*سترھواں پارہ(اقترب للناس)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*سترھواں پارہ(اقترب للناس)*

سترہویں پارے کے دو حصے ہیں؛پہلا حصہ مکمل سورہ انبیاء جبکہ دوسرا حصہ مکمل سورہ حج پر مشتمل ہے ۔
سورت انبیاء
یہ سورت مکی ہے۔
چونکہ اس سورت میں متعدد انبیاء ( جن کی تعداد 15 ہے) کا تذکرہ ہے اس لئے اسے سورۃ الأنبیاء کہا گیا ہے۔
اس سورت کا موضوع مکی سورتوں کی طرح عقیدہ توحید و رسالت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا اثبات ہے۔
سورت کی ابتداء ہی عقیدہ بعث و رسالت کے اثبات سے ہوئی ہے۔
o سورت کے آغاز میں اللہ تعالی نے لوگوں کو خبر دار کیا ہےکہ حساب کا وقت قریب ہے، لیکن لوگ دنیا میں مشغول،اپنے مشاغل میں گم اور اپنے انجام سے غافل ہیں۔ان کی یاد دہانی کے لئے جب بھی کوئی نصیحت آسمان سے آتی ہے تو اسے سننے اور اس پر توجہ دینے کی بجائے اسے کھیل او ر مذاق کے طور پر لیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں: یہ کسی بشر ہی کا تو کلام ہے۔کوئی اسے جادو کہتا ہے،کوئی اسے خواب پریشان ٹھہراتا ہے اور کوئی اسے کسی ماہر شاعر کا خیال کہتا ہے۔یاد رکھیں اللہ تعالی سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اور وہ سب کی حقیقت جانتا ہے۔
o آیت 5اور 6میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جس قسم کی نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ہم ان سے عاجز نہیں ہیں، لیکن اس سے پہلے کا تجربہ ہے کہ لوگوں کی مطلوبہ نشانیاں او ر معجزات انہیں دئیے جانے پر بھی لوگ ایمان نہیں لاتے۔مَا آمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ (6) "ان سے پہلے کوئی بستی بھی ، جسے ہم نے ہلاک کیا ایمان نہ لائی ، تو کیا یہ ایمان لائیں گے”۔
o آیت 7تا 10میں مخالفین کا تردید اور انبیاء کی بشریت کا ذکر ہے او ریہ واضح کیا گیا ہے کہ ہمیشہ سے اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ اس دنیا میں ہدایت کے لئے بشر اور مردہی کو نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اور نتیجہ یہی رہا ہے کہ نبی اور اس کے ماننے والے نجات پاتے ہیں اور ان کے مخالفین کو ہلاک کیا گیاہے،لہذا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے اس کے بارے میں عقل سے کام لو اور اس کو مان کر اس سے نصیحت حاصل کرکے مقام ومرتبہ حاصل کرو ۔
o آیت نمبر 11سے 15تک اللہ تعالی نے گزشتہ ہلاک شدہ قوموں کا حوالہ دے کر خبر دار کیا ہے کہ وہ قومیں بھی تمہاری ہی طرح ظلم کی مرتکب ہوئی تھیں تو ہم نے انہیں توڑ کر رکھ دیا ،اور جب اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی چیز بچا نہ سکی۔
o آیت نمبر 16- 18 میں مشرکین کے اس باطل خیال کی تردید ہے جس کی وجہ سے وہ نبیﷺ کی دعوت پر توجہ نہ دیتے تھے کہ یہ ساری کائنات ایک کھیل تماشا ہے ،ہماری موت وزندگی اسی کھیل تماشا کا یک حصہ ہے۔
o اللہ تعالی نے اس کے جواب میں مشرکین کو خبر دار کیا کہ اللہ کی شان سے بلکہ عقلا بھی بعید ہے کہ اتنی بڑی کائنات لغو اور کھیل کود کے لئے بنائی جائے۔
o 19سے 29تک مختلف انداز سے توحید کوثابت کیا گیا ہے ۔
1) جن شخصیات کو یہ لوگ بطور وسیلہ پکارتے ہیں وہ محض ہمارے بندے اور صبح وشام ہمارے ہی گن گا رہے ہیں ، بلکہ آسمان اور زمین سمیت ساری کائنات ہی اللہ کی ملکیت ہے ، لہذا عبادت بھی اسی کی ہونی چاہئے۔ آیت:19، 20
2) ایک سے زائد معبود کا معنی ہے کہ اس کائنات کے ایک سے زائد مالک وانتظام چلانے والے ہیں ، حالانکہ اگر ایسا ہوتو زمین میں فساد کا باعث ہوتا۔آیت:22
3) مشرکوں کےشرک پر اللہ تعالی نےکوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، بلکہ قرآن اور سابقہ آسمانی کتابوں میں صرف توحید ہی کی دعوت دی گئی ہے۔ آیت:28
4) اس دنیا میں جتنے رسول آئے ہیں سبھی لوگوں کو توحیدِ باری تعالی ہی سمجھانے آئے تھے۔ آیت:25
5) جن شخصیات کو یہ لوگ اللہ کا بیٹا او رقریبی سمجھ کر پکارتے ہیں وہ اللہ کے سامنے مجبور محض ہیں حتی کہ اگر بفرض محال وہ بھی شرک میں پڑچکے ہوتے تو انہیں بھی عذاب سے دوچار ہونا پڑتا۔آیت:26 تا 29
6) یہاں مشرکین کے عقیدہ شفاعت کی بھی تردید کی گئی ہے۔کیونکہ ان کا یہی عقیدہ ان کے شرک کا سبب تھا۔یعنی وہاں شفاعت بھی اللہ کی ملکیت ہے اور صرف اسی کواجازت ہے جس سے وہ راضی ہوگا۔
o آیت نمبر 30سے 32تک آیتوں میں نظام کائنات کے حوالے سے اللہ کی کمال قدرت اور اس کی توحید پر کچھ مزیددلائل پیش کئے گئے ہیں۔
1) آسمان و زمین باہم ملے تھے،ہم نے انہیں کھول کر جدا جدا کر دیا ۔
2) ہر جاندار کی زندگی پانی سے ہے اور پانی ہی ان کے کار وبار حیات کی اصل بنیادہے۔آیت:30
3) پہاڑوں کو میخ بنایا اور ان میں کشادہ راہیں رکھیں۔آیت: 31
4) آسمان کو محفوظ چھت کی حیثیت دی ہے۔ آیت:32
5) رات او ر دن او ر سورج وچاند کا نظام رکھا۔ آیت: 33
ان تمام نشانیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان میں غور وفکر ، ان کے خالق پر ایمان اور ہدایت کا صحیح راستہ اختیار کرنے کی دعوت ہے، اوران سے منہ موڑنے پر خبر دار کیا گیا ہے ۔
o آیت نمبر 34سے 43تک نبی ﷺ کی طرف سے دفاع کیا اور بات کا رخ مشرکین مکہ کو نصیحت کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔جیسا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے، عذاب کا مطالبہ کرتے تھے اور یہ کہتے تھے یہ چند دن کی بات ہے، ان کا انتقال ہو جائے گا تو ہمیں فرصت ملے گی۔
o ان کے جواب کے طور پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس دنیا سے توسبھی کو جانا ہے،اگر ہمارا رسول انتقال کر گیا تو تم بھی ایک دن مر جاؤ گے۔
o یاد رکھو! اس دنیا کو ہم نے دار الامتحان بنایا ہے، پھر سب ہمارے پاس ہی آؤ گے ، جہاں تمہارے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (35)” ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے ۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے”۔
o اور جہاں تک عذاب کی بات ہے تو عذاب کے لئے جلد بازی نہ کرو، کیونکہ جب عذاب آئے گا تو نہ ہی تمہیں مہلت ملے گی اور نہ ہی تم بچ پاؤگے۔
o اور یاد رکھو جب اللہ کا عذاب آئے گا تو تمہارا کوئی معبود تمہاری مدد کے لئے نہیں آئے گا ۔
o آیت نمبر 44تا 47میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر اس سر زمینِ مکہ میں تمہارے باپ داد ا کو امن و چین کی زندگی حاصل رہی ہے تو یہ نہ سمجھو کہ رسول کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں وہی امن و چین حاصل رہے گا۔دیکھتے نہیں کہ ہر علاقے سے لوگ دھیرے دھیرے اسلام میں داخل ہوتے جا رہے ہیں او رتمہارے لئے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
o پھر نبی ﷺ کو حکم ہے کہ آپ وحی الہی یعنی قرآن کے ذریعے لوگوں کو نصیحت کیجئے، اللہ نے جسے سننے والا کان دیا ہے وہ سن لے گا۔
o انہیں تو جب عذاب کا ایک جھٹکا لگے گا تو یہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے۔
o یاد رکھیں کہ ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو رکھیں گے اور ان کی ہر چھوٹی بڑی غلطی کو وہاں حاضر کر دیں گے۔
o آیت نمبر 48تا 91میں تقریبا ڈیڑھ درجن کے قریب انبیاء کا ذکر خیر ہے۔
o سب سے پہلے حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کا ذکر خیر ہوا ہے۔ یہاں ان کے ذکر کا مقصد صرف تورات کی تعلیم کا ذکر ہے۔یہاں تورات کی تین اہم صفتیں بیان ہوئی ہیں؛فرقان،ضیاء او ر متقین کے لئےنصیحت ۔
o ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا اس سے مستفید کون ہوں گے؟جن کے اندر یہ دو وصف پائے جائیں، 1- اللہ کا خوف ، 2- اور آخرت کاخوف۔
اس سے یہ سبق دینا مقصود ہے کہ جس طرح حضرت موسی پر کتاب نازل ہوئی اور تم اسے مانتے ہو اسی طرح حضرت محمد ﷺ پر بھی تمہاری ہدایت کیلئے کتاب نازل ہوئی ہے(تو پھر اس کا انکار کیوں کرتے ہو؟)۔ وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (50)”اور یہ نصیحت وبرکت والا قرآن بھی ہم ہی نے نازل کیا ہے، پھر بھی تم اس کے منکر ہو”۔
o آیت نمبر 51تا 73میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے اوراس سورت میں سب سے طویل قصہ یہی ہے۔
o سب سے پہلےحضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینے اور ان کی گمراہی سے پردہ اٹھانے کا ذکر ہے ۔ آیت:54، 56
o ساتھ ہی ساتھ قوم کوبڑے پرزور انداز میں دھمکی بھی دے دی کہ ” یاد رکھو، اب تمہارے بتوں کی بھی خیر نہیں ہے ۔
o پھرایک دن جب قوم کسی جشن کے سلسلے میں آبادی سے باہر گئی ہوئی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم کے بت خانے میں چپکے سے جاکر ایک بت (جو سب سے بڑا تھا) کو چھوڑ کر باقی تمام بتوں کو توڑ دیا۔آیت: 58
o پھر قوم کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ لاسلام کی پیشی اور دلیل کے ساتھ بحث کا ذکر ہے۔
o یہ بیان ہوا ہے کہ جب قوم دلیل و بیان کے سامنے بے بس ہوگئی تو ابرہیم علیہ السلام کو آگ میں جلا دینا چاہا۔ لیکن اللہ نے انہیں بحفاظت وسلامتی وہاں سے نکال لیا ۔
o حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے صلے میں اللہ تعالی نے انہیں سب سے پہلے تو ارض مقدسہ کی طرف ہجرت کرنے کی توفیق بخشی اور دوسرا اپنے فضلِ مزید کے طور پر انہیں اسحاق و یعقوب علیہ السلام جیسی نیک اولادعطا فرمائی۔ آیت:72، 73
o پھر حضرت لوط،حضرت نوح علیہما السلام کا مختصر تذکرہ ہے ۔
o آیت 78تا 82 میں باپ بیٹے حضرات داود وسلیمان علیہما السلام کا ذکر خیر کسی قدر تفصیل سے ہے، دونوں پر اللہ کا فضل ہوا،اور دونوں علم اور حکم کی دولت سے مالا مال ہوئے ۔
o اسی طرح حضرت داود علیہ السلام پر اللہ کے اس احسان کا بھی ذکر ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں ایسی سریلی آوز دی تھی کہ بےعقل جانور، جیسے پرندے اور بے جان مخلوق جیسے پہاڑ بھی ان کی پرسوز آواز سن کر ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرنے لگتے تھے۔ نیز داودعلیہ السلام کے لئے اللہ تعالی نے لوہے کو اس قدرنرم بنا دیا تھا کہ اس سے بآسانی جنگی لباس اور زرہیں وغیرہ تیار کرلیتے تھے۔
o اورحضرت سلیمان علیہ السلام پر اللہ کا یہ فضل تھا کہ ان کے لئے ہوا کو ان کی خدمت پر لگا دیا تھا کہ وہ اپنے تخت سلطنت پر بیٹھ جاتے تو ہوا مہینوں کی مسافت کو گھنٹوں اور لمحوں میں طے کرکے انہیں منزل تک پہنچا دیتی۔ نیز شیطانوں اور جنوں کو بھی ان کے ما تحت کردیا تھا کہ ان کے حکم سے سمندروں میں غوطہ لگا کر ہیرے وموتی نکالتے اور ا س کے علاوہ دیگر بہت سے اعمال جیسے تعمیری خدمات انجام دیتے۔اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ جنوں اور شیطانوں میں شر وفساد کا جومادہ ہوتاہے ، اللہ تعالی نے حضرت سلیمان کی ان سے حفاظت کی تھی ۔
o حضرت داود و حضرت سلیمان علیہما السلام کے تذکرے میں یہاں ایک واقعے کی طرف اشارہ ہے اور اس بارے میں حضرت سلیمان کی فہم کو سراہا گیا ہے۔وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ (78) فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۔ الآیۃ۔”اور داود سلیمان کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملے میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر چگ گئیں، اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے،ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، ہاں ہر ایک کو ہم نے علم اور حکم( فیصلے کا ملکہ) دے رکھا تھا”۔
o آگے حضرت ایوب علیہ السلام ، ان کے صبر اور ان کی دعاکی قبولیت کا ذکر ہے۔ پھر حضرات اسماعیل، ادریس اور ذو الکفل علیہم السلام ، ان کے صبر ، ان پر اللہ کی رحمت اور ان کی نیک ہونے کا ذکر ہے۔
o آیت 87- 88 میں حضرت یونس علیہ السلام اور اپنی قوم سے ناراض ہوکر نکل جانے ، پھر مجھلی کے پیٹ اور سمندر کی تاریکیوں میں پھنس جانے کےبعد ان کی دعا اور پھر ان کے ساتھ اللہ کے خاص کرم کا ذکر ہے۔
o آیت 89-90 میں اللہ کے نبی حضرت زکریا علیہ السلام، اولاد کے لئے ان کی دعا اور دعا کی قبولیت کے بعد ان کے یہاں حضرت یحیی علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے۔
o ان انبیاء علیہم السلام کےان مختصر قصوں میں ایک بات قابل غور ہے کہ ہر نبی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی زندگی کے سبق آموز پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
o البتہ ہر نبی کے واقعے میں جوچیز قدر مشترک ہے وہ یہ ہےکہ مشکل گھڑی میں کسی بھی نبی کا تعلق اللہ تعالی سے نہیں ٹوٹا، جس کے نتیجے میں بالآخر ان کے پاس اللہ کی مدد آئی اور اللہ نے ان کو نجات دی۔
جس سے ہم لوگوں کو اصل سبق یہ ملتا ہے کہ "اسی طرح اللہ تعالی اس نبی یعنی محمد ﷺکو بھی کامیابی عطا فرمائے گا۔
ان انبیاء کے تذکرے میں چند باتیں ہمارے لئے زیادہ قابل غور ہیں:
1) اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں حق کی طرف رہنمائی کرنے والا امام بنایا اور ہم نے انہیں خیر کے کام کرنے،نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے کی وحی کی اور وہ ہمارے بڑے عبادت گزار تھے ۔
2) حضرت ایوب علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ ہم نے ان کی تکلیف کو دور کر دیا اور ہم نے انہیں او ران کے گھر والوں پرخاص رحمت کرتے ہوئے صرف انہیں اہل وعیال ہی نہیں دئے بلکہ اتنے اور بھی دئے، اس لئے کہ عبادت گذاروں کے لئے یہ ایک سبق ہو۔
3) حضرت یونس علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں غم سے نجات دی ،اسی طرح ہم مومنوں کو غم سےنجات دیتے ہیں ۔
4) حضرت زکریا اور یحیی علیہما السلام کے قصےکے آخر میں فرمایا کہ "إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ (90) "وہ خیر کے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں خوف اور امید کے ساتھ پکارنے والے تھے اور وہ ہمارے سامنے خشوع اختیار کرنے والے تھے”۔
لہذا ہر مومن کو چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام کو اپنے لئے اسوہ بنائے ۔
o آیت نمبر 91سے 112تک سورت کے گزرے ہوئے موضوعات پر تبصرہ ہے۔
o یعنی یہ دین جو توحید و رسالت اور آخرت کے عقیدے پر مشتمل ہے اورتمہارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، یہ کوئی نیا دین نہیں ہے، بلکہ یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکر بھیجا تھا اور اس کی طرف دعوت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تھے۔ لہذا جو شخص بھی اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب ہوگا،اور جو منہ موڑے گا وہ ناکام ہو گا۔آیت 93- 94
o آیت نمبر 96 – 97 میں یاجوج ماجوج جو قیامت کی نشانی ہیں، کا حوالہ دے کر قیامت کے قریب ہونے پر خبر دار کیا گیا ہے اور غفلت دور کرنے کی دعوت دی گئی ہے
o اسی مناسبت سے قیامت کے بعض مناظر اور ہولناکیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، اور اس موقع پرخصوصا مومن و کافر کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔
o چنانچہ کافروں کے متعلق فرمایا کہ ” إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (98) ” (تم اور اللہ کے سواجن جن کی تم عبادت کرتے ہو ، سب جہنم کا ایندھن بنو گے۔
اور مومنوں سے متعلق فرمایا: "انَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (101) لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ (102) ” رہے وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے بھلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہوچکا ہوگا تو وہ یقینا اس سئ دور رکھے جائیں گے، اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے”
o آیت 105اور 106میں بڑے بلیغ انداز میں مومنوں کوجنت کی طرف پیش قدمی کی دعوت دی گئی ہے۔وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (105) إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ (106) ” یقینا ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین (جنت )کے وارث میرے صالح بندے ہی ہوں گے، عبادت گزار بندوں کے لئے تو اس میں یقینا ایک بڑا پیغام ہے”۔
o آیت نمبر 107سے آخر سورت تک کلام کا رخ نبی ﷺ کی طرف ہے ۔
1) آپ تمام لوگوں، بلکہ سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئےہیں، لہذا لوگوں میں اعلان کر دیں کہ میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ، اس کی عبادت سراپا رحمت ہے لہذا اسے قبول کرو۔
2) جس طرح لوگ آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاتے تو یاد رکھو ! جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید و اسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو ، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہئے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے ۔
3) البتہ اب معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے وہی جانتا ہے کہ فیصلہ جلد ہو گا یا دیر سے ۔
4) سورت کا اختتام اس دعا پر ہے جو ہر نبی کرتا رہا ہے:”قَالَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ”’’اے اللہ !ہماری قوم اور ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما اور اے اللہ وہ میرے بارے میں جو کچھ بھی کہتے ہیں میں اس پر صبر کرتا ہوں اور اس صبر پر مدد کرنے والا تو ہے‘‘۔
ہر داعی کیلئے یہ دعا بڑی اہم ہے۔

سورت الحج
یہ سورت مدی ہے۔ بعض علماء اسے مدنی مانتے ہیں ۔ اور بعض اسے مکی مدنی کا نام دیتے ہیں۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع عقیدہ و شریعت ہے۔
چونکہ اس سورت میں حج کے بعض ارکان کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس کا نام حج پڑا ہے۔
o سورت کی ابتداء قیامت کے ایک ہولناک منظر سے ہوئی ہے کہ اس دن اللہ کے عذاب کے ڈر سےلوگوں کی کیفیت مدہوشی کی سی ہوگی۔ حتی کہ لوگ اپنے عزیز ترین رشتہ داروں سے بھی لوگ غافل ہو جائیں گے ۔
o آیت نمبر 3اور 4میں اس عظیم حادثے سے غفلت اور اس کے انکار کی وجہ بیان ہوئی ہے۔ کہ انسان جہالت اور شیطان کے بہکاوے میں آکر یہ سب کچھ کرتا ہے،حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بات تو مقرر شدہ ہے کہ شیطان لوگوں کو صراط مستقیم سے بھٹکاتا ہی رہتا ہے۔
o آیت نمبر 5تا 9میں موت کےبعد کی زندگی کے منکرین کے سامنے بعض حسی دلائل پیش کرکے انہیں توحید اور ایمان کی دعوت دی گئی ہے۔ بصورتِ دیگرانہیں جہنم کے عذاب کی دھمکی ہے ۔
o یہ حسی دلائل دو طرح کے ہیں:
o 1) انسان کی پیدائش کا معاملہ۔ غور کریں کہ جو اللہ اس انسان کو جس کی اصل مٹی سے ہے ،منی کے قطرہ سے پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت میں تبدیل کرکے اسے ایک چلتا پھرتا انسان بنا سکتا ہے، کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے؟ ۔
o 2)دوسری حسی دلیل خشک زمین کی پیش کی ہے، جو پانی پڑنے پر تازہ ہو جاتی ہے اور پھر اس میں سبزہ اگنے لگتا ہے ۔
o آیت نمبر 11تا 17میں اللہ تعالی نے ان کمزور اہل ایمان کو سرزنش کی ہے جو جذبات اور اپنے کسی دنیاوی فائدے کے لئے مسلمان تو ہو چکے تھے لیکن اپنے ایمان کے بدلے میں دنیاوی فائدہ چاہتے تھے۔ان کے نزدیک دین کا معاملہ گویا کوئی تجاری کاروبار ہے کہ فائدہ ہو تو مان لیں اور نقصان ہوا تو چھوڑ دیں گے ۔
o انہیں خبر دارکیا گیا ہے کہ اللہ تعالی اپنے دین او ر اپنےنبی کامعین و مددگار ہے ، تم لاکھ سر مارو ، خود کشی کرلو ، لیکن اللہ تعالی نے جب اپنے نبی کو نبوت ورسالت سے سرفراز کیا ہے تو اس کی مدد بھی کرے گا،اس نے کھلی دلیلیں نازل کر دی ہیں، پھر ہدایت و ضلالت کا معاملہ اسی کی طرف ہے، ان امور کا آخری فیصلہ اللہ کے پاس جا کرہونے والا ہے۔
o آیت نمبر18جس میں اس سورت کا پہلا سجدہ ہے ، اس میں اللہ تعالی نے اس حقیقت پرسے پردہ اٹھایا ہے کہ اللہ کی ذات تو وہ ہےکہ ساری کائنات زمین و آسمان،شمس و قمر،شجر و حجر حتی کہ چوپائے بھی اس کے سامنے سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔
o البتہ انسانوں میں دو گروپ ہیں، کچھ تو فرمانبردار ہیں اور کچھ نافرمان ہیں۔ جس کے نتیجے میں انہیں ذلت ورسوائی اور آخرت کے دائمی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
o پھر آیت نمبر 19تا 23میں ان دونوں گروپوں کے انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے،کافروں کا حال یہ ہوگا کہ ان کا کپڑا آگ کا اور اوپر سے بارش بھی آگ ہی کی ہوگی، جس سے ان کے ظاہر و باطن سب گل سڑ کر جھڑنا شروع ہو جائیں گے، جب بھی وہ جہنم سے نکلنا چاہیں گے فرشتے اوپر سے آگ کے ہتھوڑے برسا کر انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیں گے ۔ اور پھر ڈانٹ کر کہیں گے کہ جلانے والی آگ کا مزہ چکھو۔
o اور اس کے برعکس اپنے رب کے حضور سجدہ کرنے والے او ر رسول کے ماننے والوں کو بہتی نہروں والی جنتیں ملیں گی،ان کا لباس ریشم کا ہوگا اور انہیں سونے اور ہیرے جواہرات کے زیور پہنائے جائیں گے۔
o اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے گروہ نے توحید کو قبول نہیں کیا ، جبکہ دوسرے گروہ نے توحید کو قبول کر لیا ۔
o آیت 25تا 37میں مسجد حرام کی اہمیت ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے اس کی تعمیر اور اس کی تعمیر کے مقاصد کا ذکر ہے۔
o مسجد حرام کی اہمیت یہ ہےکہ اس سے لوگوں کو روکنا کفار کا شیوہ ہے۔ لہذا کسی کو اس گھر سے روکا نہیں جائے گا۔
o مسجد حرام کی اہمیت کہ اس میں الحاد (یعنی اللہ کی نافرمانی ) کا ارادہ کرنا ہی دردناک عذاب کا سبب ہے ۔
o مسجد حرام کی ایک اہمیت یہ ہےکہ معنوی ومادی ہر قسم کی گندگی سے اسے پاک وصاف رکھنے کا خصوصی حکم ہے ۔
o ان مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اس گھر کا حج ہے، جس میں لوگوں کے لئے بہت سے دینی و دنیاوی فوائد ہیں۔لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ ۔” تا کہ وہ فائدے حاصل کرنے آجائیں (جو ان میں ان کے لئے مقرر ہیں)”
o اسی طرح حج کے بعض مناسک و آداب کا بیان بھی ہے، جیسے قربانی،بیت اللہ کا طواف وغیرہ۔آیت : 28، 29
o اسی دوران یہ بھی وضاحت ہے کہ اس حج کاعظیم مقصد اللہ کی توحید ہے۔اسی لئے طواف اور قربانی کے حکم کے فورا بعد حکم ہوتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (30) حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (31) ” لہذا تمہیں بتوں کی گندگی بچتے رہنا چاہئے، اور جھوٹی بات بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔ اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے ، اور سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویاآسمان سے گر پڑا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گےیا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی” ۔
o یہی وجہ ہے کہ احکام حج کے دوران اللہ کی تعظیم کا حکم اور شرک کی قباحت کا ذکر ہے۔
o مناسک حج کے بیان کے دوران یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ حج کے دوران اعمال قلوب خصوصا تقوی پر خصوصی دھیان ہونا چاہئے۔نیز صبر ،شکر،رجوع اور خشیت جیسے اعمال قلوب کا بھی اہتمام حج کے مقاصد میں سے ہے۔
چنانچہ کہیں ارشاد ہے”ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (32) "یہ سن لیا، اب اور سنو!اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے تو فی الحقیقت یہ دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے”۔ اور کہیں یہ حکم ہے "فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (34)” سمجھ لو کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہی ہے لہذا اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ، عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے”۔ اور کہیں ارشاد ہے: كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (36)( اسی طرح چوہایوں کو ہم نے تمہارے لئے ماتحت کردیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو) ، کہیں ارشاد ہے: لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (37) ” اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون، بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے، اسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع بنا دیا ہے کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو ،اور محسنین(نیک لوگوں) کے لئے خوشخبری ہے” ۔
o آیت 38تا 41یہ آیتیں سفر ہجرت کے دوران نازل ہوئی تھیں۔ان آیتوں میں جہاد کی اجازت، اس کی حکمت اور جہاد میں کامیابی و نصرت کی شرطوں کی طرف اشارہ ہے۔
o اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ اہل ایمان کو ان کے گھروں سے ظلما نکالا گیا اور ان پر ظلم کیا گیا ہے۔آیت:39
o حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے دین،دینی جگہوں اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے ۔آیت: 40
o اور جہاد میں اللہ کی طرف سے مدد کی شرائط یہ ہیں کہ اخلاص ہو،نماز کے قیام کا اہتمام ہو،زکاۃ کا نظام چلانا مقصود ہو او ر بھلائی کا حکم دیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (41) "جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا ، بے شک اللہ تعالی بڑی قوت والاا ور بڑے غلبے والا ہے، (جن کی مدد اللہ تعالی کرتا ہے) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں، اور زکاۃ دیں، اور بھلی باتوں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں، تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے” ۔
o آیت 42تا 51میں تاریخی شواہد کے ذریعے نبی ﷺ کو یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے،رسولوں کی یہی تاریخ رہی ہے۔
o چنانچہ قوم نوح و ابراہیم اور قوم موسی و لوط نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا،ہم نے انہیں مہلت دی کہ توجہ کریں،سوچیں اور عبرت حاصل کریں ،لیکن جب وہ نہیں مانے تو آج ان کی بستیاں ویران پڑی ہیں اور ان کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔
o ان لوگوں نے سفر تو کئے ہونگے جہاں انہیں ان برباد شدہ قوموں کی بستیاں دکھائی دی ہونگی، تو انہیں چاہئے کہ عقل کو استعمال کرکے عبرت ونصیحت حاصل کریں ، لیکن چونکہ انہوں نے اپنی عقل سے کام نہیں لیا ، اس لئے آنکھیں رکھنے کے باوجود وہ اندھے بنے رہے اور کان رکھنے کے باوجود بہرے بنے رہے۔
o آپ ﷺ اور آپ کے ساتھی پریشان نہ ہوں اور وہ اس عذاب کے بارے میں دھوکے میں نہ رہیں جس کی وہ جلدی مچا رہے ہیں،اللہ کا فیصلہ حق ہے،اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں،وہ بڑا حلیم ہے وہ مہلت دیتا ہے،اس کا ایک دن تمہارے ہزار سال کے برابر ہے۔آیت: 47، 49
o اے نبی ﷺ! آپ کاکام خوشخبری دینا اور خبر دار کرنا ہے ،لہذا آپ مومنین کو جنت اور مغفرت کی خوشخبری دیجئے اور جو ہماری آیات کو جھٹلا کر اپنے خیال کے مطابق رسول کو نیچا دکھانےوالے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنائیں ۔آیت: 50-51
o آیت نمبر 52سے 57تک نبی ﷺ کو یہ تسلی دی جا رہی ہے کہ آج آپ کے خلاف جو چالیں چلی جا رہی ہیں وہ کوئی نئی نہیں ہیں،بعینہ یہی صورت حال آپ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ان کے مخالفین کرتے رہے ہیں،لیکن اللہ تعالی نے اپنے نبی کے خلاف ان کی کسی بھی چال کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
o شیطان کی ان چالوں سے وہی لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ونفاق کا روگ ہوتا ہے، البتہ وہ لوگ جو صدق دل سے ایمان و اخلاص والے ہوتے ہیں وہ متاثر نہیں ہوتے۔ آیت: 53، 54
o انہیں آیتوں میں انسانی دلوں کی تین کیفیات کا بھی بیان ہوا ہے:
1) وہ دل جو رسولوں کی دعوت کو قبول کرتا ہے۔ اسے "القلب المخبت” یعنی اللہ کی طرف جھک جانے والا دل کہا گیا ہے۔
2) وہ دل جس پر رسول کی دعوت کا کوئی اثر نہیں ہوتا اسے”القلب القاسی” کہا گیا ہے ۔ اسے مردہ دل یا پتھر دل بھی کہہ سکتے ہیں۔
3) تیسرا وہ دل جو رسول کی دعوت کے بارے میں تذبذب او ر تردد کا شکار رہتا ہے اسے "القلب المریض” کہا گیا ہے، یعنی بیمار دل۔
o نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں ، یہ کافر آپ کے بارے میں اسی طرح شک میں مبتلا رہیں گے، البتہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔
o اس دن فیصلے کا حق صرف اور صرف اللہ کو ہوگا ، لہذا اہل ایمان کو تو جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی، جبکہ ہماری آیات کو جھٹلانےوالے رسوا کن عذاب سے دوچار ہوں گے۔ آیت: 55، 56
o آیت نمبر 58اور 59میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی ہمت افزائی ہے اور ان کے لئے دنیا و آخرت میں بہترین ٹھکانے کی خوشخبری ہے۔
o آیت 61تا 66میں اللہ تعالی کی قدرت اور کائنات میں اس کےاختیارات کی متعدد مثالیں پیش کی گئی ہیں،جن کا مقصد اللہ کی قدرت اور اس کے لائق عبادت ہونے کی طرف توجہ دلانا ہے۔جیسے رات و دن کا سلسلہ چلانا ،او ر رات و دن کو چھوٹا بڑا کرنا ،یہ اسی کا کارنامہ ہے۔
o آسمان سے بارش برسانا پھر اس سے زمین کا سر سبز و شاداب ہو جانا اسی ذات کا کرشمہ ہے۔
o زمین کو تمہاری خدمت پر لگا دینا،سمندر پر کشتیوں کو چلانا اور آسمان کو زمین پر گرنے سے بچانا ، یہ سب اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہذا یاد رکھو اللہ ہی حق ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ باطل ہیں۔ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (62) "یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جس کو بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے، اور بے شک اللہ ہی بلندی وکبریائی والا ہے”۔
o آیت نمبر 66سے 70تک نبی ﷺ کو یہ حکم ہے کہ مخالفین کی مخالفتوں کی پرواہ کئے بغیر آپ دعوت کے کام پر ڈٹے رہیں،کیونکہ آپ ہی صراط مستقیم پر ہیں۔
o واضح بیان اور روشن دلیل کے بعد بھی اگر یہ لوگ لڑائی جھگڑے پر اتر آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں ، اور خبر دار کردیں کہ فیصلے کا دن قریب ہے۔
o آیت 71، 72 میں مشرکین پر شدید تنقید اور انہیں دھمکی بھی ہے۔
تنقید اس بات پر کہ اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، اس پر نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی نقلی دلیل ہے، بلکہ صرف یہ تمہاری لاعلمی اور جہالت ہے کہ تم ایسے بے اختیار لوگوں کو اپنا مددگار سمجھے ہوئے ہو۔
دھمکی اس پر دی گئی کہ تمہاری یہ جو کیفیت ہے کہ ہماری آیات کو سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہو، غصے سے تمہارے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آیات سنانے والے کو کھا جاؤگے ، تو یاد رکھو ! اس سے برا حال تمہارا اس وقت ہوگا جب قیامت کے دن تم آگ پر پیش کئے جاؤگے ۔
o آیت 71تا 76میں شرک اور مشرکین کی تردید ہے ،بلکہ شرک و مشرکین کی عاجزی کو ایک (مکھی کی )مثال دے کر چیلنج کیا گیا ہے،جو آج بھی ہمارے لئے باعث عبرت ہے ۔
o اس حقیقت کے واضح ہونے کے باوجود لوگوں کے شرک کی وجہ یہ کہ لوگوں نے قادر مطلق کی قدر کو نہیں پہچانتے۔
مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (74)” انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور وقوت واﻻ اور غالب وزبردست ہے۔
o اس سورت کی ابتداء بھی "يَاأَيُّهَا النَّاسُ”کے خطاب سے ہوئی تھی اور آخری صفحہ پر بھی "يَاأَيُّهَا النَّاسُ” آیا ہے۔ یہ چیز قابل غور ہے کہ یہ کتاب کسی ایک جماعت یا قوم کے لئے نہیں بلکہ سارے عالم کے انسانوں لئے ہے۔
o آیت نمبر 77سے آخر تک امت مسلمہ کے بعض فضائل بیان ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو چند نصیحتیں کی گئی ہیں جو ان کے بقا اور ایک صالح اسلامی معاشرے کیلئے ضروری ہیں۔
o فضائل جیسے: ۱– اور قوموں کے مقابلے میں ان کا انتخاب۔ ۲– ان کے دین کا آسان ہونا۔ ۳– قیامت کے دن دیگر قوموں پر گواہ بننا ۔ ۴– اور ملت ابراہیمی کو اپنانے کی توفیق وغیرہ، ” هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ”اس نے تمہیں برگزیدہ بنایا، اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی،اپنے باپ ابرہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم رہو۔ اسی (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی ، تاکہ پیغمبر تم پر گواہ رہے اور تم تمام لوگوں پر گواہ بن جاؤ”۔
o نصیحتیں ، جیسے:۱– جہاد کا فریضہ انجام دینا۔ ۲– نماز کو قائم کرنا۔ ۳–زکاۃ ادا کرنا۔ ۴– اعتصام باللہ اور خیر اور بھلائی کے کام کرنا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں