بسم اللہ الرحمن الرحیم
312:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [15]
احسان جتلانا ،تقدیر کا انکار کرنا ،جاسوسی کرنا
بتاریخ : 03/ جمادی الاول 1438 ھ، م 31، جنوری 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
39– احسان جتلانا:اسکا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کو کوئی چیز بطور صدقہ وہدیہ دی جائے یا اسکے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے یا اسکے لئے کوئی خدمت انجام دی جائے پھر موقعہ ملنے پر اس سے کہا جائے کہ کیا میں نے فلاں موقعہ پر تم پر احسان نہیں کیا تھا ،یا فلاں موقعہ پر میں تمہارے کام نہیں آیا تھا، یا ایک وقت تھا کہ میں تم پر صدقہ کیا کرتا تھا وغیرہ ،یہ اور اس قسم کی تعبیرات جس سے اپنا بڑا پن اور مخاطب کے سامنے اپنی حیثیت ظاہر کرنا ہو تو یہی احسان جتلانا ہے، چونکہ اس میں دو بڑی اہم قباحتیں پائی جاتی ہیں جسکی وجہ سے شریعت میں یہ بہت بڑا گناہ ہے؛
۱۔کوئی بھی عمل خیر جو صرف اللہ کے لئے ہونا چاہئےتھا ، اسکا اظہار اور دنیا ہی میں اس کے اجر کی طلب ہے۔
۲۔مخاطب کو ذلیل کرنا اور اسے ذہنی طور پر ایذا پہنچانا اور شرمندہ کرنا ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا؛يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى البقرۃ؛264۔ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچاکر ضائع نہ کرو۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدقہ (اور اس حکم میں عمل خیرداخل ہے) جس پر احسان جتلایا جائے اسکا اجر وثواب ضائع وبرباد ہوجاتا ہے ،اللہ تعالی کے نزدیک اسکا کوئی اجر نہیں ہے،بلکہ شریعت کی نظر میں یہ اتنا سنگین جرم ہے ایسا کرنے والے کو حشر میں اللہ رب العزت کی نظر رحمت سے محرومی اور جنت میں اسکی نعمتوں سے محرومی کی دھمکی دی گئی ہے۔
ارشاد نبوی ہے؛ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن نہ باتیں کرے گا، نہ انکی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ انکے گناہوں کو معاف فرمائے گا، بلکہ انکے لئے دردناک عذاب ہے، اپنے ازار کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا ،احسان جتلانے والا اور جھوٹ بولکر اپنا سودا بیچنے والا ۔ {صحیح مسلم ،سنن ابو داؤد بروایت ابو ذر}۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے ؛جنت میں والدین کا نافرمان ،احسان جتلانے والا اور شراب کا عادی داخل نہ ہونگے۔{سنن النسائی ،سنن الدارمی بروایت عبداللہ بن عمرو}
40– تقدیر کا منکر :اللہ تعالی ہرچھوٹی بڑی ،ظاہر و پوشیدہ اور ماضی ومستقبل کی چیزوں کا علم رکھتا ہے اور اپنے اس علم کو ایک دفتر میں لکھ کر رکھ لیا ہے، پھر اس دنیا میں جو کچھ ہوا ،جو کچھ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوگا وہ اللہ کی مشیت سے اسی علم باری کے مطابق ہوتا ہے ،یہی چیز تقدیر ہے ،ارشاد باری تعالی ہے ؛إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ (49) القمر بلاشبہ ہم نے ہر چیز کو تقدیر سے پیدا کی ہے۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے؛ اللہ تعالی نے مخلوقات کی تقدیر آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تحریر فرمادی تھی۔{صحیح مسلم بروایت ابن عمرو}
تقدیر پر ایمان بندے کی ایمان کا ایک رکن اور لازمی حصہ ہے جسکے بغیر کسی کا ایمان وعمل اللہ تعالی کے نزدیک مقبول نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے”اور اگر تو احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر ڈالے تو جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لاؤ گے اللہ تعالی اسے قبول نہیں کریگا اور جب تک یہ جان نہ لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا وہ کسی بھی صورت فوت نہیں ہوسکتا تھا اور جو حاصل نہیں ہوا وہ کسی بھی صورت حاصل نہیں ہوسکتا تھا ،اگر تم اس عقیدے کے سوا کسی اور پر مر گئے تو جہنم میں جاؤگے۔{سنن ابو داؤد،مسند احمد ابی بن کعب}
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کی نہ کوئی فرض عبادت قبول ہوگی اور کوئی نفل عبادت 1۔والد کا نافرمان،2۔احسان جتلانے والا اور ،3۔تقدیر کا منکر{ الطبرانی ،السنۃ لابن ابی عاصم بروایت ابی امامۃ}
41– لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانا: ٹوہ لگانے کا معنی یہ ہے جو عیوب لوگ چھپانا چاہیں،یا جو بات اور کام چھپ کرکرنا چاہیں اسے سننے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔
چونکہ اس میں ایک مسلمان کی حق تلفی اور اسکی خصوصیات میں دخل اندازی ہے اور اسکے نتائج بعد میں باہمی عداوت اور بغض ونفرت کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اسلئے اسلام میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے؛وَلَا تَجَسَّسُوا (12) الحجرات۔ اور جاسوسی نہ کرو
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا؛عیبوں کی ٹوہ مت لگاؤ اور جاسوسی مت کرو۔{صحیح البخاری وصحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ}
اس امر کی شدت کو بیان کرتے ہوئے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا؛جو شخص کسی قوم کی باتوں کی طرف کان لگاتا ہے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہیں یا اس سے بھاگتے ہیں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائیگا۔صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت۔۔۔۔
اسی حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ ایک شخص کسی مجلس میں داخل ہوتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں تو اس بات کی ٹوہ میں پڑجائے اور لوگوں سے دریافت کرنے لگے کہ کیا باتیں ہورہی تھیں یا مجھے دیکھکر آپ لوگ کیوں خاموش ہوگئے ،بلکہ علماء کہتے ہیں کہ داخل ہونے والے کو خود ہی اس مجلس سے چلا جانا چاہئے۔ اسکی سب سے بری صورت یہ ہے کہ کسی کو بھیج کر یا کسی سادگی اور بیوقوفی سے فائدہ اٹھا کر اسکے یا اسکے اہل خانہ کے عیوب کا پتا لگایا جائے اور پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگائی جائے،جیسے بچے سے یا گھر کے نوکر سے اہل خانہ کے بارے میں جاسوسی کی جائے۔