*ساتواں پارہ(و اذا سمعوا)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

*ساتواں پارہ(و اذا سمعوا)*

ساتویں پارے کے دو حصے ہیں؛پہلا حصہ سورہ مائدہ کی آیت83 تا120 پر مشتمل ہے۔اور دوسرا حصہ سورہ انعام کی آیت1 تا 110پر مشتمل ہے۔
o گزشتہ پارے کے آخر میں یہود او رمشرکین کی اسلام دشمنی کے بارے میں بات چل رہی تھی۔ اس میں واضح کیا گیا تھا کہ ویسے تو اسلام دشمنی میں سبھی فرقے اور جماعتیں شامل ہیں لیکن یہودیوں اور مشرکوں کو اس میں کچھ زیادہ حصہ ملا ہے۔البتہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نصاری کہتےہیں وہ ان سے کچھ مختلف ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات بھی بیان کی گئی تھیں۔
اس پارے کی ابتداء میں وہی سلسلہ کلام ہے، یعنی نصاری کے مسلمانوں کے قریب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں ابھی تک (عہد نبوت تک )کچھ حقائق باقی ہیں، اسی وجہ سے ان میں سے بعض ایمان بھی لے آئے ہیں۔ جیسے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور ان کے ساتھی۔
o اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے اس احسان کی قدر کی اور انہیں اپنی جنتوں کا وارث بنادیا۔آیت:85
o آیت نمبر 87سے پھر کلام کا رخ احکام و مسائل کی طرف پھیر دیا گیا ہے اور کچھ اہم مسائل کی طرف مسلمانوں کی رہنمائی کی گئی ہے:
o 1) اہل ایمان کو اس بات پر تنبیہ کی گئی کہ اللہ کی حلال کردہ اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا، یا بطور تقوی انہیں چھوڑ دینا جائز نہیں۔ اصل تقوی تو حدود الہی اور اس کے احکام کی پابندی میں ہے۔ ۔
o 2)فقہی احکام کا ذکر کرتے ہوئے قسم سے متعلقہ بعض مسائل کا بیان آیا ہے۔
o اگر قسم لغو ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔
o البتہ اگر کسی نے پختہ قسم کھائی ہے، تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔اور اسے پورا نہ کی صورت میں اس قسم کا کفارہ دینا ہو گا ۔
o قسم کا کفارہ یہ بیان ہوا ہے: غلام آزاد کرنا، دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا۔
o اگر ان میں سے کوئی بھی کام نہ ہو سکے تو تین دن کے روزے رکھنا۔
3) قسم کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اگر بطور ضرورت قسم کھالی ہے تو اس کی حفاظت کرو ،اور بغیر ضرورت کے قسمیں نہ کھاتے پھرو۔
4)شراب،جوا،بت پرستی اور پانسے کے تیروں کے دینی اور دنیاوی نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے انہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ پھر ان کے تین بڑے نقصانات کا ذکر کیا ہے۔
۱- یہ شیطان کا کام اور گندی چیزیں ہیں۔
2- اس کی وجہ سے تمہارے درمیان عداوت او رلڑائی پیدا ہوتی ہے۔
3- یہ چیزیں انسان کو اس کی زندگی کے سب سے بڑے مقصد یعنی عبادت سے روکتی ہیں۔
دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ شراب کی حرمت اور اس سے پریز میں کامیابی کے ذکر کے بعد دو اہم باتوں کی وضا حت کی گئی۔
اول یہ کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کیا جائے، نہیں تو اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے پرشش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آیت:۹۲
دوم ایک شبہے کا ازالہ کیا گیا گیا ہے کہ شراب کی حرمت سے قبل جن لوگوں نے شراب ہیا اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، کیونکہ ان کا انتقال ایمان اور تقوی کی حالت میں ہوا ہے۔ آیت:۹۳
5)محرم کیلئے بطور آزمائش خشکی کے جانوروں کے شکار کو تاکیدی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وعید کے ساتھ اس پر کفارہ بھی واجب کیا گیا ہے۔
کفارہ یہ ہے: اس کے مثل جانورحدود حرم میں ذبح کیا جائے۔ اگر نہیں تو اس کے برابر مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے،یا روزے رکھے جائیں
۶) البتہ محرم کے لئے دریائی اور سمندری جانوروں کے شکار کی اجازت ہے ۔
o آیت نمبر 97میں خانہ کعبہ اور اس کی قدر کرنے اور اس کی عظمت کی اہمیت کا بیان ہے ، نیز اس سے متعلقہ بعض چیزیں جیسے حرمت والے مہینوں ، ہدی {قربانی کے جانوروں] اور پٹوں والےجانوروں کے احترام کی تاکید کی گئی ہے۔ بلکہ یہ واضح کیا گیا ہے جب تک یہ سلسلہ جاری ہے گا لوگوں کو بلکہ اس دنیا کو بقا بھی حاصل رہے گا۔
o اس کےبعد اس سورت کے آخری صفحات میں مسلمانوں کو کچھ اہم نصیحتیں کی گئی ہیں:
o 1) حرام اور حلال ،خبیث اور طیب دونوں برابر نہیں ہو سکتے، خواہ حرام اور خبیث چیز بظاہر زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا تمہیں کثرت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔آیت:100
o 2)بے مقصد اور فضول قسم کے سوالات میں پڑنے سے روکا گیا ہے ۔ کیونکہ اس کا نتیجہ مشقت میں پڑنے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔آیت: 101
o آیت 103اور 104 میں مشرکین کے اپنی طرف سے حرام کردہ چند جانوروں کا تذکرہ ہے، اور ان پر تنقید کی گئی ہے کہ ایسا کرنا اللہ تعالی کی شان ربوبیت (تحلیل و تحریم)میں دخل دینے کے مترادف ہے ۔نیز یہ واضح کیا گیا کہ ایسا محض رسم ورواج کی پابندی میں کیا گیا ہے ، شریعت سے اس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔
جن جانوروں کو مشرکین نے اپنی طرف سے حرام کر لیا تھا وہ یہ ہیں:
1- "بحیرہ”،وہ جانور جس کا دودھ نہ دوہا جائے۔
2- "سائبہ”جو اونٹنی بتوں کے نام پر چھوڑ دی جائے اور اس پر سواری نہ کی جائے۔
3- "وصیلہ” وہ اونٹنی جو لگاتا دو بار مادہ بچےجنے۔
4- ” حام ” یعنی سانڈ، جو بتوں کے نام چھوڑ دیا گیا ہو۔
o آیت ۱۰۵ میں مسلمانوں کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ تم کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کا اسی قدر حکم ہے جو تمہاری وسعت میں ہے۔ یعنی ان تک حق بات پہنچا دینا ، البتہ اس کا قبول کروانا یا ان کے دل میں اتارنا یہ کام تمہارا نہیں ہے، لہذا ایسی صورت میں تم اپنا کام کئے جاو اور ان کی پرواہ مت کرو۔
o آیت 106تا 108 میں وصیت کے بعض احکام بیان ہوئے ہیں۔ یعنی آدمی سفر میں ہو اور اس کی موت کا وقت آجائےاور اس کے پاس سامان ہو تو مسلمانوں یا غیر مسلموں میں سے دو گواہ بنا دئیے جائیں تاکہ وہ سامان اس کے اہل وعیال اور ورثاء تک پہنچ جائے۔
یہ تین آیتیں بہت سے فقہی احکام و مسائل پر مشتمل ہیں۔ جیسے وصیت کی اہمیت، وصیت پر گواہ بنانے کی مشروعیت، اصل یہ ہے کہ گواہ مسلمان ہوں، وقتِ ضرورت غیر مسلم کو بھی گواہ بنایا جا سکتا ہے، حوالات میں بند کرنے کی مشروعیت، وغیرہ ۔ دیکھئے التفسیر المنیر ۷/ ۱۰۵ ۔
o آیت 109سے سورت کے آخر تک قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہے ۔کہ اس دن ہر ایک سے سوال ہوگا حتی کہ حضرات انبیاء کرام سے بھی سوال کیا جائے گا ۔آیت :109
o اسی ضمن میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکرخیر ہوا ہے۔
o اللہ تعالی نے اوّلا ً حضرت عیسی علیہ السلام پر اپنے انعامات کا تذکرہ کیا ہے ۔ تاکہ ان کی عظمت اورنصاری کے سامنے ان کی حقیقت بھی واضح ہو جائے کہ وہ محض اللہ کے ایک بندے اور رسول ہیں۔
نیز لوگوں کو بھی یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالی کے یہاں جب اتنے جلیل القدر نبی سے سوال ہو سکتا ہے تو ہم کیسے بچ سکتےہیں؟
o اسی ضمن میں عیسی علیہ السلام کے حواریین [ مخلص ساتھی] اور ان کے صدق واخلاص کا ذکر ہے۔
o پھر عیسی علیہ السلام کے صبر اور ایثار کو واضح کرنے کیلئے مائدہ کا ذکر کیا گیا ہے۔جس سے اس سورت کانام سورۃ المائدہ پڑا ہے ۔
o اور آخر میں قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام اور اللہ تعالی کے درمیان جو مکالمہ ہوگا اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح حضرت عیسی علیہ السلام اپنی قوم کے شرک سے اعلان براءت[ لا تعلقی] کریں گے اور اس الزام کی تردید کریں گے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کہا تھا کہ وہ انہیں معبود بنا لیں ۔
o یہ مکالمہ اللہ تعالی کے ساتھ کمال ادب اور انتہائی عاجزی کا مظہرہے،کہ عیسی علیہ السلام ہر قسم کے علم اورنظامِ کائنات میں کسی بھی قسم کے تصرف کی نسبت اللہ تعالی طرف کریں گے ۔ چناچہ عیسی علیہ السلام فرمائیں گے: تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (116) ” تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے واﻻ تو ہی ہے”۔
اور "إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (118)” اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو، تو زبردست ہے حکمت واﻻ ہے۔
o اور پھر اس مکالمے کا اختتام ایک اہم شرعی اصول پر ہوا ہےکہ قیامت کے دن سچے لوگوں کی سچائی ہی انہیں فائد ہ پہنچائے گی۔ جس سے نصاری اور ان کے حوالے سے ساری دنیا کو یہ سبق دینا ہےکہ قیامت کے دن نجات کا دارومدار قول وعمل کی سچائی پر ہے، ناکہ کسی کے خاندان اور کسی اہم شخصیت سےنسبت کی بنا پر۔
o پھر سورت کا اختتام اللہ تعالی کی ملکیت کاملہ اور مکمل قدرت کے بیان پر ہوا۔ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ الوہیت اسی کا حق ہے جو ان صفات کا حامل ہے۔
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (120) "اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں اور وه ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے”۔

سورت الأنعام:
یہ سورت مکی ہے، بلکہ مکی دور کے بالکل آخری زمانے کی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اس میں نہ تواحکام کا ذکر ہے اور نہ ہی منافقین اور یہودو نصاری کے متعلق کوئی بات کی گئی ہے۔
اس سورت کا نام سورت الانعام اس لئے رکھا گیاہے کہ اس میں اہل مکہ کے اس شرک کی مکمل تردیدہے جوچوپایوں سے متعلق وہ کیا کرتے تھے ۔
اس سورت کا بنیادی موضوع اثبات توحید اور رد شرک ہے،اسی لئے اس سورت کا ایک نام "الحجة”بھی ذکر کیا گیا ہے۔کیونکہ اس سورت میں توحید پر ان دلائل سے استدلال کیا گیا ہے جنہیں مشرکین مکہ خود بھی مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے اس سورت کی ابتداء بھی توحید اور رد شرک سے ہوئی ہے اور انتہا بھی اسی موضوع پر ہوئی ہے۔ نیزجگہ جگہ رسالت اور آخرت سے متعلق مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں ۔
o سورت کا آغاز اللہ کی توحید اور اس کے اثبات کے دلائل سے ہوتا ہے ۔اور قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ توحید الوہیت پر توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات سے استدلال کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی یہی اسلوب استعمال کیا گیا ہے ، چنانچہ زمین وآسمان، روشنی وتاریکی اور خود انسان کی پیدائش اور اس کے بارے میں پوری معلومات رکھنے کا حوالہ دے کر انہیں شرک سے بچنے کی دعوت ہے۔
o آیت 6اور 7 میں توحید سے منہ موڑنے والوں اور اس کے دلائل سے گریز کرنے والوں کا انجام بیان ہوا ہے کہ وہ لوگ کس طرح اپنے گناہوں کی وجہ سے تباہی وبربادی سے دوچار ہوئے ۔”فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (6)” پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈاﻻ اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا”۔
گویا اس میں اہل مکہ کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگرتم لوگ اپنی روش بد پر اڑے رہے تو تم بھی ہلاکت سے دوچار ہوگے۔
o آگے کی آیتوں میں نبی ﷺ کے مخالفین اور قرآن کے کتاب حق ہونے کے بارے میں شبہ کرنے والوں اور اس پر اعتراض کرنے والوں کے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے ۔
o مثلا ان کا کہنا تھا کہ اس اہم کام کے لئے تو کسی فرشتے کو نازل ہونا چاہیے تھا ۔ اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا کہ فرشتے تو صرف عذاب کا حکم لے کر اترتے ہیں ۔
o دوسری بات یہ ہے کہ اگر فرشتہ بھی بھیجا جاتا تو اسے بھی انسانی شکل ہی میں بھیجا جاتا، پھر تو یہ اعتراض وشبہہ جوں کا توں برقرار رہنا تھا۔ اس لئےکہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو آنہیں سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب ومانوس ہونے کے بجائے دور بھاگتے، اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا، لیکن یہ تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے سے پیش کر رہے ہیںتو فرشتہ بھیجنے کا کیا فائدہ؟ ۔
o چونکہ مشرکین یہ اعتراضات نبیﷺ کے ساتھ تمسخر اور مذاق اڑانے کے انداز میں کرتے تھے ،اس لئے آگلی دو آیتوں میں نبیِ کریمﷺ کا تسلی دیتے ہوئے یہ فرمیا گیا کہ تمسخر و استہزاء کا یہ معاملہ کوئی آپ ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ آپ سے قبل انبیاء علیہم السلام کو بھی ایسے ہی ہمت شکن اور دلدوز حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور تمسخر کرنے والوں کا انجام اللہ کے عاب کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جسے اس کا نظآرہ کرنا ہو وہ زمین میں ان کے اجڑے ہوئے دیار کو جا کر دیکھ لے۔
o پھر آیت نمبر 20 تک مختلف انداز سے توحید ربوبیت کا ذکر ہے جس کا مقصد توحید الوہیت کا اثبات او راللہ واحد قادر مطلق کی شان کو ثابت کرنا ہے۔
o چنانچہ آیت ۱۲ تا ۱۴ میں آسمان و زمین کامل ملکیت ، آسمان وزمین کی ہر متحرک وساکن چیز پر اپنے تصرف اور آسمان وزمین کی تمام مخلوقات کو رزق رسانی کا حوالہ دے کر آخرت پر ایمان لانے توحید کو اپنانے کی دعوت دی گئی ہے۔
o آیت ۱۵، ۱۶ میں نبیِ کریمﷺ کو مخاطب کرکے لوگوں اللہ کی نافرمانی سے ڈرایا گیا ہے ۔
o آیت ۱۷-۱۸ میں اللہ تعالی کی توحید کا اثبات اور شرک سے براءت ہے کہ ہر قسم کے نفع کے حصول اور نقصان کے دفع کا اختےیار اسی کے پاس ہے اور اس کائنات کی ہر چیز پر قدرت اسی کو حاصل ہے۔
o اور اگر اس پر کوئی گواہی چاہے تو اللہ تعالی سے بڑھ کر گواہی دینا اور کون ہوسکتا ہے؟یہ قرآن اسی شہادت کے لئے اترا ہے۔
o ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جو آپ کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے لئے آپ کی دعوت کو سمجھنا مشکل ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کٹ حجتی پر تلے ہوئے ہیں اور اللہ کے دئیے ہوئے کانوں سے سننے کا حق ادا نہیں کرتے۔
o آیت ۲۲ تا ۲۴ میں نبیﷺ اور قرآن پر ایمان نہ والوں کی حشر میں بدحالی کا ذکر ہے، جہاں جب ان سے سوال ہوگا تو اولا تو وہ بہانہ بازی سے کام لیتے ہوئے اپنے شرک کانکار کریں گے،پھر جب ان پر گواہی پیش کر دی جائے گی تو بالکل ہی بے بس ہو جائیں گے، وہ چاہیں گے کہ ان کے باطل معبود ان کی طرداری کریں ، لیکن وہ تو پہلے ہی سے براءت کا اظہار کر دیں گے ۔
o آگے ان کفار کی ایک اور شرارت کا ذکر ہے کہ صرف یہی نہیں کہ یہ خود اس حق قبول کرنے سے دور ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بات ماننے سے روکتے اور قرآن کو پہلے لوگوں کی داستان بتاتےہیں ۔آیت:25، 26
o قرآن کی تکذیب اور نبیﷺکو قبول کرنے اعراض کرنے والے اور دوسروں کو بھی اس سے روکنے والوں کی اس برے انجام کا ذکر کہ جب وہ جہنم پر پیش کئے جائیں گے اور اپنی ہلاکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اپنی بد بختی کا ماتم کرتے ہوئے دنیا میں دوبارہ آنے کی تمنا کریں گے ۔
o بلکہ بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالی سے عرض کریں گے کہ انہیں صرف ایک بار دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے، اس بار وہ نیکی کر کے آئیں گے۔
o اس کے جواب میں مالکِ حقیقی کا صرف یہ جواب ہوگا کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں ،یہ باتیں صرف کہنے کی ہیں ، اگر انہیں دنیا میں دوبارہ واپس بھی کیا جائے تو اپنے کفر وشرک کی روش پر ہی رہیں گے۔ لہذا حکم ہوگا "ﵟوَلَوۡ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُهُواْ عَنۡهُ وَإِنَّهُمۡ لَكَٰذِبُونَ (٢٨)” اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے عوض عذاب چکھو ۔
o نبیِ کریمﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے جھٹلانے سے آپ پریشان نہ ہوں ، فی الورقع یہ آپ کو نہیں بلکہ اللہ کو جھٹلا رہے ہیں۔ ان سے قبل دیگر قومیں بھی اپنے رسولوں کے ساتھ یہ حرکت کر چکے ہیں، لیک انہوں نے صبر سے کام لیا، ایسے ہی آپ بھی صبرسے کام لیں ، اور ان کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دیں۔
o ان کے عذاب کے مطالبے نہ آپ زچ ہوں،اور نہ ان کے معجزات کے مطالبے سے پریشان ہوں ، ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں ، اللہ تعالی جب چاہے گا معجزات ظاہر کر دے گا۔ کیونکہ ان کا یہ مطالبہ محض مطالبہ ہے حق کی تلاش نہیں ہے۔
o آیت ۳۸ میں اللہ تعالی کے کمالِ علم اور کمالِ قدرت کا بیان ہے کہ اس دنیا میں جتنے جانور زمین میں چلنے والے ہیں، یا آسمان میں اڑنے والے پرندے ہیں وہ سب بھی تمہاری ہی طرح ایک امت ہیں اور مکمل طور پر اللہ کے علم میں ہیں۔ جس طرح اللہ تعالی نے تمہیں پیدا کیا ہے انہیں بھی پیدا کیا ہے، جس طرح وہ تمہیں روزی دیتا ہے اسی طرح انہیں بھی روازی دیتا ہے، اور تمہاری طرح انہیں بھی قیامت کے دن اٹھائے گا اور ان کا حساب لے گا۔
o اسی ضمن میں جگہ جگہ اس امر کی بھی وضاحت بھی ہے کہ وہ آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کیا انہوں نےاس عذاب سے بچنے کیلئے کوئی تیاری بھی کر رکھی ہے؟ ۔آیت:۴۰، ۴۱
o پھر اللہ تعالی نے پچھلی قوموں کا حوالہ دیا کہ ان لوگوں نے بھی اپنے رسولوں سے اسی قسم کے مطالبے کئے تھے تو اللہ تعالی نے انہیں مختلف قسم کی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ توبہ کر لیں۔لیکن چونکہ ان کی نیت میں فتور تھا اور ان کے دل سخت ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے نصیحت حاصل نہ کی، جس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کر دیا گیا اور ان کا نام ونشان مٹا کر رکھ دیا گیا ۔آیت:42، 45
o آیت 48سے 50 تک رسولوں کی اہمیت اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکرہوا ہے اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ مختار کل اور قادر مطلق نہیں ہوتے ،بلکہ وہ اللہ کی طرف سے مامور او ر اس کے حکم کے پابند ہوتے ہیں۔
o آیت 51سے 54 میں ان لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں جو دعوتِ حق کو قبول کرتے ہیں:
1) اللہ کا خوف اور ڈر رکھنا۔آیت:51
2) صبح و شام اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ آیت :52
3) اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ آیت: 54 ۔
o آیت ۵۰ تا ۵۳ رسول ورسالت سے متعلق بہت سے عقائد کی تعلیم ہے۔
1- رسول اللہﷺ کے پاس اللہ کے خزانے نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں اس کائنات میں تصرف کی کوئی قوت حاصل ہے
2- رسول اللہﷺ غیب نہیں جانتے تھے۔
3- رسولﷺ فرشتہ بھی نہیں ہیں کہ وہ ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتے رہیں جن کا مشاہدہ فرشتے کرتے ہیں۔
4- مومنین کے حساب وجزا کا بھی حق ان کے پاس نہیں ہے۔
5- رسول اللہ ﷺ اپنے معملات میں وحیِ الہی کے پابند ہیں۔
6- اگر بتقاضائے بشریت رسول سے کوئی ایسی بات صادر ہوتی ہے جو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف ہے تو اللہ تعالی فورا اس کی اصلاح کر دیتا ہے
7- آپﷺ کا کام ترغیب وترہیب سے اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہوتا ہے۔ کسی کے دل میں اتارنا، یا کسی کو کجبور کرنا یہ کام آپ کا نہیں ہے۔
8- اللہ تعالی کی سنت ہے کہ وہ اپنے بعض بندوں کو بعض کے لئے فتنہ وآزمائش کا سبب بناتا ہے۔جیسے کہ اللہ تعالی کسی نیک مسلمان کو غریب رکھتا ہے ، تاکہ فاسق وجاجر مالدار یہ سمجھے کہ اگر یہ اللہ کا محبوب ہوتا تو اللہ تعالی اسے محتاج نہ رکھتا۔ دیکھئے التفسیر المنیر
o آیت 55 میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ حق وباطل کا راستہ اللہ تعالی نے واضح کردیا ہے۔
o آیت 56 تا 58 نبی کریمﷺ سے یہ اعلان کرایا جا رہا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ میرا راستہ اللہ تعالی کا متعین کردہ راستہ ہے ۔ لہذا حق وباطل کا راستہ واضح ہو جانے کے بعد جبکہ میرے پاس حق تعالی کی طرف سے دلائل آچکے ہیں تو اب ممکن نہیں ہے کہ اس گمراہی میں پڑوں جس میں تم پڑے ہوئے ہو۔
o آیت 59 کے بعد متعدد آیات میں کئی اہم عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے:
o 1) اللہ کے وسعت علم کا بیان اور یہ کہ علم غیب اللہ کا خاصہ ہے، اور وہی خشکی وتری کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔[الانعام:59]۔
o 2) رات کو سونے کے بعد بیدار ہونے سے قیامت کے ثبوت پر استدلال کیا گیا ہے،یعنی وہ رب جو تمہیں موت صغری (نیند )کے بعد تمہیں زندہ کرتا ہے وہ تمہیں موت کبری کے بعد بھی زندہ کرنے پر قادر ہے[الانعام:60]۔
o 3) عذاب اور مصائب سے نجات دینے والی ذات اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اورنہیں ہے[الانعام:63-65]۔
o 4) موت کےلئے اللہ تعالی نے کچھ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو وہ فرشتے حکم ربانی کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے[الانعام:61] ۔
o 67 تا۷۰ میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ان مجالس سے اعراض کریں اور دور رہیں جن میں لوگ اللہ کی آیات پر طعن وتشنیع کر رہے ہوں ، یا دین کی باتوں اور اللہ و رسول کی تکذیب کے ساتھ ساتھ اس کا مذاق اڑا رہے ہوں۔
o ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کو جو ایسا کرتے ہیں سخت سے سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (70) ” سے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے، ان کے لئے نہایت تیز گرم پانی پینے کے لئے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب”۔
اس سے آج کے روشن خیال لوگوں کو عبرت لینی چاہئے جن کی مجلسوں کی ابتدا وانتہاء ہی دین اور اہل دین پر نقطہ چینی اور ان پر استہزاء سے ہوتی ہے۔ واللہ المستعان
o آیت 74تا83میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا ذکر ہے کہ کس طرح سے حضرت ابراہیم نے عقلی دلائل اور کائنات میں پائی جانے والی محسوس نشانیوں کے ذریعے اپنی قوم کے شرکیہ عقائد کی تردید کی او ران پر حجت قائم کی ،اللہ کی توحید کو ثابت کیا،اس کے فضائل بیان کیے اور شرک کی قباحت کو بھی واضح کردیا ۔
o اس کےبعد آیت 84تا90میں سترہ نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات واضح کی گئی کہ یہ سب نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے منہج اور تعلیم پر کاربند تھے ۔
o اسی ضمن ایک بڑی اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ شرک اس قدر قبیح فعل ہے کہ بفرض محال اگر انبیائے کرام علیہم السلام بھی شرک کر لیتے تو ان کے عمل بھی ضائع ہوجاتے اور ان کی ساری کوششیں اور محنتیں اکارت ہو جاتیں۔
o نیز اہل مکہ کو یہ بھی توجہ دلائی گئی ہے ، یہ نبی جو تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے وہ حضرت ابراہیم اور اس کے بعد کے نبیوں کے منہج پر ہے اور اسے بھی اسی طریق پر چلتے رہنے کا حکم دیا ہے۔
o آیت 91تا93میں قریش اور ان کے ہمنوا یہود کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ "یہ کتاب اللہ کی نازل کردہ نہیں ہےورنہ ہم اللہ کو دیکھتے یا جو فرشتہ اسے لے کر آتا ہم بھی اس کا مشاہدہ کرتے”۔
o اس کے جواب میں کہا گیا کہ ان لوگوں نے ایسااعتراض اٹھا کر اللہ کی صحیح تعظیم وتقدیر کا حق ادا نہیں کیا۔
o یعنی یہ تو اللہ کے بارے میں بہت بڑی بدگمانی کی بات ہے کہ وہ کوئی کتاب کسی بشر پر نازل نہیں کر سکتا۔
o اور پھر ان سے یہ سوال بھی کرنے کو کہا گیا کہ بتاؤ تو سہی بھلا وہ کتاب جسے تم نے مختلف حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے اسے حضرت موسی علیہ السلام پر کس نے نازل کیا؟
o پھر اس کتاب کی حقانیت اور مقصد نزول کو واضح کیا ۔
o آیت نمبر 92 سے یہ نکتہ بھی واضح ہوا کہ قرآن پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا ہے کہ بندے کا آخرت پر بھی ایمان ہو اور نماز کی پابندی کرنے والا ہو ۔
o آیت نمبر 93 میں موت کی سختی اور ہولناکی کو بیان کیا گیا ہے خاص طور پر جب ظالموں کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو فرشتے کس طرح ان کی روح وں کو قبض کرتے ہیں ۔ نیز یہ کہ ان ظالموں کو اپنے رب پر الزام تراشی اور اس کی آیات سے تکبر کے جرم میں کس قدر مشقت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
o آیت نمبر 93 میں قیامت کی ایک اور ہولناکی کا بیان ہے کہ اس دن ہر انسان اللہ تعالی کے سامنےتن تنہا اس طرح حاضر ہو گا کہ کوئی اس کے ساتھ اس کی مدد،سفارش یا تائید کیلئے نہ ہوگا ۔
o آیت 95تا101میں کائنات کےدس حقائق کا ذکر ہے جو اللہ تعالی کی توحید ربوبیت کی دلیل ہیں۔ ان کو ذکر کرکے توحید الوہیت پر استدلال کیا گیا ہےاور اسے قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔
o وہ دس حقائق یہ ہیں ۔
1- دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا۔ 2- زندہ کو مردہ سے۔ 3-اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ۔ 4-صبح کی پو پھاڑنے والا، 5- رات کو ذریعہ سکون بنانے والا، 6- سورج چاند کا حساب مقرر کرنے والا، 7- ستاروں کو راستوں کی پہچان کا ذریعہ بنانے والا، 8- ایک ہی نفس سے سب کو پیدا کرکے ان کےلئے جائے قیام وسکون مہیا کرنے والا۔ 8- بارش نازل کرکے ہرقسم کے گچھے دار پھل پیدا کرنے والا۔ 10- اور زمین و آسمان کی ایک خاص انداز سے ایجاد کرنے والا۔ ان سب کاموں کو کرنے والاصرف اللہ ہے ۔ پھرچونکہ اسی نے ان ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے لہذا تمہیں صرف اسی عبادت کرنی چاہیے ۔ آیت: 102
o توحید پر دلائل کے بعد لوگوں کو حق قبول کرنے کی دعوت ہے۔ اور یہ توجیہ بھی ہے کہ جو اب دلائل کو دیکھ کر ہدایت اپنالےگا اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا تو اسی کا نقصان ہے ۔
o قرآن میں مختلف انداز سے توحید کے دلائل بیان کرنے کی وجوہات کا بیان ہے۔ ۱- جن کے اندر حق صلاحیت ہو وہ ہدایت حاصل کرلین۔ ۲- منکرین تعجب کریں کہ محمد[رسول اللہﷺ] یہ سب باتیں کہاں سے سیکھتا ہے۔ ۳- سمجھ دار لوگوں پر حجت کا قیام ہے ۔
o نبیِ کریمﷺ کو مضبوظی سے وحی الہی پر جمے رہنے اور مشرکین سے اعراض کا حکم ہے۔
o پارے کے آخر میں ایک اہم ادب کی تعلیم دی گئی ہے ۔وہ یہ کہ جو کام خود کرنا جائز نہیں اس کام کا سبب اور ذریعہ بننا بھی جائز نہیں،اس لیے اللہ تعالی نے مشرکین کے معبودان باطلہ کو برا بھلا کہنے سے منع کردیا تاکہ وہ بدلے میں اللہ کو برا بھلا نہ کہیں ۔
o اس پارے کی آخری دو آیتوں میں یہ بیان ہے کہ ان حقائق کے باوجود مشرکین کا مزید معجزات او ر نشانیوں کا مطالبہ کرنا اور قسمیں کھا کھا کر وعدے کرنا کہ ہم ایمان لے آئیں گے، یہ ان کے محض وعدے ہیں ۔
نبی ﷺ اور مسلمانوں کو یہ تسلی دی جارہی ہے یہ محض ان کے دعوے ہیں، ان کا مقصد صرف پریشان کرنا اور بلا وجہ کی ضد ہے۔ اگر ان کے دل میں کوئی خیر کا پہلو ہوتا تو اللہ تعالی انہیں پہلے ایمان کی توفیق دے دیتا۔
اگلے پارے میں اس کی مزید وضاحت آرہی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] — ایشائی  ملکوں  میں طباعت شدہ قرآن مجید کے نسخے اور عرب دنیا میں طباعت شدہ نسخوں میں بعض پاروں کی ابتدا و انتہا میں معمولی فرق ہے، جیسے اسی ساتویں پارے کی ابتدا ہمارے یہاں کے نسخوں کے لحاظ سے  "واذا سمعوا” سے ہوتی ہے ، جب کہ عرب دنیا میں چھپے مصاحف میں اس  پارےکی ابتدا ایک آیت قبل ” لتجدن” سے ہے۔  لہذا  یہاں چند حقائق کو سامنے رکھنا چاہئے۔                                         1- پاروں کی ابتدا کب سے ہوئی ہے اور کس نے کی ہے اور کس بنیاد پر کی ہے؟ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔                                                     2- پاروں کی تقسیم میں معانی کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔                                                               3- مصاحف میں پاروں کی تقسیم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات نصف صفحہ کا فرق رہتا ہے۔

[1] –یہ آیتیں نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، اور اس سے مراد وہ نصاری ہیں جن میں وہ صفات موجود ہوں جن کا ذکر  اوپر ہوا ہے۔

[1] — یہ تنبیہ شاید اس  وجہ سے کی گئی ہے  کہ پچھلی آیتوں میں راہبوں کی تعریف کی گئی  تو اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ    ان کی رہبانیت اور ان کا  شادی ،حلال اور پاکیزہ چیزوں کو ترک کرنا بھی قابل ستائش ہے۔اسی اشکال کو دور کرنے کیلئے یہ بات کہی گئی۔

[1] —  علماء کہتے ہیں کہ حلف یا  قسم تین قسم کی ہیں۔ ۱-لغو،۲- غموس، ۳-معقدۃ۔

۱-       "لغو” وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادۃً بغیر ارادہ  اور نیت کے کھتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی موخذہ نہیں ہے۔

۲-       غموسوہ جھویٹی قسم ہے جو انسادھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔یہ کبیرہ گناہ، بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کوئی کفارہ نہیں۔

۳-       معقدہ وہقسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے ارادۃً اور نیۃً کھائے۔ ایسی قسم اگر توڑ دے تو اس کا کفارہ وہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔

[1] –مُحرِم سے مراد حج یا عمرے کا احرام باندھنے والا شخص ہے۔یعنی جو شخص احرام میں داخ ہوگیا  خشکی کا شکار کرنا  اس کے لئے جائز نہیں ہے۔

[1] —ﵟيَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقۡتُلُواْ ٱلصَّيۡدَ وَأَنتُمۡ حُرُمٌۚ وَمَن قَتَلَهُۥ مِنكُم مُّتَعَمِّداً فَجَزَآءٌ مِّثۡلُ مَا قَتَلَ مِنَ ٱلنَّعَمِ يَحۡكُمُ بِهِۦ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنكُمۡ هَدۡيَۢا بَٰلِغَ ٱلۡكَعۡبَةِ أَوۡ كَفَّٰرَةٞ طَعَامُ مَسَٰكِينَ أَوۡ عَدۡلُ ذَٰلِكَ صِيَاماً لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمۡرِهِۦۗ عَفَا ٱللَّهُ عَمَّا سَلَفَۚ وَمَنۡ عَادَ فَيَنتَقِمُ ٱللَّهُ مِنۡهُۚ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ ذُو ٱنتِقَامٍ (٩٥)” اے ایمان والو! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔ اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں خواه وه فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے اور خواه کفاره مساکین کو دے دیا جائے اور خواه اس کے برابر روزے رکھ لئے جائیں تاکہ اپنے کئے شامت کا مزه چکھے، اللہ تعالیٰ نے گذشتہ کو معاف کردیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ انتقام لے گا اور اللہ زبردست ہے انتقام لینے وا لا۔

مسکین کو کھانا کھلانے اور روزہ رکھنے کے بارے میں مقتول  جانور کے حساب سے کمی بیشی ہوگی۔ مثلا : مُحرِم   نے ہرن قتل کیا تو اس کے مثل بکری ہے، یہ فدیہ حرم مکہ میں ذبح کیا جائے گا، اگر یہ میسر نہ ہو تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک قول کے مطابق چھہ مسکینوں کو کھان ا یا تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے۔ اگر اس نے بارہ سنگھا، سانجر یا اس جیسا جانور قتل کیا ہے تو اس کی مثل گائے ہے، اگر یہ دستیاب نہ ہو ، یا اس کی طاقت نہ تو بیس مسکینوں کو کھانا  یا بہس دن کے روزے رکھنے ہوں گے۔ یا ایسا جانور(شتر مرغ وغیرہ) قتل کیا ہے جس کی مثل اونٹ ہے تو عدم دستیابی کی صورت میں ۳۰ مساکین کو کھانا یا تیس دن کے روزے رکھنے ہوں گے۔ تفسیر ابنِ کثیر، احسن البیان ص: ۳۴۹

[1] — ﵟأُحِلَّ لَكُمۡ صَيۡدُ ٱلۡبَحۡرِ وَطَعَامُهُۥ مَتَٰعاً لَّكُمۡ وَلِلسَّيَّارَةِۖ وَحُرِّمَ عَلَيۡكُمۡ صَيۡدُ ٱلۡبَرِّ مَا دُمۡتُمۡ حُرُماًۗ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِيٓ إِلَيۡهِ تُحۡشَرُونَ (٩٦)” تمہارے لئے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔ تمہارے فائده کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لئے حرام کیا گیا ہے جب تک تم حالت احرام میں رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے”۔

اس آیت میں "صيد”شکار پکڑناسے مراد زندہ جانور اور  ” طعامه”اس کا کھنا سے مراد مردہ مچھلی وغیرہ ہے۔ جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے، یا پانی کے اوپر آجائے۔ جس طرح حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔[سنن ابو داود:۸۳، سنن الترمذی:۶۹] ۔  تفسیر احسن البیان ص:۳۱۵

[1] — بعض اہل علم  جیسے امام شاطبی رحمہ اللہ نے مذموم سوال کی دس شکلیں ذکر کی ہیں۔ دیکھئے محاسن التاویل للقاسمی 6/2176 سے 2180 تک ۔ افادہ عامہ کے لئے ان صورتوں کا ذکر اختصار سے کیا جاتا ہے۔  1- اس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔جیسے حضرت عبد اللہ بن حذافہ کا سوال کہ "میرا باپ کون ہے”؟۔ 2- حاجت سے زیادہ کا سوال ہو۔ جیسے صحابی کا سوال کہ کیا ہر سال  حج فرض ہے؟  3- اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا فرمان نبوی:”ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ"۔ 4- مشکل اور الجھا دینے والے مسائل سے متعلق سوال۔                       5- عبادات کی علتوں اور حکمتوں سے متعلق سوالات۔         6-   پر تکلف   اور تشدد پر مبنی سوالات۔ جیسے بنی اسرائیل کا گائے  کے متعلق سوال۔          7- سوال سے کتاب وسنت کا معارضہ ظاہر ہو۔   8- متشابہات سے متعلق سوال۔ 9- صحابہ اور سلف کے مابین پیش آمدہ معاملات کے بارے میں بکثرت سوال۔     10- مخالف کو زیر کرنے اور مغلوب کرنے کے لئے سوال۔ صفوۃ التفاسیر 1/371

[1] — علامہ قصیم ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس سے  25 مسائل بیان کئے ہیں ، انہیں دیکھ لینا چاہئے، تفسیر سورہ مائدہ 2/481، 491

[1] — شاید یہ واضح کرنا مقصود ہو کہ اس سورت میں جو عہد و میثاق اور احکام و مسائل  بیان ہوئے ان کے متعلق خصوصی طور پر سوال ہوگا۔

[1] –"مائدہ” کا مختصر بیان یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے سچے پیروکاروں(حواریوں) نے  حضرت عیسی علیہ السلام سے عرض کیا کہ  کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی ہمارے لئے آسمان سے تیار شدہ کھانا نازل کردے؟ اولا حضرت عیسی علیہ السلام نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا  کہ ایسا سوال کرنے سے تم کو پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن حواریوں نے عرض کیا کہ اس سے میرا مقصددنیا کاحصول نہیں بلکہ ہم تین وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں۔  1- ہم فکر معاش سے آزاد ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجائیں۔   2- ہمیں یہ یقین ہوجائے (یعنی  عین الیقین) کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ 3- ہم اس دن کو بطور عید اور جشن کے منایا کریں۔حضرت عیسی السلام نے مائدہ کے نزول کے لئےدعا  بھی کی،  لیکن اللہ تعالی نے اس پر یہ شرط رکھی کہ اس کے بعد  بھی اگر ناشکری ہوئی تو میرا عذاب  بڑا دردناک ہوگا۔

اللہ تعالی کی اس تنبیہ کے بعد کیا مائدہ نازل ہوا کہ نہیں ؟ اس بارے میں کوئی مصدق بات  نہیں ہے۔  بعض علماء کہتے ہیں کہ مائدہ  نازل ہوا تھا اور بعض علماء کہتے ہیں   کہ اللہ کی تنبیہ کے بعد حواریین اپنے مطالبے کو واپس لے لیا  تھا۔واللہ اعلم

[1] —الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (1) هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ (2)"تمام تعریفیں اللہ ہی کے ﻻئق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں ۔وه ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر ایک وقت معین کیا اور (دوسرا) معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔”۔                  یعنی تعجب ہے کہ تم ہر جوہر وعرض کا خالق اللہ ہی کو مانتے ہو، اس کے باوجود اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہو۔

[1] — وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ (8)” اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی۔

[1] — وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ (9)” اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب اشکال کر رہے ہیں”۔

 

[1] —  ﵟقُلۡ إِنِّيٓ أَخَافُ إِنۡ عَصَيۡتُ رَبِّي عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيمٍ (١٥) مَّن يُصۡرَفۡ عَنۡهُ يَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَهُۥۚ وَذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡمُبِينُ (١٦) "آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔جس شخص سے اس روز وه عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے”۔

نبیِ کریمﷺ کی طرف منسوب کرکے ہمیں یہ بتلانا ہے کہ اس حکم کی خاف ورزی پر جب  نبیﷺ کو معاف نہیں کیا جا سکتا تو ہماں شماں کی کیا حیثیت ہے۔

[1] — ﵟثُمَّ لَمۡ تَكُن فِتۡنَتُهُمۡ إِلَّآ أَن قَالُواْ وَٱللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشۡرِكِينَ (٢٣) ٱنظُرۡ كَيۡفَ كَذَبُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡۚ وَضَلَّ عَنۡهُم مَّا كَانُواْ يَفۡتَرُونَ (٢٤)” پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بوﻻ اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وه جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وه سب غائب ہوگئے”۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہلِ توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کرکے اپنے شرک کرنے ہی سے انکار کر دیں گے، پھر جب اللہ تعالی ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاوں  جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے  اور پھر یہ اللہ تعالی سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہوسکیں گے، ابنِ کثیر، تفسیر احسن البیان ص:۳۳۳

[1] — وَهُمۡ يَنۡهَوۡنَ عَنۡهُ وَيَنۡـَٔوۡنَ عَنۡهُۖ وَإِن يُهۡلِكُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُونَ (٢٦) اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں اور یہ لوگ اپنے ہی کو تباه کر رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں رکھتے۔

اگر دیکھا جائے تو یہی طریقہ کار آج کے باطل پرستوں کا بھی ہے   کہ وہ اہل حق کی کتابیں پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے سے اپنے پیرو کاروں کو منع کرتے ہیں۔

[1] — اس آیت سے علماء نے استدلال کیا  ہے کہ اللہ تعالی کو اس چیز کا علم ہے جو ہو چکا ہے، جو کچھ ہونے والا ہے  اور جو کچھ نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا۔

[1] —  اس بیان سے اللہ تعالی کی کمالِ قدرت اور کمالِ علم کا بیان  ہے  کہ وہ ذات  بڑی قدرت والی ہے، وہ معجزات وغیرہ سے متعلق مشرکین کے مطالبات کو پورا کر سکتی ہے ، لیکن چونکہ آپ کی بعثت اور قرآن کے کے نزول سے ان پر حجت  پوری ہو چکی ہے، نیز ان کا مقصد حق کی تلاش نہیں ، بلکہ صرف ایک  بہانہ ہے اس لئے اب مزید معجزات پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

[1]– وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (54) "اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجیئے کہ تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وه اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وه) بڑی مغفرت کرنے واﻻ ہے بڑی رحمت واﻻ ہے۔

اس سے ایک بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ  جو لوگ خیر کے طالب ہوں انہیں انعام دینا چاہیے، ان کی عزت افزائی بھی ہونی چاہیے ،اور اگر ان سے نادانی میں غلطی ہو جائے اور وہ توبہ کرکے اپنی اصلاح  کرلیں تو انہیں یہ خوشخبری سنا دینی چاہئے کہ  یقینا  اللہ تعالی بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔

نیز اس آیت سے یہ بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ داعی کو خوش رو ، ہنس مکھ اور لوگوں سےآگے  بڑھ کر سلام کرنا چاہئے۔

[1] — جیسا کہ آیت نمبر۵۲ اور اس کے شانِ نزول سے ظاہر ہے۔  حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ سےروایت  ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم چھ افرادتھے تو مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "ان لوگوں کو بھگا دیجئے، یہ ہمارے سامنے آنے کی جرات نہ کریں۔ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ میں، ابن مسعود،  ہذیل کا ایک شخص ، بلال اور دواور شخص تھے، جن کا نام میں نہیں لیتاو یا یہ کہ مجھے ان کے نام معلوم نہیں ہیں۔ مشرکین کے مطالبے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا سوآیا، پس آپ نے اپنے  جی ہی  میں کچھ سوچا۔ جس پراللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: ﵟوَلَا تَطۡرُدِ ٱلَّذِينَ يَدۡعُونَ رَبَّهُم بِٱلۡغَدَوٰةِ وَٱلۡعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجۡهَهُۥۖ مَا عَلَيۡكَ مِنۡ حِسَابِهِم مِّن شَيۡءٍ وَمَا مِنۡ حِسَابِكَ عَلَيۡهِم مِّن شَيۡءٍ فَتَطۡرُدَهُمۡ فَتَكُونَ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (٥٢)” اور ان لوگوں کو دورنہ کیجیے جو صبح، شام اپنے رب کو پکا رتے ہیں صرف اس کی رضا چاہتے ہیں۔ان کا حساب ذرا بھی آپ کے ذمے نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے ذمے نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں ہو جائیں گے”۔ صحیح مسلم:۲۴۱۳

[1] قُلۡ هُوَ ٱلۡقَادِرُ عَلَىٰٓ أَن يَبۡعَثَ عَلَيۡكُمۡ عَذَاباً مِّن فَوۡقِكُمۡ أَوۡ مِن تَحۡتِ أَرۡجُلِكُمۡ أَوۡ يَلۡبِسَكُمۡ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعۡضَكُم بَأۡسَ بَعۡضٍۗ ٱنظُرۡ كَيۡفَ نُصَرِّفُ ٱلۡأٓيَٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَفۡقَهُونَ (٦٥)” آپ کہئے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروه گروه کرکے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے۔ آپ دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دﻻئل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وه سمجھ جائیں”۔

اس آیت میں اللہ تعالی  نے  رسول کی مخالفت کرنے والوں پر تین قسم کے عذاب  نازل کرنے پر اپنی قدرت  کا ملہ کو بیان کیا ہے: 1- آسمانی عذاب  ، جیسے طوفانی بارش، کڑک اور بجلی وغیرہ،  2- زمینی عذاب  ، جیسے سیلاب ، زلزلے اور زمین کا دھنس جانا وغیرہ،             3- قبیلوں اور جماعتوں میں  باہمی لڑائیاں اور دشمنوں کا غلبہ  وغیرہ۔

[1] — الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (83)” جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں۔ اور یہ ہماری حجت تھی وه ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بےشک آپ کا رب بڑا حکمت واﻻ بڑا علم واﻻ ہے”۔

[1] — انبیاء علیہم السلام کی اتنی تعداد  کا تذکرہ اس سورت کے علاوہ قرآن مجید کی کسی اور سورت میں  نہیں ملتا۔

[1] — وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (92)  اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں۔ اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وه اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں”۔

[1]– اسی آیت سے علماء نے قبر کے عذاب پر استدلال کیا ہے، وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (93)”اور اس شخص سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حاﻻنکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی ﻻتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ﻇالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے”۔

اس لئے کہ اس آیت میں صراحۃ یہ  مذکورہے کہ روح قبض کرتے وقت فرشتے ظالموں سے کہیں گے "آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا” ۔گویا تمہارا عذاب آج ہی سے شروع ہوجائےگا ، قیامت تک کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔

[1] — جیسا کہ سور مریم کی آیت  93—95 میں اس  معاملےکی مزید وضاحت ہے۔

[1] — ﵟذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمۡۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَۖ خَٰلِقُ كُلِّ شَيۡءٍ فَٱعۡبُدُوهُۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٍ وَكِيلٌ (١٠٢) لَّا تُدۡرِكُهُ ٱلۡأَبۡصَٰرُ وَهُوَ يُدۡرِكُ ٱلۡأَبۡصَٰرَۖ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلۡخَبِيرُ (١٠٣)” یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب! اس کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے واﻻ ہے، تو تم اس کی عبادت کرو اور وه ہر چیز کا کارساز ہے۔اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے”۔

[1] —  حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:«مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتِمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ» کہ بندے کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے،صحابہ نے کہا :بندہ اپنے ماں باپ کو کیسے  گالی دیتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:«يَشْتِمُ الرَّجُلَ، فَيَشْتُمُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ» کہ یہ کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ شخص  بدلے میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے‘‘[الادب المفرد للبخاري(27)اور اس کی اصل صحیحین میں ہے]۔

اسی آیت سے فقہاء نے "سد ذرائع” کا ایک اصولی قاعدہ اخذ کیا ہے۔