سجدہ تعظیمی / حديث نمبر: 261

بسم اللہ الرحمن الرحیم

261:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سجدہ تعظیمی

بتاریخ : 29/ ربیع الاول  1436 ھ، م  20،جنوری  2015 م

  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لأَحَدٍ لأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.(سنن الترمذي:1159 الرضاع.)

ترجمہ  : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو یقینا عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ { سنن الترمذی }

تشریح :  اس حدیث میں دو بڑی اہم باتیں بیان ہوئی ہیں :

[اول ] بیوی کا شوہر  کا عظیم حق : یہ امر واضح رہے کہ  شادی کے بعد  ایک عورت  پر  اللہ و رسول کے بعد جتنا حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے کسی اور کا نہیں ہوتا ، شوہر  کا حق  نبی ﷺ نے اس حدیث میں جس بلیغ اور موثر  انداز میں بیان  فرمایا ہے اس سے بلیغ انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا  ، ایک اور حدیث  میں یہی حکم اس طرح بیان  ہوا ہے کہ کسی آدمی کے لئے  یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی  دوسرے  آدمی کو سجدہ کرے اور اگر یہ جائز  ہوتا تو  میں عورت کو حکم دیتا کہ  وہ اپنے  شوہر کو سجدہ کرے ،کیونکہ  اس پر اس کے شوہر کا بہت بڑا حق ہے ۔ { مسند احمد بروایت انس } ۔

لہذا  عورت کو چاہئے  کہ شوہر  کی فرمانبرداری  اور رضا جوئی  میں کوئی کمی نہ کرے ، یہی چیز اس کے صالح بیوی  اور صالح بندی  ہونے کی علامت ہے : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ( النساء :34)

مرد عورتوں کے سربراہ ہیں  پس نیک بیویاں  شوہروں  کی فرمانبرادا ہوتی ہیں  اور حفظ الہی سے وہ شوہروں کی غیبت میں بھی ان کی آبروں اور امانت کی حفاظت  کرتی ہیں ۔ اور یہی چیز  عورتوں کے  جہنم سے دور رہنے  اور جنت میں داخل  ہونے کا سبب ہے ۔نبی ﷺ کے پاس ایک عورت کسی مقصد کے لئے آتی ہے  ، جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ  ہوکر واپس جانے لگی تو نبی ﷺ  نے اس  سے پوچھا  کیا  تو شوہر  والی عورت ہے ؟  اس نےاثبات میں جواب دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا  : تیرا معاملہ اس کے ساتھ کیسا ہے ؟ اس نے کہا  میں اپنی استطاعت  بھر خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی،  تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:  دھیان رکھو ، اس کےساتھ  تمہارا  کیا معاملہ  رہتا ہے ، وہی تمہارے لئے جنت میں جانے کا بھی سبب ہے اور وہی تمہارے لئے جہنم  میں بھی جانے کا سبب ہے ۔ { مسند احمد ، سنن النسائی بروایت  حصین بن محصن } ۔

[دوم ] سجدہ صرف اللہ کے لئے : اس حدیث میں دوسری اہم بات یہ بیان ہوئی ہے کہ شریعت محمدی میں سجدہ  صرف اللہ تعالی کے لئے ہے ، اس کے سوا کسی دوسرے  کے لئے حتی کہ افضل المخلوقات  سید الانبیاء  حضرت محمد ﷺ کے لئے بھی کسی  طرح کے سجدے کی گنجائش  نہیں ہے ، چنانچہ  مشہور صحابی  حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  ملک شام  گئے  ہوئے تھے  ، جب  وہاں سے واپس  آئے تو  انہوں نے رسول  اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا ، آپ ﷺ نے تعجب سے فرمایا :  معاذ یہ کیا کررہے ہو  ؟  انہوں نے کہا  کہ میں نے  شام  میں لوگوں  کو دیکھا  کہ وہ اپنے  پیشواوں  اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں تو  میرے دل میں آیا کہ ایسے ہی  ہم آپ کو سجدہ کیا کریں ، نبی ﷺ  نے ارشاد فرمایا  : ایسا نہ کرو ، اگر میں کسی  کو اللہ کے سوا  کسی اور کے لئے  سجدہ کرنے  کے لئے  کہتا تو  عورت   سے کہتا  کہ وہ اپنے شوہر  کو سجدہ کرے ۔ { مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، بروایت عبد اللہ بن ابی اوفی } ۔

بعینہ اسی طرح  قیس بن سعد نامی ایک صحابی  ” حیرہ ”  تشریف لے گئے  اور وہاں دیکھا کہ  لوگ اپنے سرداروں  کو سجدہ کرتے ہیں تو انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ ہمارے رسول ﷺ تو ان لوگوں کے مقابلہ  میں سجدہ کے زیادہ مستحق ہیں ، لہذا جب  وہ مدینہ منورہ واپس  آئے  اور نبی ﷺ  سے اس امر کا  تذکرہ   کیا  تو آپ نے فرمایا  : بتاو  کیا اگر تم میرے  مرنے   کے بعد  میری قبر کے پاس  سے گزرو گے تو میری قبر  کو سجدہ  کروگے ؟ حضرت قیس  کہتے ہیں  کہ میں نے کہا :نہیں ، تو آپ ﷺ نےفرمایا : اگر میں کسی کو  کسی مخلوق  کے لئے  سجدہ کرنے  کی اجازت دیتا تو عورتوں کو کہتا کہ وہ  اپنے شوہروں  کو سجدہ  کریں ، اس عظیم حق کی بنا پر   جو اللہ تعالی نے  ان پر ان کے  شوہروں  کا رکھا ہے  ۔ { سنن ابو داود ، مسند احمد } ۔

لیکن افسوس  کی ان تمام  تنبیہات  کے باوجود  آج  بہت سے لوگ اپنے  عالموں  اور پیروں  وغیرہ کو سجدہ کرتے ہیں جس کے لئے  بہت سے بہانے  ہیں ، کوئی  اسے قدم بوسی کا نام دیتا ہے ، کوئی سجدہ تعظیمی  کہتا ہے  اور عذر پیش کرتا  ہے کہ منع سجدہ عبادت  ہے  ،حالانکہ  یہ ظاہر ہے کہ حضرت  معاذ ، قیس بن سعد  یا جن دوسرے  صحابہ نے رسول اللہ ﷺ  کے بارے میں  عرض کیا تھا وہ سجدہ  تحیہ ہی کے بارے میں  تھا جس کو لوگ سجدہ تعظیمی  بھی کہتے ہیں ، اس کا  شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا   کہ ان صحابہ نے معاذ اللہ   سجدہ  عبادت  کے بارے میں عرض کیا ہو ، جو شخص  رسولﷺ پر ایمان  لاچکا  اور آپ کی دعوت  توحید قبول کرچکا ہو  اس کو تو اس کا وسوسہ بھی   نہیں آسکتا  کہ وہ اللہ کے سوا کسی  دوسرے  کو سجدہ  عبادت  کرے  ، اس لئے  ماننا  پڑے گا کہ  ان حدیثوں کا تعلق  خاص کر  سجدہ تحیہ اور تعظیمی  ہی سے ہے  ، پس جو لوگ  اپنے بزرگوں اور مرشدوں کو  یا مرنے کے بعد  ان کے مزاروں  کو سجد کرتے ہیں  وہ بہر حال  شریعت  محمدی  کے مجرم اور باغی ہیں اور ان کا یہ عمل  صورۃ بلا شبہ  شرک ہے ۔ { معارف الحدیث } ۔  کیونکہ  یہی عمل آہستہ آہستہ  سجدہ  عبادت  اور ان کی بندگی کا سبب بنتا ہے ۔

فوائد :

  • عورتوں پر ان کے شوہر وں کا سب سے زیادہ حق ۔
  • غیر اللہ کا سجدہ کرنا مطلقا حرام اور  شرک ہے ۔
  • کسی بھی مخلوق کے لئے  ہر قسم کا سجدہ  خواہ  تعظیمی  ہو یا  عبادت منع ہے ۔