سلسلہ کبائر [11] جھوٹی قسم ، ظلم ، ناجائز ٹیکس/ حديث نمبر: 308

بسم اللہ الرحمن الرحیم

308:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [11]

جھوٹی قسم ، ظلم ، ناجائز ٹیکس

بتاریخ : 05/ ربیع الآخر   1438 ھ، م  03، جنوری 2017 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

25- جھوٹی قسم :قسم  کھانا حقیقت میں گواہ بنانا ہے گویا جو شخص  کسی بات پر کسی کی قسم کھا رہا ہے اسے  اپنے سچ ہونے پر گواہ بنارہا ہے  پھر چونکہ  یہ ایک اور غیر معمولی عمل  ہے  اسی لئے  اسلام میں اولا تو قسم  کی حفاظت  کا حکم ہے ، ثانیا  صرف اللہ کی قسم  کھانے  کا حکم ہے ، ثالثا  سچی  قسم کھانے کا حکم ہے ، ارشاد نبوی ہے  :  احلفوا بالله وبروا واصدقوا، فإن الله يكره أن يحلف إلا به ". الصحیحۃ للالبانی:1119

قسم  کھاؤ  تو  اللہ تعالی  کی قسم  کھاؤ  اورجس  بات پر قسم کھاؤ  اسے پوری کرو  اور  قسم سچی  کھاؤ ، اس لئے  کہ اللہ تعالی  کو یہ ناپسند ہے کہ اس کے علاوہ  کسی اور کی قسم  کھائی جائے ۔ ۔۔۔  سچی  قسم میں چونکہ  اللہ تعالی کی تعظیم  ہے اور جھوٹی قسم   میں اللہ تعالی  کے ساتھ  سوء ادب ہے اس لئے  سچی قسم  کھانا  واجب بلکہ  عبادت اور جھوٹی  قسم کھانا سخت گناہ قرار دیا ہے ، اور اگر اس جھوٹی  قسم سے کسی کا حق  ہڑپ  کرنا مقصود  ہوتو  بہت   ہی قبیح  صورت اختیار کرجاتی ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :  بڑے  بڑے گناہ یہ ہیں :  اللہ تعالی  کے ساتھ  شرک کرنا ، والدین  کی نافرمانی  کرنا اور جھوٹی   قسم کھانا ۔ { صحیح بخاری  ،سنن النسائی  بروایت  عبد اللہ بن عمر } ۔

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے :  جو شخص  جھوٹی  قسم کھا کر اس کے ذریعہ  کسی مسلمان کا مال  ہڑپ کرلیتا ہے  تو قیامت  کے دن وہ  اللہ تعالی  سے اس حال میں   ملاقات  کرے گا کہ اللہ تعالی  اس سے سخت  ناراض ہوگا ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم  بروایت  ابن مسعود } ۔ یہ حدیث سن کر  صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ !  خواہ وہ  کوئی معمولی چیز ہو ؟ نبی ﷺ نے فرمایا  : کہ درخت  اراک  کی ٹہنی  کیوں نہ ہو [جس  سے مسواک کی جاتی ہے ] {صحیح مسلم  ، بروایت  ابی امامہ } ۔

اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ اس میں  تین بڑی  خرابیاں  جمع ہیں ۔ ۱- اللہ تعالی  کے نام  کی عدم تقدیس ۔ ۲- جھوٹ جیسا برا عمل ۔ ۳-  اپنے بھائی کا مال  ہڑپ کرنا

۲۶- ظلم کرنا :

شریعت   کی نظر میں  حتی  اخلاقی طور پر بھی ظلم ایک قبیح  اور برا عمل ہے ،  ظلم  کی اسی قباحت  کے پیش نظر  اللہ  تعالی نے اسے اپنے اوپر  حرام کرلیا ہے  اور انسان کو بھی حکم  دیا ہے کہ وہ ایک  دوسرے  پر ظلم  نہ کریں  ، ارشاد نبوی ہے  : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ: «يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا يَا عِبَادِي۔ الحدیث  اللہ تعالی نے فرمایا : اے میرے بندو !  میں نے  اپنے  آپ پر ظلم کو حرام  کرلیا ہے اور تمہارے  درمیان  بھی ظلم  کو حرام  کیا ہے،  لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔ {صحیح مسلم بروایت  ابو ذر } ۔

 

اللہ تعالی  کا ارشاد ہے : قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ. الآية الأعراف

آپ کہد یں  کہ  میرے  رب نے   ہر بے حیائی  کے کام  خواہ  کھلے ہوں یا چھپے  اور گناہ  کے کام  اور نا حق  ظلم کو حرام  ٹھہرایا ہے ۔

بلکہ ظالم کو سخت عذاب کی دھمکی  دی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے  :وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (227)الشعراء

وہ وقت  دور نہیں  ہے جب ظلم کرنے  والوں  کو معلوم ہوجائے گا  کہ ان کا انجام  کیا ہونے  والا ہے ۔

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : بچو ظلم  سے کیونکہ  ظلم قیامت  کے دن اندھیرہ  ہے ۔ {صحیح مسلم بروایت } ۔

ظلم  کی بہت  سی صورتیں ہیں اور ہر صورت  کبیرہ  گناہ کا حکم  رکھتی ہے ، جیسے  کسی کا مال  کھانا ، چھیننا ، کسی کو مارنا ، گالیاں  دینا ، زیادتی کرنا ، کمزوروں  کو پریشان کرنا  وغیرہ ۔ حتی کہ  ایک معمولی  جانور  پر بھی ظلم  کیا جائے  تو وہ بھی   اللہ تعالی  کے نزدیک  نا قابل  معافی جرم ہے ۔

حدیث  میں ہے   کہ ایک  عورت ایک بلی  کی وجہ سے  جہنم  میں گئی  ، اس طرح   کہ اسے باندھ  کر رکھا ،نہ اسے  خود کھانا پانی  دیا اور نہ ہی اسے  آزاد  کیا وہ کیڑے  مکوڑے کھا کر  اپنا پیٹ بھرلے ۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم  بروایت  ابن عمر } ۔

27- ناجائز ٹیکس :

حدیث میں  اسے "مکس ” کہا گیا ہے  مکس یا "مکوس ”  وہ رقم  کہلاتی ہے جو تاجروں سے وصول کی جاتی تھی اس کے عوض  کے وہ اپنا مال بازار میں لا کر بیچتے  تھے ، اسی طرح  ہر اس مبلغ  پر اس کا  اطلاق ہونے لگا  جو زکاۃ  وصول کرنے والا  واجب رقم لے لینے  کے بعد اپنے  لئے  الگ سے وصول کرتا تھا ، پھر آگے چلکر  ہر  اس ٹیکس  پر ہونے لگا  جو حکومتیں  اپنی  رعایا  پر بلا کسی  عوض یا خدمت کے  لگاتی  ہیں ۔ اس طرح  ہر وہ ٹیکس  یا چنگی  جوظلما تاجروں یا رعایا  سے لیا جاتا ہے وہ ناجائز  اور کبیرہ  گناہ ہے ، قوم شعیب  اورقوم لوطعلیہما السلام  میں جو خرابیاں  شرک باللہ  کے ساتھ پائی جاتی تھیں  ان میں  سے ایک یہ بھی تھا ۔ وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا۔ الآیہ

اور راہ  پر راہزن  بن کر نہ بیٹھ جاو  کہ لوگوں  کو دھمکاتے  پھر و اور جو  شخص اللہ پر  ایمان لائے اس کی  راہ  روکنے  لگو  اور اسی سیدھی   راہ میں  کجی  کے درپے  ہو جاؤ۔

نبی کریم ﷺ کی متعدد حدیثوں  میں بھی   اس پر سخت وعید  وارد ہے ، ارشاد نبوی ہے  : آدھی رات کو آسمان کے دروازے  کھول دئے جاتے ہیں اور  ایک پکارنے  والا  پکارتا ہے : کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبو ل کی جائے  ، کوئی مانگنے  والا  ہے کہ ا س کی حاجت  پوری کی جائے  اور کوئی   پریشان  حال ہے کہ اسکی مشکلات  کو دور کیا جائے ، چنانچہ  اس وقت جو مسلمان بھی دعا کرتا ہے اس کی دعا قبول  کی جاتی  ہے،  سوا اس زانیہ  کے  جو شرمگاہ  بیچ کر روزی کماتی ہے اور  اس شخص کے جو ٹیکس وصول کرتا ہے ۔  {طبرانی اوسط بروایت  عثمان بن ابی العاص ۔

ایک اور حدیث میں ہے ٹیکس وصول کرنے والا  جہنم  میں  جائے گا ۔ {مسند احمد بروایت  مسلمہ  بن مخلد }