بسم اللہ الرحمن الرحیم
310:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [13]
رشوت ، جنس مخالف، دیوث ، حلالہ
بتاریخ : 19/ ربیع الآخر 1438 ھ، م 17، جنوری 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
31- رشوت کا لین دین : رشوت سے مراد وہ مال یا خدمت ہے جو حاکم یا ذمہ دار کو اپنی مصلحت پوری کرنے کے لئے دی جائے کیونکہ اس صورت میں عموما غیروں کا حق مارا جاتا ہے اس لئے اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (188)البقرۃ. اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناروا طریقے سے کھاو ، نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمہیں دوسرے کا کوئی حصہ قصدا ظالمانہ طریقے سے کھانے کو مل جائے
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے والے ، رشوت دینے والے دونوں پر لعنت کی ہے ۔ {سنن ابو داود ، سنن الترمذی بروایت عبد اللہ بن عمرو } ۔
رشوت کی ہر وہ صورت حرام اور کبیرہ گناہ ہے جو کسی پر ظلم کرنے ، کسی کا حق مارنے ، حق کو باطل اور باطل کو حق قرار دینے اور کسی ایسے شخص کو کچھ رقم اس غرض سے دی جائے کہ وہ ہمارا کام جلدی اور آسان کردے حالانکہ یہ کام کرنا اس کی ذمہ داری تھی ، حتی کہ اگر مدرس کسی بچے کو اس وقت پاس کر تا ہے جب کہ اسے ہدیہ و تحفہ دیا جائے ، یا کوئی مقرر و واعظ تقریر اچھی اس وقت کرتا ہے جب کہ اس کو نذرانہ پیش کیا جائے تو علماء کے نزدیک یہ بھی رشوت کے حکم میں داخل ہے ، اور لینے اور دینے والے دونوں گنہگار ہیں ، البتہ اگر اپنا جائز حق لینے کے لئے رشوت دینی پڑے ، یا اپنے نفس سے ظلم کو دور کرنے یا اپنی عزت و مال کی حفاظت کے لئے رشوت دینی پڑے تو دینے والے کے لئے تو یہ جائز ہوگا البتہ لینے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب مانا جائے گا ۔
۳۲- جنس مخالف کی مشابہت : اللہ تعالی نے عورت کے اخلاق و عادات اور تصرفات مردوں سے مختلف رکھے ہیں اور مردوں کے مزاج اور چال چلن عورتوں سے جدا رکھے ہیں ،نیز ہر ایک کے لئے ان امور میں ایک حد مقرر کی ہے جس کی پابندی دونوں پر واجب ہے ، اب اگر ان میں سے کوئی اپنی عادت و اخلاق کو چھوڑ کر دوسرے جنس کے عادت و اخلاق کو اپناتا ہے تو اسی کو دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے کا نام دیا جاتا ہے جو از روئے شرع گناہ کبیرہ اور اللہ کی لعنت کاحقدار بنانے والا عمل ہے ، نبی ﷺ کا ارشاد ہے : اللہ تعالی نے لعنت کی ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں اور ان مردوں سے جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں ۔ {صحیح بخاری ، سنن ا بو داود ، بروایت ابن عباس } ۔
ایک اور حدیث میں بیان فرمایا کہ اللہ تعالی اس مرد پر لعنت بھیجتا ہے جو عورتوں کا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت بھیجتا ہے جو مردوں کا لباس پہنتی ہے ۔ { سنن ابو داود بروایت ابو ہریرہ } ۔
بلکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن اس قسم کے لوگوں کی طرف دیکھے گا بھی نہیں ، ارشاد نبوی ہے کہ : تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے اورقیامت کے دن اللہ تعالی ان کی طرف نہ دیکھے گا ، والدین کا نافرمان ، مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت اور دیوث ۔ الحدیث {سنن النسائی ، مسند احمد ، بروایت ابن مسعود } ۔
33- دیوث : "دیوث "اس مرد کے کہتے ہیں جسے اپنے اہل پر غیرت نہ آئے یعنی اس کی بیوی ،ا س کی بہن ، اس کی بیٹی یا اس کے ماتحت اس کی کوئی قریبی عورت فواحش کا علی الاعلان ارتکاب کرے ، جیسے زنا کرے ، غیر مردوں سے آزادانہ تعلق رکھے ، ان سے عام میل جول رکھے اور اس شخص کو اس پر غصہ نہ آئے ، بدقسمتی سے آج اسے تہذیب ، ترقی اور فیشن کا نام دیا جاتا ہے ، ارشاد نبوی ہے : تین قسم کے لوگ وہ ہیں جن پر جنت حرام ہے ، شراب کا عادی ، والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا اور دیوث ۔ {مسند احمد ، سنن النسائی بروایت ابن عمر }۔ یہ عمل اللہ تعالی کے نزدیک اسی قدر قبیح ہے بلکہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کی طرف وہ نظر رحمت سے دیکھے کا بھی نہیں جیسے کہ ابھی حدیث گزری ہے ۔
34- حلالہ کرنا اور کرانا :
نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل عرب میں جو مختلف قسم کے غیر شرعی نکاح رائج تھے ان میں سے ایک نکاح تحلیل بھی تھا جس کی صور ت یہ ہوتی تھی کہ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق مغلظہ دے دیا ہے ، جس کے بعد اسے رجوع کا حق نہیں رہتا تو اس کی مطلقہ بیوی کسی دوسرے مرد سے اس شرط کے ساتھ کچھ مدت کے لئے شادی کرلیتی تھی کہ وہ اسے طلاق دے دیگا تا کہ اپنے پہلے شوہر کے لئے وہ حلال ہوجائے ، اسلام نے اس نکاح کو حرام و زنا قرار دیا اور ایسا نکاح کرنے والے کو مانگے کا یا کرائے کے سانڈ کا نام دیا ہے، کیونکہ ایسا نکاح اولا تو اسلام کے مقصد نکاح کے خلاف ہے ، ثانیا : یہ ایک خسیس اور بے غیرتی کا ہے جسے کوئی بھی شریف شخص مرد ہو یا عورت ، قبول نہیں کرسکتا ، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا : حلالہ کرنے والا اور حلالہ کرانے والا دونوں ملعون ہیں ۔ {سنن ابو داود ، سنن الترمذی ، بروایت علی } ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے کیا میں کرائے کے سانڈ کے متعلق نہ بتاؤں ؟ صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں ضرور بتلائیے ، اے اللہ کے رسول ، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے ، اللہ تعالی نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ {سنن ابن ماجہ بروایت عقبہ بن عامر } ۔
واضح رہے کہ صحابہ کرام کا متفقہ فتوی ہے کہ ایسے نکاح سے عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں تو اس کے بھائی نے بغیر کسی مشورے کہ اس عورت سے نکاح کرلیا تاکہ اسے بھائی کے لئے حلال کردے ، تو کیا وہ عورت اس طرح پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی ؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا : نہیں الا یہ کہ باقاعدہ رغبت سے نکاح کیا گیا ہو ، اس انداز کے نکاح کو ہم رسول ﷺ کے زمانے میں زنا شمار کرتے تھے ۔ {مستدرک الحاکم و الطبرانی الاوسط }