ کو اسکے لئے آسان کیا کہ اس نے روزہ رکھ لیا اور پورے مہینہ کا روزہ مکمل کیا کیونکہ بہت سے لوگ ایسے جو روزہ کی نعمت سے محروم رہتے ہیں یا تو روزہ کا مہینہ آنے سے قبل وفات پاچکے یا ( کسی بیماری کی وجہ سے ) اس سے عاجز رہ گئے یا پھر گمراہی میں پڑھے ہیں اور روزہ رکھنے سے اعراض کرتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ روزہ دار ، روزہ کی توفیق پر جو گناہوں کی بخشش لغزشوں کی معافی اور رب کریم کے پڑوس ونعمت والے گھر ( جنت ) میں درجات کی بلندی کا سبب ہے ، اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان کرتے رہے ۔
پہلی قسط :2/1