سال پر سال / حديث نمبر: 277

بسم اللہ الرحمن الرحیم

277:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سال پر سال

بتاریخ : 22/ ذو الحجہ 1436 ھ، م  06، اکٹوبر 2015 م

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يُؤْتَى بِالعَبْدِ يَوْمَ القِيَامَةِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالًا وَوَلَدًا، وَسَخَّرْتُ لَكَ الأَنْعَامَ وَالحَرْثَ، وَتَرَكْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ فَكُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلَاقِي يَوْمَكَ هَذَا؟ فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ لَهُ: اليَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي ”

( سنن الترمذي : 2428 ، القيامة )

ترجمہ  : حضرت ابو سعید الخدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ایک بندے کو لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا : کیا ہم  نے تجھے  کان ، آنکھ اور مال و اولاد نہیں دیا ، اور تیرے لئے جانوروں کو مسخر نہیں  کیا اورکھیتی  کا کام آسان نہیں کیا ؟  اور تجھے  ایسا نہیں بنا چھوڑا کہ تو سرداری کرتا رہا  اور لوگوں  سے ٹیکس  وصول کرتا رہا ، تو کیا  تیرا  یہ گمان نہیں تھا کہ  اس دن تو مجھ سے ملاقات  کرے گا ، وہ بندہ  جواب دے گا : نہیں {میرا یہ گمان نہ تھا }تو اللہ تعالی اس سے فرمائے گا : جس طرح تو مجھے  بھولا رہا آج میں بھی تجھے بھول جاوں گا ۔ {سنن ترمذی }

تشریح : اس حدیث شریف میں ایک  ایسے بندے  کا ذکر ہے جو اس دنیا  میں اپنے وجود کے مقصد  کو بھولا  رہا {اور اس دنیا میں ایسے بے شمار بندے ہیں}، اسے اپنا  خالق و مالک اور مربی  ومشفق ر ب اور اس کے فرامین  یاد  نہ رہے ، اس نے اپنی زندگی  صرف حیوان کی طرح کھانے  پینے  اور لذت  اندوزی میں گزار دیا  ، اس کے اوپر  دن پر دن ، مہینے  پر مہینے  اور  سال پر سال  گرزرتے رہے  لیکن  اسے کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ اس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے ، وہ یہ بھولا رہا ہے کہ  وہ رب جس نے  ہمیں پیدا کیا ، زندگی بخشی ، زندگی بسر  کرنے کی تمام سہولتیں مہیا کیں ، میری عمر میں برکت عطا فرمائی  اس کے  حقوق و آداب کیا ہیں ، رات و دن کی آمد  ، مہینوں  اور سالوں  کے گزرنے  سے اسے عبرت نہ ہوئی  ، مصائب و حوادث اورشدائد  و فتن سے اسے کبھی نصیحت  نہ ملی  بلکہ وہ اپنے رب اور اپنے انجام کو بھولا رہا ، لہذا  بروز قیامت  اللہ تعالی  بھی اسے بھول جائے گا ،یعنی  عذاب کے حوالے کرکے اسے وہاں  سے نجات دینے  کے معاملہ کو اس طرح چھوڑ دیگا  کہ گویا اسے بھول گیا ہے ۔

عزیزا ن ! مہینوں  اور سالوں  کے گزرنے ، رات و دن  کی آمد  و رفت  میں  عقلمندوں کے لئے عبرت کا سامان اور انہیں تفکر کی دعوت ہے : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ  (ال عمران:190)” آسمانوں اورزمین کی پیدائش  میں اور رات  و دن  کے ہیر  پھیر میں یقینا  عقلمندوں  کے لئے  نشانیاں ہیں "اللہ تعالی نے رات  و دن  بنایا ہی اس لئے کہ  ہم اللہ تعالی  کی اس نعمت  کو یاد  کرکے اس کا شکریہ  اداکریں۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا (الفرقان :62)” اور اسی نے رات  و دن کو ایک  دوسرے  کے پیچھے آنے جانے والا بنایا  ، اس شخص  کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا  چاہے ، یا اللہ تعالی کا شکر گزار  بننا چاہے ” ——سال رواں اپنے آخری ایام میں ہے اور نئے سال کی گھڑیاں دروازے پر دستک دے رہی ہیں ،یہ جہاں  ایک طرف ہمارے لئے خوشی کا سبب ہے وہیں ہم میں سے ہر شخص کو عبرت و نصیحت  کا سامان اور  اپنے محاسبے کا موقعہ ہے ، ہمیں اسی فکر کی دعوت ہے کہ اس سال ہم  نے  کیا کھویا اور   کیا پایا ، آئندہ سال کے لئے ہم نے کیا پروگرام  بنایا ، اور اس سے مستفید  ہونے کے لئے   ہم نے کیا تیاریاں کی ، کیونکہ  جو سال گزر گیا ہے  وہ اب دوبارہ آنے والا نہیں  ہے اور جو نیا سال  آرہا ہے وہ کسی کے روکنے سے رکنے  والا نہیں ہے ،

اس موقعہ  پر ایک  مسلمان کو چند امور کو مد نظر  رکھنا چاہئے :

[۱] اپنا محاسبہ کریں : اللہ تعالی  ارشاد فرماتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ () وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (الحشر: 18- 19)اے ایمان والوں ! اللہ تعالی سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے  کل کے لئے کیا سامان کیا ہے ،  اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ یقینا  تمہارے  ان سب اعمال  سے باخبر ہے جو تم  کرتے ہو ، اور ان  لوگوں  کی طرح نہ ہوجاو  جو اللہ کو بھول گئے  تو اللہ تعالی نے انہیں خود اپنی جانوں سے  غافل کردیا ، یہی لوگ  فاسق ہیں ۔ لہذا  ہر عاقل انسان کو چاہئے  کہ وہ اس  رواں سال کی رخصت اور نئے  سال کی آمد  پر اپنا محاسبہ کرے کہ اس نے اپنی  ابدی زندگی  کے لئے کیا کیا ہے ، کہیں  ایسا تو نہیں کہ اس کا  یہ سال غفلت  اور لاپرواہی  میں گزرا ہو ، کہیں وہ اللہ تعالی کے  احکام  کو بھولا ہوا تو نہیں  تھا  ، اس نے  اپنے راس المال   یعنی اسلام کی حفاظت  کی ہے  کہ اسے  بھی گنوا دیا  ہے ، سچ فرمایا  امیر المومنین  عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ  نے : "حاسبوا  انفسکم قبل ان تحاسبوا ” {سنن ترمذی } ۔ قبل اس کے  کہ تمہارا  حساب لیا جائے خود اپنا محاسبہ کرلو ۔ [۲] اللہ تعالی کا شکر بجا لائیں  اور نیک عمل کریں : اس سال ہمارے کتنے بھائی ہیں جو ہم سے  رخصت ہوگئے   ، ہمارے کتنے  بھائی  ہیں جو صحت  کھو بیٹھے  ، ہمارے کتنے  بھائی ہیں  جو اس سال مشغولیت  کا شکار  ہوگئے وغیرہ وغیرہ ، لیکن  اللہ تعالی  کا شکر ہے کہ اس  نے  ہمیں باقی چھوڑا ہے ، ہماری صحت  بر قرار ہے ، ہم  ایسی حالت  میں ہیں  کہ نماز و روزہ  اور تلاوت و ذکر  کے لئے  وقت نکال سکتے ہیں ، ہم  ایسی حالت  میں ہیں کہ سال رواں  میں جو کوتاہی  رہ گئی  تھی اس کی تلافی  کرسکتے ہیں ، کیونکہ انسان کی زندگی ایک امتحان ہے ، اس کی عمر ایک میدان کار ہے  ، ارشاد باری تعالی ہے : الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملك :2)ارشاد نبوی ہے : «خَيْرُ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ، وَحَسُنَ عَمَلُهُ و شَرٌّ النَّاسِ  مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ»{سنن ترمذی ، مسند احمد بروایت  ابو بکرہ } ۔ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کی عمر لمبی  ہو اور اس کا عمل  اچھا ہو اور سب سے برا  وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی  ہو اور عمل برا ہو ۔ [۳] استغفار اور ذکر الہی : تو بہ اور استغفار  ایک مومن بندے کے ہر لمحہ  کے عمل ہیں  کیونکہ  بندہ ایک کمزور مخلوق ہے ، خطاوں  اور کوتاہیوں  کا پتلہ ہے ، لہذا  سال کے  آخر میں  جب اللہ تعالی  دین  کی جانب  اپنی کوتاہیوں کا احساس کرتا ہے تو اسے بکثرت  استغفار اور کوتاہیوں  کی تلافی کے لئے  تسبیح و ذکر الہی کا اہتمام  کرنا چاہئے  ، نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے عمر کے آخری دور میں  اسی بات  کا حکم دیا  تھا : فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر:3)[۴] عبرت و نصیحت : سال رواں  بہت سے حادثات پیش آئے ، بہت سے عبرتناک  واقعے  رونما ہوئے ، اگر ہر مومن  بندہ  نہیں تو اکثر لوگوں کو قسم قسم  کے مصائب  و آلام  کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ، لہذا  ان حادثات و واقعات  سے عبرت  لینا چاہئے،  کیونکہ  بہت سے مصائب  و آلام  کا مقصد  بندوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہوتا ہے : أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (التوبة : 126)اور کیا انہیں نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں ، پھر بھی  نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔

فوائد :

  • صحت و عافیت اللہ کی نعمت ہے اور قیامت  کے دن  اس سے متعلق سوال ہوگا ۔
  • مومن کی زندگی سال و ماہ  سے مرکب ہے  جو سال یا ماہ  گزر گیا ، اس کی زندگی کا اتنا حصہ ختم ہوگیا ۔
  • اپنی زندگی کے مقصد کو نہ پہچاننا  اور عبادات کو بجا نہ لانا گویا  اللہ تعالی  کو بھول جانا ہے ۔