بسم اللہ الرحمن الرحیم
307:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [10]
چوری کرنا ، مال غنیمت میں خیانت ، ڈاکہ ڈالنا
بتاریخ : 28/ ربیع الاول 1438 ھ، م 27، ڈسمبر 2016 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
22- چوری کرنا:کسی عاقل وبالغ شخص کا کسی محفوظ جگہ سے کسی کے مال کو چھپ کر اٹھا لینا چوری کرنا ہے ، چوری ایسا جرم ہے جو عقلا و شرعا ایک برا کام ہے ، اسی لئے ہر شریعت و ماحول میں چور کے لئے سخت سزا مقرر ہے ، اسلام میں بھی چوری کرنا گناہ کبیرہ ہے ، اور چور نبی رحمت ﷺ کی زبان پر ملعون ہے ، ارشاد نبوی ہے اللہ کی لعنت ہے چور پر وہ ایک رسی چراتا ہے اور اس پر اس کا ہاتھ کاٹ لیا جاتا ہے ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت }
ایک اور حدیث میں بنی ﷺ نے ارشاد فرمایا : یاد رکھو یہ {یعنی کبائر } چار ہیں {جن سے پرہیز کرنا } باری تعالی کے ساتھ شرک نہ کرنا ، کسی جان کو بغیر حق کے نہ مارنا ، زنانہ کرنا اور چوری نہ کرنا ۔ {مسند احمد بروایت مسلمہ بن قیس } ۔ چوری کی سزا اسلام میں ہاتھ کاٹنا رکھی گئی ہے یعنی اگر کوئی شخص ایک گرام سونے سے کچھ زائد مالیت کی چیز چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ، ارشاد باری تعالی ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (38)المائدہ
اور چور خواہ مرد ہوں یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، یہ ان کے کئے کا بدلہ اور اللہ تعالی کی طرف سے عبرتناک سزا ہے ، اور اللہ تعالی غالب ہے اور حکمت والا بھی ہے ۔
چوری کی بعض صورتیں بعض سے زیادہ قبیح ہیں ، جیسے کسی مجبور کا مال چرانا ، حاجی کا مال چرانا اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرنا ، نبیﷺن صحابہ سے سوال کیا :چوری کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا : اسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے لہذا یہ حرام ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا :دس گھروں سے چوری کرنا اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرنے سے آسان ہے ۔ {مسند احمد بروایت مقداد بن اسود } ۔
نبی ﷺ نے اس شخص کو جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ تے ہوئے دیکھا جو حاجیوں کا مال چراتا تھا ۔ { صحیح مسلم بروایت جابر} ۔
23- مال غنیمت سے خیانت :
غنیمت کا مال اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ میں کافروں پر غلبہ کے بعد حاصل ہوتا ہے ، چونکہ یہ مال تمام مسلمانوں خصوصا فوج میں شریک تمام لوگوں کا ہوتا ہے لہذا حاکم یا فوجی کمانڈر کی اجازت کے بغیر تقسیم سے قبل اس میں سے کچھ چھپا کر لینا ظلم اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا ہے جو کسی بھی طرح جائز نہیں ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
یہ نبی کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اسی خیانت کردہ چیز کو لے کر حاضر ہوگا ۔
نبی کریم ﷺ غزوہ خیبر سے فارغ ہو کر وادی القری کی طرف تشریف لے گئے اس سفر میں نبی کریم ﷺ کا سامان مدعم نامی ایک غلام کے ساتھ تھا ، جب یہ غلام وادی القری پہنچ کر سامان اتارنے لگا تو اسے ایک تیر آکر لگا اور وہ کام آگیا ، صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اسے شہید ہونا مبارک ہو ، نبی ﷺ نے فرمایا :ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جسے اس نے خیبر کے موقعہ پر مال غنیمت تقسیم ہونے سے قبل چھپا کرلے لیا تھا اس کے اوپر آگ کے شعلے بن کر دھک رہی ہے ، یہ سن کر لوگ سخت پریشان ہوئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر حاضر ہوا اور آپ کے سامنے رکھ دیا ، نبی ﷺ نے فرمایا : فی الواقع یہ آگ کا یک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ }
علماء نے اس حکم میں ہر اس مال میں خیانت کو لیا ہے جس میں عام لوگوں کا حصہ ہے جیسے زکاۃ کا وصو ل شدہ مال ، یا کسی قومی فنڈ میں جمع شدہ مال اور کسی مدرسے یا یتیم کھانے کے لئے جمع شدہ مال وغیرہ، ا ن میں سے کسی میں بھی بغیر حق کے تصرف کرنا "غلول "ہی میں داخل ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔
24- ڈاکہ ڈالنا :
طاقت کے زور پر ڈرا دھمکا کر ، ہتھیار دکھا کر کسی کا مال لے لینا ڈاکہ ڈالنا ہے ، عقل وشرع کی نظر میں یہ ظلم کی قبیح صورت ہے، جس میں کئی قباحتیں جمع ہوجاتی ہیں ۔ ۱- پر امن یا راستے چلتے لوگوں کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا ۔ ۲- ڈرانے دھمکانے کے لئے ہتھیار دکھانا پڑتا ہے ۔ ۳- اور بسا اوقات مارا اور پیٹا بھی جاتا ہے ۔ ۴- مزید یہ کہ لوگوں کا مال یا عزت لوٹ لی جاتی ہے ۔ ۵- بلکہ بسا اوقات معاملہ خون بہانے اور قتل تک پہنچ جاتا ہے ۔
مذکورہ خرابیوں میں سے ہر خرابی حرام اور گناہ عظیم ہے ، چہ جائے کہ یہ ساری خرابیاں کسی کام میں جمع ہوجائیں، اسی لئے اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں اس کی سزا بڑی سخت رکھی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (33)المائدہ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد مچانے کے لئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں ا ن کی سزا یہی ہوسکتی ہے کہ وہ قتل کردیئے جائیں ، یا انہیں سولی پر لٹکا دیا جائے ، یا مخالفت سمتوں سے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دئے جائیں یا وہ جلا وطن کردئے جائیں ، یہ ذلت و خواری ان کے لئے دنیا و آخرت میں ا ن کے لئے بہت بڑا عذا ب ہے ۔
آیت میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ سے مراد علماء نے عموما راہزنی اور ڈکیتی لیا ہے جس کی سزا میں چار چیزوں کا ذکر ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :
۱- اگر کوئی شخص ایسے موقعہ پر صرف قتل کرتا ہے اور مال نہیں لوٹتا تو اسے قتل کردیا جائے ۔ ۲- اگر قتل بھی کرتا ہے اور مال بھی چھینتا ہے تو اسے سولی پر لٹکا دیاجائے ۔ ۳- اگر قتل نہیں کرتا صرف ڈرا دھمکا کر یا مار پیٹ کر مال لے لیتا ہے تو اس کے ہاتھ پیر مختلف سمتوں سے کاٹ دئے جائیں جیسے دایاں ہاتھ اور بایاں پیر ۔ ۴- اگر مذکورہ کوئی عمل نہیں کرتا یا نہیں کرپاتا اور گرفتا ہوجاتا ہے تو اسے شہر بدر کردیا جائے ۔
فی الواقع یہی لوگ دہشت گرد ہیں ۔