بسم اللہ الرحمن الرحیم
309:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [12]
حرام مال ، خود کشی ، خلاف شرع فیصلہ
بتاریخ : 12/ ربیع الآخر 1438 ھ، م 10، جنوری 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
28- حرم مال کھانا :حرام مال کھانے سے مراد صرف کھانا نہیں بلکہ کسی بھی طرح اس کا استعمال ہے ،خواہ کھانے کے مقصد کے لئے ہے، پینے کے لئے ہے یا پہننے کے لئے ، اسی طرح حرام مال سے مراد ہر وہ مال ہے جو شرعا ممنوع ہے خواہ وہ بذات خود حرام ہو جیسے شراب وخنزیر وغیرہ یا ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا ہے جیسے رشوت ، سود اور لوٹ مار وغیرہ کا مال ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (188)البقرۃ۔ ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو حالانکہ تم جانتے ہو ۔ ارشاد نبوی ہے : یہ مال میٹھا اور ہر ابھرا ہے، جس شخص تک یہ مال حق اور جائز طریقے سے پہنچتا ہے تو اس کے لئے اس مال میں برکت دی جاتہ ہے ، اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال میں اپنی خواہش کے مطابق تصرف کرتے ہیں [اور حلال و حرام کی تمیز نہیں رکھتے ] تو ان کا بدلہ قیامت کے دن آگ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ {سنن ترمذی ، مسند احمد، بروایت خولہ بنت قیس } ۔۔۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے : وہ جسم جنت میں نہیں جاسکتا جو حرام غذا میں پلا ہوگا ۔ {مسند ابو یعلی ، مستدرک الحاکم ، بروایت ابو بکر الصدیق } ۔ حتی کہ ایسے شخص کی کوئی عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ اس کی دعا قبول کی جاتی ہے ،چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی طویل سفر کرکے آتا ہے ، پراگندہ حال ، جسم گرد آلود ہوتا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے : اے میرے رب ، اے میرے پالہنار ، جبکہ اس کا کھانا حرام کا ، اس کا پینا حرام کا ، اس کا لباس حرام کا اور اس کی جملہ غذا حرام کی ، ایسے بندے کی دعا و عبادت کیو ں کر قبول کی جائے گی ۔ {صحیح مسلم ، مسند احمد ، بروایت ابو ہریرہ }۔
29- خود کشی کرنا : خود کشی کا معنی اپنے آپ کو ہلاک کرلینا ہے، خواہ یہ ہتھیار کے ذریعہ ہو ، پھانسی لگا کر ہو ، زہر یا اس طرح کی کوئی چیز کھا کر ہو ، اونچی جگہ سے اپنے آپ کو گرا کر یا آگ اور پانی میں ڈال کر ہو وغیرہ وغیرہ ، ان تمام چیزوں پر خود کشی کا اطلاق ہوگا، حتی کہ اگر کوئی شخص کھانا پانی چھوڑ کر بھی اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو یہ بھی خود کشی میں داخل ہے اورخود کشی گناہ کبیرہ ہے ، کیونکہ یہ جسم اور یہ جان اللہ تعالی کی امانت ہے، اسے ضائع کرنا یا اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا قطعا جائز نہیں ہے ، بلکہ خود کشی اللہ کی تقدیر پر بے ایمانی کی دلیل ہے ، اسی لئے خود کشی کو اللہ تعالی نے ہر شریعت میں حرام کیا تھا ، چنانچہ حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : تم سے پہلے قوموں میں سے ایک شخص کو بہت زخم آئے ، وہ ان کی تاب نہ لاسکا ، اس نے چھری پکڑی اور اپنا ہاتھ کاٹ دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بند نہ ہونے سے اس کی موت واقع ہوگئی ، اللہ تعالی نے اس کے متعلق فرمایا : میرے بندے نے اپنے بارے میں جلدی کی اور مجھ سے آگے بڑھا ،لہذا میں نے جنت کو اس پر حرام کردیا ہے ۔ {صحیح مسلم ، صحیح بخاری } ۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29) وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30)النساء۔ اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، یقین مانو کہ اللہ تعالی تمہارے اوپر مہربان ہے ، تو جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے ، یہ اللہ تعالی کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے آپ کو کسی دھار والی چیز سے قتل کیا تو جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ کو دھار والی چیز کے ذریعہ پھاڑتا رہے گا ، اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا جہنم کی آگ میں وہ ہمیشہ زہر کو اپنے اندر انڈیلتا رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا ۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ } ۔ بلکہ خود کشی اتنا بڑا گناہ ہے کہ بڑی سے بڑی نیکی بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتی چنانچہ حضرت طفیل بن عمر و رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا ایک ساتھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ آیا ، مدینہ کی آب ہوا اسے راس نہ آئی او ر بیمار ہوگیا ، جس کی وجہ سے اسے سخت تکلیف ہوئی ، اس نے اپنے ہتھیار سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کر ہلاک کرلیا ، حضرت طفیل نے اسے خواب میں بہت ہی اچھی حالت میں دیکھا، البتہ یہ دیکھا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ڈھکے ہوئے ہے ، پوچھا یہ کیا معاملہ ہے ، ہاتھوں کو کیوں ڈھکے ہو ؟ اس نے کہا: اللہ تعالی نے مجھے اپنے نبی کی طرف ہجرت کے صلہ میں بخش دیا ،البتہ ہاتھوں سے متعلق فرمایا : جس چیز کو تم نے اپنے ہاتھ سے بگاڑا ہے اسے میں نہیں بناوں گا ۔ {صحیح مسلم بروایت جابر }۔
30- اللہ تعالی کے حکم کے خلاف فیصلہ کرنا : اس دنیا کا خالق اللہ تعالی ہے اور وہی اس دنیا میں تدبیر کا حق رکھتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (54)الاعراف۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہو اور حاکم ہونا ، بڑی خوبیوں سے بھر ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا رب ہے ۔ چنانچہ اس نے اس دنیا میں انسان کو بسایا اور دنیا میں زندہ رہنے کے اصول و قوانین بھی بنائے اور لوگوں کو ان قوانین کا پابند بنایا ، عبادت اس طرح کریں جیسا کہ خالق نے بتایا ہے ، باہمی فیصلہ ویسے ہی کریں جیسا کہ خالق نے بنایا ہے ، اپنے نزاعات کو انہیں قوانین کا پابند بنائیں جنہیں خالق نے نازل کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ان قوانین کی مخالفت کرنے والوں کو کافر ، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے ، ارشاد ہے : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44)المائدة. جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے [قانون ] کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ کافر ہیں ۔
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (45) المائدة۔ جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں ۔
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (47) المائدة۔ اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ فاسق ہیں ۔ ہمیشہ علمائے امت کا متفقہ فتوی ہے کہ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ قوانین کو ان کی جگہ دینا گناہ کبیرہ بلکہ اس کی بعض صورتیں کفر اکبر اور ارتداد کا سبب ہیں ، چنانچہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم لین دین کے معاملہ میں آزاد ہیں ، حدود و تعزیرات اور اس قسم کے دیگر قوانین جو اس وقت رائج ہیں اللہ تعالی کے بیان کردہ قانون سے بہتر ہیں ، یا اس کے مساوی ہیں ،یا عصر حاضر میں ان سے زیادہ مناسب ہیں ،یا ان پر عمل کرنا جائز ہے تو یہ کفر اور دین سے خارج ہوجانے کا سبب ہے ، اور اگر کوئی اللہ کے قوانین کو بہتر اور واجب التنفیذ سمجھتا ہے لیکن خواہش کی پیروی ، مال کی لالچ اور مخالف کی دشمنی وغیرہ کی وجہ سے اللہ کے قانون کو چھوڑ کر دنیا وی قانون کو قبول کرلیتا ہے تو یہ حرام اور گناہ کبیر ہے ۔ واللہ اعلم ۔