*ستائیسواں پارہ (قال فما خطبکم)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*ستائیسواں پارہ (قال فما خطبکم)*

ستائیسویں پارے میں سات سورتیں ہیں؛ سورۃ الذاریات کا بقیہ حصہ اور مکمل سورۃ الطور، سورۃ النجم، سورۃ القمر،سورۃ الرحمن،سورۃ الواقعہ اور سورۃ الحدید ۔
o چھبیویں پارے کے اختتام او رستائیسویں پارے کی ابتداء میں حضرت ابراہیم و حضرت لوط علیہما السلام کے واقعے کا ذکر ہے۔
جو فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کےلئے آئے تھے وہی فرشتے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کچھ انجان مہمانوں کی صورت میں سلام کر کے داخل ہوئے ۔چونکہ حضرت ابراہیم بڑے مہمان نواز تھے اس لئے جلدی جلدی گھر گئے ایک بچھڑا ذبح کیا اور ا سے تیار کرکے مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نےجب دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑاتعجب ہوا اور خوفزدہ ہو گئے کہ مہمانوں کا ہماراکھانا نہ کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی نیت صحیح نہیں ہے۔حضرت ابراہیم کے چہرے پر خوف اور حیرت کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ہم کھانا نہیں کھاتے ،ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ،ہم آپ کو یہ بشارت دینے آئے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ایک صاحب علم لڑکے سے نوازے گا۔یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ خوشی او ر تعجب سے اپنے چہرے پر ہاتھ مارتے ہوئے بول پڑیں کہ کیامجھ بوڑھی او ر بانجھ عورت کو اولاد ہوگی؟فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ تمہارے حکیم و علیم رب کا یہی فیصلہ ہے۔
حضرت ابراہیم کو جب مہمان فرشتوں کی طرف سے اطمینان ہوا تو ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا ارادہ کیا ہے؟ یعنی آپ لوگوں کےاس طرح بھیجے جانے کا مقصد کیا ہے؟ فرشتوں نے اپنا مقصد ظاہر کیا کہ ہمیں مجرم قوم یعنی قومِ لوط کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ہم بحکمِ الہی ان کے اوپر پتھروں کو برسات کرکے انہیں تہس نہس کر دیں ، تاکہ لوگوں کے لئے انہیں باعثِ عبرت بنا دیں۔ البتہ حضرت لوط ، ان پر ایمان لانے والوں اور ان کے اہلِ خانہ کو سب کو وہاں سے نکال لیں گے، البتہ ان کی بیوہ ہلاک ہوگی ۔
o اس کے بعد کچھ دیگر قوموں کی ہلاکت کا ذکر ہے۔ جیسے:
1- حضرت موسی علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ سے فرعون کو سمندر میں ڈبو دیا جانا۔
2- تیز و تند ہواؤں کے ذریعے قومِ عاد کی ہلاکت ۔
3- ایک زوردار چیخ کے ذریعے قومِ ثمودکی ہلاکت۔
4- اور فسق وکفر کے سبب قومِ نوح کی ہلاکت کا ذکر ۔
ان واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرکے ان آیات مشرکین کو عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ آخرت کو بھولے رہنےوالوں ، رسولوں کو جھٹلانے والوں اور اپنی مادی طاقت پر اترانے والوں کا انجام ایساہی ہوتا ہے۔ لہذا قبل اس کے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آئے، توبہ کر لو ۔
o آیت نمبر47اور اس کے بعد یہ دعوت دی گئی ہے کہ جو اللہ آسمانوں او ر زمینوں کا خالق ہے او رجس نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں اس کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
o لہذا ابھی وقت ہے کہ عذاب سے قبل اللہ کی طرف لوٹ آؤ او راس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ یعنی شرک سے باز آ جاؤ ۔
o آیت 52تا55میں نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کی قوم کا آپ کے ساتھ یہ سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے،بلکہ اس دنیا میں آپ کی طرح جب بھی کوئی رسول آیا ہےتو اس کے ساتھ یہی معاملہ رہا ہے۔لہذا آپ ان سے اعراض کریں اور اپنی وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری رکھیں۔جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کی تڑپ ہوگی وہ ایمان لے آئیں گے۔
o آیت نمبر 55 سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ اگر کسی پر قرآن و حدیث کی نصیحت اثر نہیں کرتی تو جان لیں اس کا دل ایمان صحیح سے خالی ہے ۔
o سورت کا خاتمہ جن و انس کے تخلیق کے عظیم مقصد کے بیان پر ہوا ہے کہ انہیں توحیدِ عبادت یعنی صرف اللہ کی بندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، لہذا انہیں معاش کی فکر کئے بغیر اللہ کی عبادت میں لگے رہنا چاہئے ۔
o اس کے بعد ظالموں کا انجام بیان ہوا ہے اور ان کے لئے دھمکی ہے کہ اللہ تعالی نے عذاب کا جو حصہ تمہارے لئے رکھا ہے اس بارے میں جلد بازی نہ کرو، وہ دن جب آئے گا تو اس دن تمہاری تباہی ہی تباہی ہو گی ۔

سورت الطور:
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی عقیدہ ہے۔ خاص کر عقیدہ آخرت و رسالت۔
نیزآخرت سے متعلق اس وقت کافروں کےجو شبہات تھے ان کی تردید پر زیادہ زور ہے۔ بلکہ سورت کا اسلوب ہجومی یعنی حملہ آور ہونے کا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی زور دار خطیب کی تقریر ہے جس میں دھمکی دینے کا پہلو غالب ہے ۔
o ابتدائی آیات میں پانچ اہم چیزوں( طورپہاڑ،لوحِ محفوظ،بیتِ معمور،بلند چھت یعنی آسمان او ر لبریز یا بھڑکتے ہوئے سمندر) کی قسم کھا کر کہا گیا ہے کہ اللہ کا عذاب آنے والا ہے جسے روکنے کی کسی کے پاس طاقت نہ ہو گی ۔
o آیت نمبر9تا16میں اس دن کی ہولناکی اور اس دن کو بھولے ہوئے لوگوں کے انجام بد کا ذکر ہے۔ جیسے یہ ایسا دن ہوگا جس دن آسمان تھرتھرانے لگیں گے اور پہاڑ چلنے لگیں گے،اس دن قیامت کو جھٹلانے والوں کو دھکے دے دے کر لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلاتے تھے ،جس سے ڈرانے والے کو تم جادوگر کہتے تھے،اس میں داخل ہو جاؤ ۔یہی تمہارے اعمال کا بدلہ ہے۔
o آیت 17تا35میں اہل جنت اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔
1- قطار در قطار تختوں اورمسہریوں پر آرام فرماں ہونگے۔ مزید تکمیلِ راحت کے لئے ان کے نکاح میں حوروں کو داخل کر دیا جائے گا۔ آیت: ۲۰
2- ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اہل ایمان کے ساتھ ان کی نیک اولادکو ملا دیا جائے گا۔اس سے ایمان والوں کے اجر میں تو کوئی کمی نہیں ہوگی ،البتہ ان کی اولاد کے مقام کو ضرور اونچا کر دیا جائے گا ۔ آیت : ۲۱
3- دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب وہاں ان کے درمیان جام کا دور چلے گا تو لطف و سرور کا عالم یہ ہوگا کہ ایک دوسرے سے پیالوں کی چھینا جھپٹی ہو گی۔ آیت: ۲۲، ۲۳
4- اس کا ایک پہلو یہ بھی ہوگا کہ ان کی خدمت اور دل لگی کے لئے ایسے خوبصورت بچے حاضر ہوں گے کہ گویا وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں۔ آیت:۲۴
5- اسی طرح ایک پہلو یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اہل جنت باہم یا ایک ہی خاندان کے لوگ باہم ایک دوسرے سے اپنے ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کامیابی کا راز یہ بیان کریں گے کہ ہم دنیا میں اللہ سے بہت ڈرتے تھے، لیکن اس کی رحمت سے ناامید بھی نا ہوتے تھے ،بلکہ اس سے مغفرت کی دعائیں کرتے تھے جس کے عوض اللہ تعالی نے آج ہم پر کرم کیا ہے۔ آیت: ۲۵–۱۸
o آیت 29تا44میں نبی ﷺ کو یہ حکم ہورہا ہے کہ آپ اپنی دعوت کا کام کرتے رہیں اور آپ کے اوپر یہ لوگ جو الزامات لگاتے ہیں ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن کو آگے بڑھائیں۔
o پھر حملہ آور ہونے کے انداز میں پندرہ بار لفظ ’’ام‘‘(کیا یہ ہے،کیا یہ ہے)کے ساتھ مشرکین سے ناقابلِ تردیدحقائق پر مبنی پندرہ سوالات کرکے انہیں جواب سے عاجز کر دیا ہے۔
1- ان میں سے بعض سوال نبی ﷺ پر کہانت یا شاعر ہونے کے الزام کی تردیدمیں ہیں۔ آیت:۲۹-۳۱
2- بعض میں قرآن کی حقانیت کا بیان ہے۔ آیت:۳۳- ۳۴
3- اور بعض میں اللہ کی وحدانیت او ر قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ۳۵- ۳۹
4- اور بعض میں اپنے شرک پر دلائل کا مطالبہ ہے۔ ۴۱، ۴۳
یہ وہ سوال ہیں جنہوں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کو اس قرآن کا گرویدہ بنا دیا تھا او روہ فورا مسلمان ہو گئے تھے ۔
o آیت 44تا47میں ایک طرف نبیِ کریمﷺ کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ان ظالموں کے مکر وفریب سے آپ کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔
o دوسری طرف خبر دار کرنے اور ڈرانے کے اسلوب میں مشرکین کو وہ وقت یاد دلایا جا رہا ہے جس کا ذکر اس سورت کے شروع میں ہوا تھا اور اس کی آمد سے قبل ایمان لانے اور توبہ کرنےکی طرف دعوت دی ہے۔ورنہ اس بڑے عذاب سے قبل بھی ایک عذاب کی دھمکی ہے ۔
o آخری دو آیتوں میں نبی ﷺ کو اعتصام باللہ ،صبر، صبح وشام تسبیح و تحمید کرنےاو ر نماز کے اہتمام کا حکم دیا ہے اور یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالی ہر وقت آپ کی نگرانی اور حفاظت کر رہا ہے۔ لہذا کسی کی مجال نہیں کہ وہ آپ کو کوئی گزند پہنچا سکے ۔

سورت النجم:
سورت "النجم” مکی ہے۔
اس سورت کا بنیادی موضوع عقیدہ ہے ۔ خاص کر عقیدہ رسالت ، وحی اور موت کے بعد دوبارہ زندگی کا عقیدہ ۔
اس سورت میں نبی ﷺ کے ایک اہم معجزے یعنی معراج کی طرف اشارہ ہے۔
o ابتدائی آیات میں نبی ﷺ کی طرف کی جانے والی وحی کی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ رسول ﷺ یہ قرآن اپنی طرف سے نہیں گھڑتے، بلکہ وہ تو اللہ کی طرف سے آنے والی وحی کے تابع ہوتے ہیں ۔
o ان آیات میں حضرت جبریل امین کی صفات (شدید القوی،ذو مرۃ) بیان کرتے ہوئے نبی ﷺ کے انہیں(ان کی اصل حالت میں) دوبار دیکھنے کا ذکر ہے۔
ایک بار جب آپﷺ غارِحرا سے نکلے تو حضرت جبریل آسمان کے کنارے پر نمودار ہوئے ۔اس وقت زمین و آسمان کے درمیان کا فاصلہ ان سے پر تھا۔اور دوسری بار معراج کی شب سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا تھا۔آیات ۵—۹
o آیت 11تا18میں واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے او ر اس سے متعلق کئی امور کا خصوصی ذکر ہے۔
1) مشرکین کو تنبیہ کی ہےکہ واقعہ معراج سے متعلق رسول جو بیان کر رہے ہیں اس میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ جو کچھ دیکھا اسے دل میں محفوظ بھی رکھا۔
2) اپنے رب کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ ہوا۔
اس سے مراد وہ مشاہدات ہیں جو آپﷺ کو آسمان پر معراج کی شب کرائے گئے تھے۔ انہیں میں سے "سدرۃ المنتہی” جو نہایت ہی خوبصورت ہے، وہاں تک پہنچنا اور اس کا دیدار ہے ۔ اسی میں حضرت جبریل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنا ہے، جس کا ذکر آیت :۱۳
3) نظر ادھر ادھر نہ ہوئی او ر نہ حدسے آگے بڑھی۔
اس میں نبی ﷺ کے شب معراج کمالِ ادب کا بیان ہے اور ساتھ ہی اس امرکی تائید ہے کہ معراج سے متعلق جو کچھ بھی رسول نے بیان کیا وہ درست ہے۔
o آیت 19تا28میں مشرکین کے بعض بڑے بڑے معبودوں کے حوالے سے گفتگو ہے اور ان کے اس باطل عقیدے کی تردید ہے جو وہ اپنے معبودوں کے بارے میں رکھتے تھے کہ عزی کو عزیز سے اور مناۃ کو منان سے او ر لات کو اللہ سے مشتق کرکے بطور دیوی ان کی پوجا کرتے تھے اور انہیں اللہ کے حضور وسیلے او ر سفارش کے طور پر پیش کرتے تھے۔
o اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ تمہارے اپنے خیالات او ر گمان ہیں،اللہ تعالی کی طرف سے اس پر کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی ہے، بلکہ اللہ کی شان تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔
o نیز فرمایا کہ آسمان و زمین کی ملکیت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے،وہ جسے چاہے گا او ر جس کے لئے چاہے گا شفاعت کی اجازت دے گا۔ وہ فرشتے جو اللہ کے مقرب بندے ہیں انہیں بھی سفارش کا حق اسی وقت حاصل ہوگا جب انہیں اللہ تعالی کی طر ف سے اجازت ہو گی اور جس کیلئے ہوگی، صرف اسی کی سفارش کر سکیں گے ۔
o مشرکین کی ایک گمراہی کا بیان اور تردیدکہ فرشتےاللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جس کی دلیل ان کے پاس ظن و اندازے کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ ظن واندازے حق کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔
o آیت 29تا32میں نبی ﷺ کو بطور تسلی یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو شخص دنیا کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے او راللہ کے ذکر کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا،آپ اس سے اعراض کریں،ان کا علم اتنا ہی ہے۔ آپ کے رب کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ نیک کون ہے اور بدی کے راستے پر کون چل رہا ہے؟ او راس بنیاد پر وہ آخرت میں بدلہ دے گا۔
o آخرت میں اچھی جزا کے مستحق کون لوگ ہوں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے دور رہیں گے،البتہ ان کے وہ چھوٹے چھوٹے گناہ جو بتقاضائے بشریت ان سے ہو جاتے ہیں وہ اللہ کے وسیع مغفرت کے بہاؤ میں بہہ جائیں گے۔
o آیت نمبر 32 کے آخر میں اللہ تعالی نے اپنے وسیع علم کا حوالہ دیا کہ وہ انسان کے بارے میں خود انسان سے زیادہ جانتا ہے۔مثلا جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو اسے اپنے بارے میں کوئی علم نہ تھا، جبکہ اس کا رب اس کے بارے میں اس وقت بھی خوب جانتا تھا۔
o یہاں اللہ تعالی نے اپنے علم کا حوالہ دے کر دو باتوں پر انسان کو متنبہ کیا ہے:
1) بندہ جو بھی اچھا عمل کرتا ہے تو اس میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے ،بلکہ یہ اللہ کا توفیق ہے ۔ لہذا کسی کو اپنے عمل پر مغرور نہیں ہونا چاہئے۔
2) اللہ کا خوف رہے کہ وہ ہماری ساری غلطیوں کو جانتا ہے اور ان کا حساب لینے پر بھی قادر ہے۔
o 33تا41میں چند بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1) اللہ تعالی کا یہ قدیم قانون ہے کہ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے۔
2) ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
3) نہ کوئی دوسرے کے عمل کا ذمہ دار ہوگا اور نہ ہی کسی کے بدلے میں کوئی کمی کی جائے گی۔
4) یہ ایسی اٹل حقیقت ہے جو پرانے نبیوں کی تعلیمات میں پائی جاتی ہے۔
o آیت 43تا55میں اس عالم میں اللہ کی کمال قدرت کا ذکر ہے جس کے ذریعے لوگوں کو ایمان کی دعوت ہے کہ وہی ہنساتا او ر رلاتا ہے،وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے،اس نے ایک نطفے سے مر د و وعورت کا پیدا کیا اور پھر دوبارہ وہی اٹھائے گا، وہی مالدار کرتا اور کنگال کرتا ہے، اور وہی ہے جو ان کے من گھڑت معبود "شعراء” تارے کا بھی رب ہے۔
o پھر بعض ظالم قوموں کا حوالہ دے کر زور دار الفاظ میں خبر دار فرمایا کہ اپنے رب کی کون سی نشانیوں کے بارے شک کرو گے ۔
o آیت 56تا62میں قیامت کی آمد کو یقینی بتاتے ہوئے اہل مکہ کو ایمان کی دعوت ہے۔
o ان آیت میں اسلوب نصیحت اس قدر زور دار ہے کہ سننے والا حیران رہ جائے اور خطیب کے رنگ میں رنگ کر خود بھی اس کی آواز میں آواز ملانا شروع کردے۔اللہ تعالی نے فرمایا : آنے والی قیامت پہنچ گئی،اللہ کے سوا اسے کوئی ٹالنے والا نہیں،کیا یہ باتیں وہی ہیں جن پر تم تعجب کرتے ہو،اس پر ہنستے ہو روتے نہیں،ابھی تک تم گانے بجانے میں مشغول ہو۔ پس جھکو اللہ کے سامنے اور اس کی بندگی بجا لاؤ۔
اس زوردار تقریر کا اثر تھا کہ جب اہل مکہ کے سامنے یہ زور دار تقریر کی گئی تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکے اور مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر پڑے۔

سورت القمر
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ ہے ۔ خصوصا آخرت و رسالت کا عقیدہ۔
بلکہ اس سورت میں زیادہ زورقرآنِ مجید پر ایمان لانے پر دیا گیا ہے ۔
اس سورت کا اسلوب ہجومی( حملہ آور ہونے والا) ہے ، بلکہ ابتدا سے انتہا تک مختلف پہلو سے قرآن کو جھٹلانے والوں کو دھمکی ہی دھمکی دی ہے ۔
o اس سورت کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ :قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اہل مکہ نے نبی ﷺ سے معجزہ طلب کیا تھا کہ اگر آپ چاند کو دو ٹکڑے کر دکھائیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔نبی ﷺ نےاپنی نگلی سےچاند کی طرف اشارہ فرمایا، جس سے چاند دو حصوں میں بٹ گیا۔پھر آپﷺ نے فرمایا: یہ دیکھ لو اور گواہ رہو۔ حتی کہ لوگوں نے چاند کے ایک حصے کوحرا پہاڑ کے ایک حصے کی طرف اور دوسرے حصے کو دوسری طرف دیکھا۔ نبیِ کریمﷺ کا یہ عظیم معجزہ دیکھ لینے کے بعد بھی اہلِ مکہ ایمان نہ لائے او ریہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تو چلتا پھرتا جادو ہے۔ صحیح البخاری:۴۸۶۴
اسی ضمن میں اللہ تعالی نے فرمایا : کافر جو کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں کہ یہ چلتا پھرتاجادو ہے،حالانکہ ان کے پاس اور بھی کئی دلائل آ چکے ہیں،حکمت سے بھرپور قرآن بھی دیا گیا ہے، لیکن وہ خواہشات کے پیچھے پڑ کر قرآن کو جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں۔لہذا اب انہیں کوئی نصیحت فائدہ نہیں دے گی۔
o آیت نمبر6سے 8تک منکرین قیامت کی اس بد حالی کا ذکر ہے جس کا سامنا انہیں دوسری بار صور پھونکے جانے کے بعد کرنا پڑے گا۔ یعنی مجرموں کی آنکھیں چڑھی ہوئی ہونگی، بکھرے ہوئے ٹڈیوں کی طرح ، پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہوں گے، اور بظاہر ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔
o آیت نمبر9سے 42تک پانچ نبیوں کی قوموں کا حوالہ دے کر اہل مکہ کو خبر دار کیا گیا ہے کہ تم سے پہلے یہ قومیں بھی اپنے نبیوں کے ساتھ کفر کر چکی ہیں جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تھا اور وہ ملیا میٹ ہوگئیں۔
o چنانچہ قوم نوح اور سیلاب سے ان کی ہلاکت،قوم عاد او رتیز آندھی سے ان کی بربادی،قوم ثمود او ر سخت چیخ سے ان کی تباہی،قوم لوط اور پتھروں سے ان کا تہس نہس ہونا او رپھر فرعون اور اس کی قوم کا سمندر میں غرق ہونا ۔
o ان قوموں کا حوالہ ایک تو اہل مکہ کو ڈانٹنے کے لئے دیا گیا ہے اور دوسرے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے وقت کی بڑی طاقتور قومیں تھیں،لیکن جب ان لوگوں نے اللہ کے نبیوں کو جھٹلایا توان کی طاقت ان کےکسی کام نہ آسکی اور نہ ہی انہیں ہلاکت سے بچا سکی۔
o ان واقعات میں کئی چیزیں قابلِ عبرت ہیں۔ ہم صرف ایک بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
قوم لوط کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : نَّجَّيۡنَٰهُم بِسَحَرٍ (٣٤) نِّعۡمَةً مِّنۡ عِندِنَاۚ كَذَٰلِكَ نَجۡزِي مَن شَكَرَ (٣٥)کہ "ہم نے آل لوط کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور یہ ہماری ان پر نعمت تھی او رشکر گزاروں کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں”۔
اس واقعہ میں اللہ کی نعمت کی عظمت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ لوط علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کو عذاب سے بچانا ہماری خاص نعمت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والے تھے،اس لئے ہم نے انہیں اپنی اس عظیم نعمت سے نوازا۔[تفسیر القرآن ، از عبد السلام:ج 4،ص 521] ۔معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی تعمتوں کا شکر ادا کرنا اللہ کے عذاب بچاو کا سبب ہے۔
o آیت 43تا46میں پچھلی آیات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ان آیات میں اہل مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ جب ماضی میں کفار کے ساتھ سزا وعذاب کا معاملہ رہا ہے تو کیا تمہارے کفار کو سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ یونہی چھوڑ دئیے جائیں گے او ران پر کوئی عذاب نہ آئے گا۔کیا تمہارے لئے کسی کتاب میں عذاب سے بچنے کو دستاویزلکھ دی گئی ہے، یا تم اتنے طاقتور ہو کہ کوئی تمہیں دبا نہیں سکتا؟
o یاد رکھو تم ہارو گے پیٹھ پھیر کر بھاگو گے(جیسا کہ غزوہ بدر کے موقع پر ہوا)پھر اس کے بعد ٹانگوں سے پکڑ کر اوندھے منہ تمہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
o آیت 47تا55میں مجرموں اور متقین کا انجام بیان ہوا ہے کہ مجرم گمراہی او ر دہکتی ہوئی آگ میں ہوں گے او ر متقی باغات او ر نہروں میںمزے اڑا رہے ہوں گے۔
o آیت نمبر 49میں ہے کہ ہم نے ہر چیز کو ٹھیک ٹھیک اندازے کے ساتھ بنایا جو تقدیر پر دلیل ہے۔
o اس کے یہاں ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کافر یہ کہا کرتے تھے اگر قیامت برحق ہے تو آ کیوں نہیں جاتی ہے۔اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قیامت کا اللہ تعالی نے ایک وقت مقرر کیا ہواہے او روہ اپنے وقت پر ہی آئے گی۔ورنہ یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے کہ وہ جلدی قیامت لے آئے،اور اس پر کوئی چیز بھاری بھی نہیں ہے۔
o آیت نمبر۵۱، ۵۲ میں اللہ تعالی نے قیامت پر اپنی قدرت کا ایک نمونہ پیش کیا ہے کہ ہم نے تم لوگوں جیسی کتنی جماعتوں کو ہلاک کر ڈالا، حالانکہ وہ بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ ان پر کوئی عذاب آسکتا ہے۔ لہذا تم ان واقعات سے نصیحت حاصل کرو اور یہ یاد رکھو کہ پہلی قوموں اور بعد میں آنے والوں کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ ایک جیسا ہے ۔

سورت الرحمن
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی عقیدہ ہے ۔ خصوصا عقیدہ آخرت ۔
o ابتدائی چار آیتوں میں اللہ تعالی نے انسان کو اس کی تخلیق،اسے قرآن کی تعلیم اور گویائی کی نعمت یاد دلائی گئی ہے ۔ پھر اس کے ذریعے اس بات پر ابھارا ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ،جس نے تمہیں گویائی عطا کی،یہ قرآن بھی اسی کا عطا کردہ ہے، اس کی قدر کرو اور اس پر ایمان لے آؤ۔
o آیت 5تا13میں اللہ کی عظیم مخلوقات کا حوالہ دیا ہے کہ سورج چاند کا یہ سارا نظام ایک حساب کی پابندی سے چلنا،درخت او رپودوں کا اللہ کو سجدہ کرنا،یہ آسمان کی بلندی، تمہارے لئے بطور نعمت کے میزان و ترازو کو متعین کرنا،مخلوق کے لئے زمین کو ہموار کرنا او راس میں ہر قسم کے دانے اور پھول پیدا کرنا ،یہ سب ایسی نعمتیں ہیں جنہیں تم جھٹلا نہیں سکتے۔لہذا ان کے خالق پر ایمان لاؤ۔ﵟفَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (١٨) "پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟”۔
o آیت 17تا25میں اس کائنات کی دیگر نعمتوں جیسے جن و انس کی پیدائش،مشرق و مغرب کا نظام،میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر کا جاری کرنا اور انہیں باہم ملنے نہ دینا،سمندروں میں کشتیوں کی روانی وغیرہ ،یہ ساری نعمتیں اللہ کی قدرت کے شاہکار ہیں۔کیا ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟پھر ایمان کیوں نہیں لاتے۔
o آیت 26تا30میں اللہ کی طرف سے دینی ودنیوی وآسمانی اورزمینی نعمتوں کے ذکر کے بعدایک دن ان کو ختم کرنے کی خبر دیتے ہوئے واضح کیا کہ ان ساری نعمتوں کو جس ذات نے پیدا کیا ہے ایک دن وہ اسے ختم کر دےگی ۔ان عجیب مخلوقات کے خالق کے علاوہ کوئی او ر ذات باقی نہیں رہے گی، وہی اکیلی ذات ہے کہ ساری کائنات اسی کے در کی سوالی ہے اور وہ سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔
تو کیا اس خالق کی نعمت او راس کی قدرت کا تم انکار کر سکتے ہو؟،نہیں تو پھر اس پر ایمان لے آؤ۔
o آیت 31تا36میں جنوں اور انسانوں کو یہ دھمکی دی گئی ہے کہ ابھی وقت ِفرصت باقی ہے، جو عمل کرنا ہے کرلو، ورنہ اگر غفلت میں ڈوبے رہے تو یاد رکھو کہ عنقریب حساب کا دن آنے والا ہے،اس دن تم ہم سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکو گے، اگر بھاگنے کی کوشش بھی کی تو تم پر آگ کے شعلے برسائے جائیں گے ۔
تو پھر اپنے رب کی قدرت اور نعمت کو کیوں جھٹلاتے ہو۔
o آیت 37تا45میں قیامت کی بعض ہولناکیوں اور اس دن مجرموں کے انجام بد کا ذکر ہے کہ اس دن کو یاد کرو جس دن یہ نیلگوں آسمان ایک تو سرخ چمڑے جیسا ہوجائیگا ، پھر پگھلی تلچھٹ کی طرح بہہ پڑے گا۔ دوسری طرف مجرمین کا یہ حال ہوگا کہ ان کی بد اعمالی کے بارے میں ان سےپوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی،کیونکہ ان کا سارا ریکارڈ اللہ کے پاس موجودہوگا۔ اس دن مجرم اپنے چہرے سے پہچانے جائیں گے اور انہیں ان کی چوٹیوں او ر پیروں کو پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔
کیا پھر بھی تم اللہ کی قدرت کا انکار کرتے ہو؟۔
o آیت نمبر 46سے سورت کے آخر تک جنتیوں اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا ذکر ہے۔
o چنانچہ آیت نمبر46سے 61تک جنتیوں کے پہلے گروہ "السابقون الاولون” اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا ذکر ہے۔پھر آیت 62سے 71تک جنتیوں کے دوسرے گروہ اصحاب الیمین کا ذکر ہے۔
o پہلے گروہ کے لئے دو جنتیں ہیں،بڑی بڑی شاخوں والی ہیں، دونوں میں دو بہتے ہوئےالگ الگ چشمے ہیں، ہر پھل کی دو دوقسمیں ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ مسہریاں اور ان پرخالص ریشم کے گاو تکیے ہیں۔ نعمت کی مزید تکمیل کے لئے ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک نیچی نگاہ ولی عورتیں ہیں۔جن کی پاکی کا یہ عالم کہ کسی جن وانس نے چھوا تک نہ ہوگا اور ان کی خوبصورتی کا یہ عالم کہ گویا وہ یاقوت ومرجان ہوں۔
o ان کے علاوہ جو ان سے کمتر درجے کےایمان ہیں ان کے لئے بھی دو نہایت ہی گھنی اورگہرے سبز رنگ کی جنتیں ہیں ، جن میں دو الگ الگ جشمے ابل رہے ہونگے، اس میں وافر مقدار میں مختلف قسم کے پھل دستیاب ہوں گے، گورے جسم اور سیاہ رنگ کی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔ الی آخرہ
o دونوں جنتوں کے وصف سے متعلق یہاں چند باتیں قابل غور ہیں۔
1) جنت کے حصول کا اصل طریقہ اللہ کا خوف ہے ۔ یہ خوف دو طرح کا ہے ایک اللہ کی ذات کا خوف اور دوسرا اس کے عذاب کا خوف۔
2) دونوں قسم کے جنتیوں کے مقام میں جس طرح فرق ہو گا اسی طرح ان کو ملنے والی نعمتوں میں بھی فرق ہوگا ۔جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے ۔
o سورت کا اختتام اسی طرح اللہ تعالی کی حمد او راس کے ایک صفاتی نام ” ذُو ٱلۡجَلَٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ” پر ہوا ہے جس طرح یہ سورت کی ابتدا اللہ تعالی اسمِ پاک "الرحمان” سے ہوئی تھی۔ تَبَٰرَكَ ٱسۡمُ رَبِّكَ ذِي ٱلۡجَلَٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ (٧٨)” بہت برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو بڑی شان اور عزت والا ہے” ۔

سورت الواقعہ
سورۃ الواقعہ مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح یہ سورت بھی عقیدہ سے متعلق گفتگو کرتی ہے۔
خا ص کر عقیدہ آخرت اور قیامت کی ہولناکیوں کا بیان دل کو بڑےدہلا دینے والے انداز میں ہوا ہے۔
o ابتدائی آیتوں میں قیامت کے واقع ہونےکی ہولناکیوں کا ذکر ہے، کہ جس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی،جس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔وہ ہر چیز کو تہ و بالا کر دینے والی ہوگی۔ زمین ایسے جھنجھوڑ دی جائے گی کہ اس کی کیفیت ہی بدل جائے گی اور پہاڑ روئی کے گالوں اور پراگندہ غبار کی طرح اڑ جائیں گے۔
o اس وقت لوگ تین گروہوں میں بٹے ہوں گے۔
1- اصحاب الیمین۔ یعنی دائیں ہاتھ والے ۔
2- اصحاب الشمال۔ یعنی بائی ہاتھ والے۔
3- او رالسابقون۔ یعنی سب سے آگے آگے رہنے والے۔
o آیت نمبر10سے 26تک پہلے گروہ (السابقون )کا ذکر ہے اور انہیں ملنے والی نعمتوں کا بیان ہے۔وہ جنت میں اعلی درجے پر فائز ہوں گے۔ یہ لوگ بلند وبالا خوبصورت تختوں پر تشریف فرماں ہوں گے۔ خوبصورت نوجوان لڑکے شراب کا جام ، ان کے من پسند پھل،حسبِ خواہش پرندوں کے گوشت لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔وہاں انہیں سلامتی وخیر کے کلمات کے علاوہ کچھ اور چیز سننے کو نہیں ملے گی ، بلکہ ہر وقت ہر طرف سےسلامتی ہی سلامتی کی آواز سنائی دے گی۔
o اس گروہ یعنی سابقون و مقربین کی تعداد پہلے لوگوں میں سے زیادہ او ر بعد والوں میں سے کم ہوگی۔
o آیت 27تا40میں اصحاب الیمین اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا ذکر ہے۔یہ سب بھی جنتی ہیں، انہیں بھی جنت کی نعمتیں بھر پور ملیں گی۔ جیسے بے کانٹے کی بیری کے درخت ، تہ بتہ لگے ہوئے کیلے اور میوے، وافر مقدار میں ہوں گے۔اور طویل سایوں کا سلسلہ ، بہتے پانی کی ندیاں اور چشمے، کبھی نہ ختم ہونے والے قسم قسم کے پھل، آرام کرنے کے لئے اونچی مسہریاں اور اس پر مزید ایسی ہم عمر ، کنواری بیویاں جو خاص انہیں کے لئے تیار رکھی گئی ہیں۔
یہ لوگ بھی جنت کی نعمتوں سے مالا مال ہونگے، لیکن ان کا مقام پہلے گروہ سے ذراکم ہوگا۔ البتہ ان کی تعداد زیادہ ہوگی۔اگلوں میں سے ایک بڑا گروہ او ر پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ ان میں شامل ہوگا۔
o آیت نمبر41سے 57تک اصحاب الشمال کا ذکر ِبدہے، یعنی وہ لوگ جہنمی ہیں۔ ان کے لئے زہریلی لو اور کھولتا ہوا پانی ہوگا، انہیں کہیں سایہ نصیب نہ ہوگا ، ملے گا بھی تو سخت سیاہ اور گرم دھوئیں کا سایہ، جس میں آرام وٹھنڈک کا کوئی نام نہ ہوگا۔
o یہ امر بھی واضح رہے کہ ہر گروہ کے بیان کے بعد اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ انہیں یہ مقام کس وجہ سے ملا ہے۔
o چنانچہ اہل جنت کے بارے میں فرمایا کہ یہ مقام انہیں ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ملے گا۔جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ (٢٤) الواقعة” یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا۔ اور سورہ رحمان میں گزرا کہ انہیں یہ مقام اللہ کے خوف کی وجہ سے حاصل ہورہا ہے۔ ﵟوَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ جَنَّتَانِ (٤٦) الرحمن "اور جو رحمان کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں”۔
اسی طرح اس جگہ اصحاب الشمال کے جہنم میں جانے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے ان کے تین جرم شمار کئے گئےہیں:
1) دنیا میں بڑے نازوں میں پلے۔ یعنی انہیں اللہ کی ہر نعمت ملی لیکن وہ اس کی قدر نہ کر سکے۔
2) وہ بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے۔
3) انہیں قیامت پر یقین نہیں تھا۔
o آیت 58تا74میں محسوسات اور اس کائنات میں پائے جانے والے وہ امور جو اللہ کی قدرت کے بڑے بڑے مظاہر ہیں، انہیں پیش کرکےدو اہم باتوں پر بطور دلیل پیش کرکے مشرکین پر حجت قائم کی گئی ہے۔ ایک توحید پر اور دوسرے آخرت پر۔
یہ کل چار دلیلیں ہیں۔
1) پانی کے ایک حقیر قطرے سے انسان کی پیدائش۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس قطرے کو تم پیدا کرتے ہو یا ہم ؟ یعنی جس طرح اللہ تعالی نے تمہیں اس قطرے سے پیدا کیا ہے ویسے ہی اس نے تمہارے اوپر موت کو مقدر کیا ہے اور پھر تمہیں اسی طرح دوبارہ اٹھائے گا۔
2) دوسری مثال کھیتی کی ہے کہ جو بیج تم زمین میں ڈالتے ہو، اسے اگانا ،پھر اس میں بیج پیدا کرنا،پھر اسے تمہارے استعمال کے لائق بنانا، یہ سب کس کی قدرت ہے؟ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو اسے ریزہ ریزہ بنا دیتا ، جس کی وجہ سے تم منہ تکتے رہ جاتے ۔
3) تیسری مثال یہ پانی ہے جو تم پیتے ہو ، اسے آخر کون نازل کرتا ہے،کیا تم ایسا کر سکتے ہو؟اگر اللہ چاہتا تو اسے کھارا بنا دیتا اور تمہارے استعمال کے لائق نہ رہ جاتا۔ اس کے باوجود تم ہماری طاعت وشکر کیوں نہیں کرتے ۔
4) چوتھی مثال آگ کی ہے ، کہ یہ آگ جسے تم جلاتے ہو اور اس سے ہر چھوٹا بڑا، امیر وغریب اور مسافر ومقیم فائدہ اٹھاتا ہے، اس کا درخت تم اگاتے ہو یا اللہ تعالی نے اگایا ہے ۔
5) ان دلائل کے بعد آیت نمبر ۷۴ میں اللہ تعالی نے بڑے زور دار انداز میں حکم دیا کہ اس عظیم رب کی پاکی بیان کرو۔ خطاب بظاہر نبی کو ہے لیکن مقصود عام لوگ ہیں۔
o آیت 75تا82میں اللہ تعالی نے قرآن کی حقانیت کو بیان فرمایا ، قرآن کی او راس کے حاملین کی صفات بیان فرمائیں ۔اور اس میں ایک طرح کی مشرکین کو دھمکی بھی ہے۔
o اللہ تعالی نےقرآن کی حقانیت پر ستاروں کے طلوع وغروب کے مقامات کی قسم کھائی ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر تم غور کرو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ تاروں سے رات کی تاریکی میں صحیح راستہ معلوم کیا جاتا ہے اور قرآن سے جہالت کی تاریک میں صحیح راہ حاصل کی جاتی ہے۔ نیز تاروں سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے اسی طرح قرآن مجید سے انسانی وجنی شیطانوں کو مارا ور رسوا کیا جاتا ہے۔ المجالس القرآنیہ ص؛۶۸۱، ۹۸۲
o قرآن کے حاملین کی صفات یہ ہیں کہ پاک باطن و پاک ظاہر بھی ہوتے ہیں۔
o اور مشرکین کو دھمکی دی ہے کہ قرآن کی اس عظمت کے باوجود تم اس سے بے توجہی برت رہے ہو، بجائے اس کے کہ اس پر ایمان لاو، اپنا سارا زور اس کے جھٹلانے پر صرف کر رہے ہو۔ تو یاد رکھو وہ وقت دور نہیں جب نزع کا وقت ہوگا تو تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ لہذا خیر اسی میں ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلےپہلے توحید کو اپنا لو اور آخرت کے لئے تیاری کرلو۔
o آیت نمبر 87سے آخر تک سورت کو اسی موضوع پر ختم کیا گیا جس سے اس کی ابتداء ہوئی تھی یعنی انسانوں کے تین گروہ اور ان کا انجام کار ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس سے قبل ان تینوں گروہوں کا وہ حال بیان ہوا ہے جس کا تعلق قیامت کبری سے ہے، اور اب یہاں سیاق کی مناسبت سے قیامتِ صغری یعنی نزع کے وقت کا بیان ہواہے۔
o آخری دو آیتوں میں بظاہر خطاب کا رخ نبیﷺ کی طرف ہے، لیکن عام مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ”إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ ٱلۡيَقِينِ (٩٥) فَسَبِّحۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلۡعَظِيمِ (٩٦)”یہ خبر سراسر حق اور قطعا یقینی ہے، پس تو اپنے عظیم الشان رب کی تسبیح بیان کر”۔
یعنی توحید ومعاد سے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں سب یقینی حقائق ہیں، ان میں ذرہ برابر بھی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں، لیکن پھر بھی لوگ اسے قبول نہ کریں تو اس سے آپ دل برداستہ نہ ہوں ،بلکہ اپنی تربیت میں لگے رہیں اور اپنے رب کی تسبیح وعبادت کو اپنا مشغلہ بنا لیں۔

سورت الحدید:
یہ سورت مدنی ہے ۔
اس سورت کا موضوع بعض شرعی احکام سے متعلق ہے،خصوصا ا للہ کی راہ میں خرچ کرنے سے متعلق ۔ نیز منافقوں کی رسوائی اور اسلامی عقیدہ کا بعض پہلو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ اس سورت میں تین موضوع واضح طور پر بیان ہوئے ہیں۔
1) اس کائنات کا خالق، مالک او ر انتظام چلانے والا اللہ تعالی ہے۔
2) دین کی سربلندی کے لئے جان و مال کی قربانی بہت ضروری ہے۔
3) دنیا کی حقارت اور اس کی بے ثباتی کا ذکر۔
o اس سورت کی ابتداء اللہ کی تسبیح سے ہوئی ہے کہ آسمان وزمین کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے،اور اس کی بعض اسمائے حسنی اور صفات علیا سے ہوئی ہے۔ جیسے عزیز وحکیم ، علیم و قدیر ، اول وآخر اور ظاہر وباطن وغیرہ ۔
o چنانچہ ابتدائی چھ آیتوں میں اللہ تعالی کے متعد د اسماء حسنی اور ایک درجن کے قریب صفات علیا کو بیان کر کے اللہ کی عظمت کو واضح کیا گیا ہے ۔
o آیت نمبر 4 میں اہل سنت وجماعت کے عقیدہ "استواء علی العرش” کا بیان ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذاتِ اقدس کے لحاظ سے تو عرش پر مستوی ہے ،البتہ اپنے علم و قدرت او رسمع و بصر کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے۔
o آیت 7تا11میں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کی مذکور صفات کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جو کچھ اللہ تعالی نے اسے دیا ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔
o اس کے بعد یہ کہتے ہوئے رسول اللہﷺ پرایمان لانے پر ابھارا گیا ہے کہ اللہ تعالی تم سے یہ عہد لے چکا ہے کہ جب تمہارے پاس رسول آئے تو اس پر ایمان لاو گے اور اس کی تصدیق کرو گے ۔ نیز یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ شرک و کفر کی تاریکی سے نکالنے کے لئے اس نے واضح آیات دے کر تمہارے لئے ایک رسول بھیجا ہے۔
o پھر مومنوں کو یہ کہتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ پر ابھارا کہ اولا تو یہ کہ یہ مال جو تمہارے ہاتھ میں ہے یہ اللہ کا ہے اور اس کی میراث ہے ، اس پر تمہیں محض نگراں و امین بنایا گیا ہے،اور ثانیا یہ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالی کو قرضِ حسن دینے کے ہم معنی ہے جس میں تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے۔
o آیت نمبر 10 میں ان صحابہ کی فضیلت وارد ہے جو فتح مکہ یا صلح حدیبیہ سے قبل مسلمان ہوئےاو راللہ کی راہ میں اپنے مال و جان کی قربانی دی ، ان کا مقابلہ بعد میں آنے والے صحابہ نہیں کر سکتے ۔ نیز جو صحابہ فتح مکہ یا صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے اور اپنے مال و جان کی قربانی پیش کی،ان کا مرتبہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ لوگ اگرچہ اولین صحابہ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے لیکن ان کے لئےبھی اللہ تعالی کی طرف سے اچھے بدلے یعنی جنت کا وعدہ ہے۔
o آیت نمبر12سے 15تک سچے اور جھوٹے مسلمانوں کا فرق اور انجام بیان ہوا ہے کہ جس طرح سچے مسلمان اس دنیا میں کتاب و سنت سے نور حاصل کرکے ایمان لائے تو اس کے عوض حشر کے میدان میں انہیں نور ملے گا، جس کی روشنی میں چلکر پل صراط کو پار کریں گے اور ان جنتوں تک پہنچ جائیں گے جو اللہ کی طرف سےان کے لئے تیار شدہ ہے۔
o ان کے برخلاف جس طرح منافقین نے اس دنیا میں نور توحید و رسالت کو نہیں اپنایا، بلکہ امیدوں اور خواہشات میں پڑے رہے تو قیامت کے دن بھی انہیں کوئی نور نہیں ملے گا۔
o ایسے منافق لوگ قیامت کے دن نور والے اہلِ ایمان سے درخواست کریں گے کہ جس طرح دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے اور آپ لوگ ہماری مدد کرتے تھے، اسی طرح ذرا آج بھی اپنے نو سے فائدہ اٹھانے دو۔
o لیکن وہاں اہلِ ایمان کی طرف سے انہیں صاف جواب ملے گا کہ جاؤ تم بھی وہیں سے روشنی حاصل کرو جہاں سے ہمیں روشنی ملی تھی۔ تم تو وہاں امیدوں اور تمناؤں میں ڈوبے ہوئے تھے او ردنیا کی زندگی میں مگن رہ کر اس دن کو بھلادئے تھے۔لہذا آج افسوس کے علاوہ تمہیں کچھ ملنے والا نہیں ہے۔اب کا فروں کے ساتھ تمہارا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔
o آیت 16تا19میں ان مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے جن سے دین کی خدمت اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کے حوالے سے کچھ کمی و کوتاہی پیدا ہو گئی تھی،انہیں بطور تنبیہ کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں،قرآن سے دوری اختیار نہ کریں ،ورنہ ان کے دل سخت ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ان سے پہلے یہود و نصاری کے ساتھ ہوا۔
o پھر انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور ایمان لانے کے اجر کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔
o ان آیات کے آخر میں سچے مومنوں اور کافروں کے انجام کا بیان ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ان کو اجرِ عظیم اور قیامت کے دن مکمل نور کی نعمت حاصل ہوگی، جبکہ کافروں اور رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا جہنم کی آگ انتظار کر رہی ہے۔
o آیت 20تا24میں دنیا او رآخرت کا مقارنہ پیش کیا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار او ر دھوکے کا سامان ہے،یہاں کے کھیل کود ،یہاں کی دلچسپیاں،یہاں کی آرائش و زیبائش،یہاں کی بڑائیوں پر فخر اور یہاں کے دھن دولت پر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ ناپائیدار ہے۔اس کی مثال اس کھیتی کی طرح ہے جو پہلے سرسبز ہوتی ہے پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آخر کار بھوس بن کر رہ جاتی ہے۔حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں۔لہذا اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے[تفہیم القرآن] ۔
o لہذا تمہیں ان اعمال پرتوجہ دینی چاہئے جو اللہ کی طرف سے مغفرت و رحمت کا سبب بنیں ، اور یاد رکھو کہ اگر اس راہ میں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ تقدیر الہی سے آئی ہے،کسی کے ٹالنے سے نہیں ٹل سکتی ۔
o آیت نمبر 25تا27میں رسولوں کی آمد کا مقصد بیان کیا گیا ہے او ر مثال کے طور پر حضرت نوح،حضرت ابراہیم اورحضرت عیسی بن مریم علیہم السلام کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان کی بعثت کے مقاصد کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔
o رسولوں کی بعثت کے کئی مقاصد کا ذکر ہے:
1) رسولوں کی بعثت اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی زمین پر عدل قائم ہو سکے، اس کے دین کا دور دورہ ہو اور لوگوں کو تاریکیوں سے نکالا جائے۔
2) ظلم و جور کا خاتمہ ہو اور اس کے لئے طاقت کی ضرورت پڑے تو اس کا بھی استعمال کیا جائے ۔
3) لوگوں کی آزمائش ہو سکےکہ کون حق کا حامی بنتا ہے او ر کون باطل کا ساتھ دیتا ہے۔
اس آیت میں لوہے کےدو قسم کے فائدے بیان ہوئے ہیں، ایک جنگی سامان اور ہتھیار، اور دوسرے انسانی فائدے کی مختلف اشیاء جیسے مکانات، چھریاں قینچیاں اور سواریاں وغیرہ۔
o اس کے بعد یہ واضح کیا گیا ہے کہ انبیاء کی شریعت ایک رہی ہے کہ ان کی اتباع کی جائے اور ان کے مشن کے لئے قربانیاں دی جائیں۔ باقی رہبانیت ،جوگی پن اور خانقاہیت کی بدعت لوگوں نے بعد میں ایجاد کیں،انبیاء کے دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
o اس سورت کی آخری آیت میں اسی موضوع کو دہرایا گیا ہے جس کا ذکر اس سورت کی ابتداء میں ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو،اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تعالی تمہیں ڈبل اجر سے نوازے گا اور تمہیں وہ نور بصیرت عطا فرمائے گا جس سے تم اپنا صحیح راستہ او ر منہج متعین کر لو گے۔
o نیز اہلِ کتاب کو تنبیہ کی گئی ہے جو اللہ کے فضل نبوت وبلند مقام کو بنی اسرائیل کے ساتھ خاص مانے ہوئے تھے، اسی لئے نبیِ آخرالزماں پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ تھے۔ بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ، لہذا جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں