بسم اللہ الرحمن الرحیم
311:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [14]
پیشاب ، ریاکاری ، علم دین چھپانا، خیانت
بتاریخ : 26/ ربیع الآخر 1438 ھ، م 24، جنوری 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
35- پیشاب سے نہ پچنا : انسانوں کا پیشاب ناپاک ہے ، لہذا جگہ، جسم اور کپڑے کے کسی حصے میں لگ جائے تو اس کا صاف کرنا فرض و واجب ہے ، جب تک اسے جسم و کپڑے سے صاف نہ کیا جائے اس وقت تک نہ انسان طاہر مانا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز وغیرہ عبادت قبول ہوگی ، اسی لئے اللہ تعالی نے ہمیں استنجاء کرنے اور طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔”وثیابک فطھر”اور اپنے کپڑے پاک رکھئے ۔
بلکہ شریعت میں پیشاب سے نہ بچنا گناہ کبیرہ ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی بڑی اور مشکل چیز کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے ،یعنی یہ عمل کوئی ایسے کا م نہیں تھے جن پرہیز مشکل ہوتا– ایک شخص تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے : پیشاب سے بچو کیونکہ قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے ہوگا ۔ {سنن دار قطنی بروایت انس }۔ پیشاب سے نہ بچنے میں کئی چیزیں داخل ہیں :۱- استنجا نہ کرنا، 2- پیشاب کرنے کے فورا بعد اٹھ کھڑا ہوا اور نالیوں میں رکے پیشاب کے قطروں کے خوشک ہونے کا انتظار نہ کرنا ۔ 3- بعض لوگ جنہیں پیشاب کے قطرے آنے کی شکایت رہتی ہے ان کا اس بارے میں احتیاط نہ کرنا ۔ ۴- پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے نہ بچنا وغیرہ ۔
۳۶- ریا و نمود : بندوں سے مطالبہ ہے کہ وہ جو بھی کام کریں خاص کر اللہ تعالی کی عبادت کے کام، صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے کریں ، کسی کی طرف سے تعریف ، عوض اور کسی اور کی رضا جوئی مد نظر نہ رہے : وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ، الآیۃ البینہ۔
انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں ، یکسو ہوکر ۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (110) الكهف.
تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہے اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔
جس عبادت میں ریاء و نمود کا مادہ پایا گیا وہ عبادت رائیگاں اور بے کار تصور ہوگی ، حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ” میں دوسرے شریکوں کے مقابلہ میں شریک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں،لہذا جو شخص کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس میں وہ میرے ساتھ کسی کو شریک کرے تو اس کو بھی اور اس کے شرک کو بھی چھوڑ دوں گا "۔ {صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ } ۔
بلکہ ایسے لوگ جو اپنے عمل صالح میں ریاء و نمود سے کام لیتے ہیں ایک گونہ شرک کے مرتک ہو رہے ہیں ، چنانچہ مشہور صحابی حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں ریاء ونمود کو ہم لوگ شرک میں شمار کرتے تھے ۔ {الحاکم و البیہقی } یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن وہ تین قسم کے لوگ جو سب سے پہلے جہنم میں ڈالے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے مال کے خرچ، اپنی طاقت و ہنر کے استعمال اور اپنے علم کے بیان میں ریا ء و نمود سے کام لیتے تھے ۔ {صحیح مسلم ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
37- علم دین کو چھپانا : ہر مکلف پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے ، اتنا علم جس سے وہ اپنے پروردگار کی عبادت صحیح طریقے سے انجام دے سکیں ، اب اگر کسی کو کوئی مسئلہ نہیں معلوم اور وہ کسی سے پوچھتا ہے یا وہ کوئی عمل غلط طریقے سے کررہا ہے تو اس کی صحیح رہنمائی اہل علم کا فریضہ ہے ، لیکن اگر کوئی اس فریضہ میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ سخت وعید کا مستحق ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (159)البقرۃ۔۔۔ جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں درانحالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کو رہنمائی کے لئے کتاب میں بیان کرچکے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی لعنت بھیجتا ہے اور تمام لعنت بھیجنے والے [ فرشتے اور صالحین ] لعنت بھیجتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس سے علم دین کی کوئی بات پوچھی گئی پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کےد ن اس کے منھ میں آگ کی لگام دی جائے گی ۔ {سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، بروایت ابو ہریرہ } ۔ یہ بات یہاں ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اولا : اس سے مراد دینی علم اور حلال و حرام سے متعلق معلومات ہے ، ثانیا :اس سے مراد وہ علم ہے جس کا بیان کرنا واجب ہو جیسے لوگوں کو کسی غلطی پر دیکھا اور اس کی اصلاح نہ کی ، کسی نے کوئی شرعی مسئلہ پوچھا اور اسکا وہ حاجت مند ہےا ور اسے نہ بتلایا ، کسی کو کوئی برا کام کرتے ہوئے دیکھا اور اسے نہ ٹوکا ۔ ثالثا :اس کی قباحت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب علم دین چھپانے کا مقصد برا ہو ، جیسے لوگوں کو خوش کرنا ، کسی کی رضا حاصل کرنا ، کوئی دنیاوی مفاد حاصل کرنا وغیرہ ۔ رابعا : اسے خطرہ ہو کہ اگر میں نے یہاں پر صحیح علم ظاہر کیا تو مجھے ضرر لاحق ہوگا تو اس علم کو چھپانے پر یہ وعید نہیں ہے ، اسی طرح اگر یہ اندازہ ہوجائے کہ پوچھنے والے کا مقصد صرف اندازہ کرنا ہے یا حجت و بحث کرنا ہے اور وہ اس علم کا محتاج نہیں ہے تو اس کا چھپانا یا بتلانا اس حکم میں داخل نہیں ہے 38- خیانت کرنا :خیانت یہ ہے جس چیز کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اسے مکمل طور پر ادا کیا جائے بلکہ اس میں کوتاہی کی جائے، خواہ اسے چھپا کر ہویا اسے ضائع کرکے ، ارشاد باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (27)الانفالاے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول کے حقوق میں جانتے ہوئے خیانت نہ کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوںمیں بھی خیانت مت کرو ۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے” اس کا ایمان نہیں جس کے اندر امانت کی پاسداری نہیں اور اس کا دین نہیں جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں” ۔ {مسند احمد بروایت انس } ۔ واضح رہے کہ اسلام میں امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول کے حقوق وفرائض ہمارے پاس امانت ہیں کسی کا راز ہمارے پاس امانت ہے ، ہمارے اہل و عیال ہمارے پاس امانت ہیں ، کسی کا مال ہمارے پاس امانت ہے ، کسی نے مشورہ کیا تو اس کے مصلحت کی جو چیز ہمیں معلوم ہے وہ امانت ہے ، حتی کہ ہماری جان اور ہمارا جسم ہمارے پاس اللہ تعالی کی امانت ہے ۔۔ الخ ۔
اسی لئے منافق جو صرف ظاہر میں مسلمان رہتا ہے اس کی علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرتاہے ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت عبد اللہ بن عمرو } ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ تعالی کے راستے میں شہادت تمام گناہوں کا کفارہ ہے سوائے امانت [ میں خیانت]کے ، پھر فرمایا: ایک ایسےبندےکو اللہ تعالی کے حضور لایا جائے گا جو اللہ تعالی کے راستے میں شہید ہوا ہوگااور اسے حکم ہوگا کہ تیرے پاس جو امانت رکھی گئی تھی اسے ادا کر، وہ کہے گا:اے میرے رب دنیا تو ختم ہوگئی وہ امانت اب میں کہاں سے لاوں، چنانچہ حکم ہوگا کہ اسے جہنم میں لے جاو، وہ جہنم کے کنارے پہنچے گا تو اسکے سامنے امانت بعینہ اسی شکل میں ظاہر ہوگی جس شکل میں اس کے سپردکی گئی تھی، اسے دیکھ کر وہ پہچان لےگا اور اس کے پیچھے بھاگے گا ، یہاں تک کہ اسے پالیگا ، پھر اپنے کندھے پر لاد کر باہر نکلنا چاہے گا اور جب جہنم کے بالکل کنارے پہنچ کر یہ سمجھ گا کہ اب میں باہر آگیا تو وہ امانت اس کے کندھے سے پھسل کر گر جائیگی، پھر وہ شخص دوبارہ اس کے پیچھے بھاگے گا ، یہی سلسلہ برابر جاری رہے گا ، اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: نماز امانت ہے، وضو امانت ہے، وزن امانت ہے ، ناپ امانت ہے،نیز اس طرح کہ بہت سی چیزوں کا ذکر فرمایا اور آخر میں فرمایا: ان تمام امانتوں میں سب سے اہم چیزامانت رکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ شعب الایمان للبیہقی۔