ساتواں اور آٹھواں سال /4:درس نمبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

4:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

ساتواں اور آٹھواں سال

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

نبوت کا ساتواں اور آٹھواں سال :

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہجرت کا ارادہ :  یہی ایام تھے کہ حالات سے تنگ آکر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا اور اس کی  نیت سے  برک غمادہ تک پہنچ بھی گئے ، وہاں کے سردار ابن الدغنہ نے آپ کو یہ کہہ کر واپس لے آیا کہ آپ جیسا شخص  کہیں سے نکالا نہیں جاتا ، چنانچہ اس نے آکر اہل مکہ سے گفتگو  کی اور انہیں اس بات سے روکا کہ ابوبکر کو تنگ کیا جائے ، اہل مکہ نے کہا کہ یہ اپنے گھر کے اندر رہکر عبادت  کریں ، اور تلاوت  قرآن کے وقت اپنی آواز بلند نہ کریں ، کیونکہ ان کی قراءت سے ہمارے بچے متأثر ہوتے ہیں ، حضرت  ابوبکر نے ابتداء میں تو یہ شرط قبول کرلی ، ابن الدغنہ  نے اس کی ضمانت بھی لے لی اور واپس چلا گیا لیکن کچھ  ہی دنوں کے بعد حضرت ابو بکر اپنی شرط پر قائم نہ رہ سکے اور ابن الدغنہ کی ضمانت  کو بھی واپس کردیا ۔

حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم کا واقعہ :

انہیں دنوں جب کہ نبی ﷺ اور قریش کے درمیان مخالفت زوروں پر تھی ایک دن نبی ﷺ کی خدمت میں اشرف قریش بیٹھے  ہوئے تھے  ، آپ انہیں اسلام کی باتیں  بتارہے تھے کہ اچانک  عبد اللہ ابن ام مکتوم نامی ایک نابینا  صحابی تشریف لائے اور نبی ﷺ سے دین کی باتیں پوچھنے لگے ، نبی ﷺ کو ان کی آمد اور بار بار سوال کرنا کچھ ناگوار  گزرا اور آپ نے کچھ بے توجہی برتی  جس پر سورۂ عبس  و تولی نازل ہوئی ۔

رکانہ سے کشتی : مکہ مکرمہ میں رکانہ نامی ایک پہلوان  رہتا تھا اس کے بارے میں  مشہور تھا کہ کبھی  کسی نے اسے چت نہیں کیا  ، ایک بار انہوں نے نبی ﷺ کو مقابلہ کی دعوت دی اور  سو بکریاں  شرط پر لگائی ، نبی ﷺ نے انہیں پچھاڑ دیا  پھر دوسری اور تیسری بار بھی سو بکریاں کے شرط پر کشتی لڑائی  اور رکانہ ہر بار پچھاڑے گئے ، پھر تیسری بار  ابھی آپ ﷺ ان کے سینے ہی پر تھے کہ کہا : اے محمد آپ سے پہلے کسی نے میری پیٹھ کو زمین سے نہیں لگایا اور میری نظر میں آپ  سے برا کوئی دوسرا شخص نہ تھا لیکن اب میں گواہی دیتا ہوں کہ : لا الہ الا اللہ و انک رسول اللہ ۔

نبی ﷺ ا ن کے سینے سے اٹھے اور ان کی بکریاں بھی انہیں واپس کردیں ۔

تاریخ عالم کے دو اہم واقعات جن کا سیرت سے تعلق ہے :

سن 7 نبوت و 8 نبوت میں دنیا میں دوبڑے حادثات پیش آئے جن کا سیرت سے ایک گونہ تعلق ہے ۔

جنگ بعاث : یہ جنگ ہجرت سے پانچ سال قبل سن 7 یا 8 نبوی میں انصار کے دو قبیلے  اوس و خزرج کے درمیان پیش آئی جس میں دونوں قبیلوں کے وہ  بڑے بڑے سردار  جو متکبر  اور اپنے کو کسی کے تابع فرمان نہیں دیکھنا چاہتے تھے قتل ہوگئے ، اس جنگ نے انصار کی طاقت کو توڑ  کر رکھ دیا تھا ، اب دونوں باہمی صلح و مصالحت کےلئے تیار  تھے  کہ نبی ﷺ کے بعثت کی خبر پہنچی ۔

روم مغلوب ہوگئے : انہیں دنوں اس وقت کی دو بڑی طاقتیں  فارس و رووم کے درمیان سخت لڑائی ہوئی جس میں فارسی غالب اور رومی مغلوب ہوئے ، چونکہ رومی نصرانی اور اہل کتاب تھے اور حبشہ کا بادشاہ جس نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی وہ نصرانی تھا ، اس لئے مسلمانوں کو اس سے تکلیف ہوئی ، نیز چونکہ فارسی بت پرست  اور آگ پرست  تھے اس لئے مکہ کے مشرکین بڑے خوش تھے  اور مسلمانوں کو یہ دھمکی  دیتے تھے کہ جس طرح رومی مغلوب ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی  مغلوب ہوگے اور تاریخ کا ایک حصہ بن جاؤ گے ۔ اس پر سورۃ الروم کی ابتدائی آیتیں  نازل ہوئیں اور  نو سال کی مدت کے اندر روم کے غالب آنے کی خبر دی گئی ۔

قریش  کا آخری و فد ابو طالب کے پاس : انہیں دنوں  قریش نے اپنا آخری وفد ابو طالب کے پاس بھیجا اور نبی ﷺ کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ، بلکہ کفار نے یہ خواہش ظاہر کی اے ابو طالب  مکہ کے ایک ہونہار ، جوان کو محمد کے بدلے آپ کو دے دیتے ہیں اور انہیں ہمارے حوالے کردیجئے  ، لیکن کسی بھی صورت میں نبی ﷺ سے دست کش ہونے کیلئے تیار نہیں ہوئے ۔

نبی ﷺ کو ایذا رسانی  میں شدت :

اب قریش کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ  نبی ﷺ اور مسلمانوں کو ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں  جس کا اندازہ درج ذیل حادثہ سے ہوتا :

حضرت عبد اللہ بن عباس کا بیان ہے کہ ایک دن قریش  حطیم میں جمع ہوئے اور لات ، عزی ، منات اور اساف  ونائلہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ اگر محمد [ﷺ ] کو دیکھ لئے تو اکٹھا ہو کر یکبار کی حملہ کردیں گے اور انہیں قتل کئے نہ چھوڑیں گے ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  کو  یہ اطلاع ملی تو وہ روتی   ہوئی آپ کے پاس آئیں اور ماجرا سنایا ۔  آپ نے فرمایا  بیٹی میرے لئے وضو کا پانی لاؤ ، وضو کرکے نبی ﷺ مسجد حرام تشریف لے گئے  ، جب لوگوں نے آپ کو دیکھا  تو کہنے لگے وہ آگئے وہ آگئے  لیکن آپ کے قریب پہنچتے  ہی ان پر ایسا خوف طاری   ہوا کہ ہر ایک نے اپنی نظر جھکالی  ، اپنا گریبان جھانکنے لگے اور اور کسی  نے اٹھنے کی جرأت نہ کی ، آپ ﷺ تشریف لائے ان کے سر پر کھڑے ہوئے  اور ایک مٹھی مٹی لے کر ان کے اوپر پھینکا اور فرمایا : ” شا    ہث بوجوہ ” یہ چہرے بگڑ جائیں ، چنانچہ  جس شخص  تک بھی یہ مٹی پہنچی وہ غزوہ بدر کے موقعہ پر حالت  کفر میں قتل کیا گیا ۔