سلسلہ کبائر [19] مسلمان کو گالی ، اسبال ازار ، سونے کے برتن / حديث نمبر: 316

بسم اللہ الرحمن الرحیم

316:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [19]

مسلمان کو گالی ،  اسبال ازار ،  سونے کے برتن

بتاریخ : 01/ جمادی الآخر 1438 ھ، م  28، فروی 2017 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

51- مسلمان کو گالی دینا اور اذیت پہنچانا : کسی مسلمان  کو گالی  دینے کا معنی  یہ ہے  کہ اس کے  عیوب کو  برملا  بیان کرنا  اور اسے  نازیبا  الفاظ  سے یاد کرنا ، جس کا  لازمی نتیجہ  ہے کہ  اسے اس   سےتکلیف  پہنچے گی  ، جب کہ  ایک  مسلمان  دوسرے مسلمان  کا  بھائی  ہے اور بھائی  ہونے کا تقاضا  یہ  ہے کہ  وہ اس  کے لئے  خیر خواہ  رہے  ، اس کا بھائی   اپنی عزت  اور  جان و مال  کے بارے میں  اس  سے مطمئن رہے  ، ارشاد باری تعالی ہے  : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ۔ الآیہ الحجرات ۔۔۔  مومن  باہم  بھائی  بھائی  ہیں لہذا  دو بھائیوں  کے   اختلاف  کی صورت میں صلح  کراو ۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے  : ہر مسلمان   پر دوسرے مسلمان  کا خون مال اور عزت حرام ہے ۔ {صحیح مسلم بروایت  ابو ہریرہ } ۔  اسلام میں بد زبانی  اور گالی  و گلوچ  حرام اور فسق ہے ، ارشاد  نبوی ہے  :  مسلمان  کو گالی  دینا فسق  ہے اور اس  سے قتال کرنا کفر ہے ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم  بروایت  ابن مسعود } نیز فرمایا : اللہ تعالی  فحش گو اور بد زبان سے بغض رکھتا ہے  ۔ { سنن ترمذی  ، بروایت  ابو درداء } ۔

پھر یہ  گالی جس قدر  قبیح  اور  اثر کے لحاظ سے جس قدر  بری ہوگی  اس  کا  گناہ  بھی اتنا  ہی بڑا  ہوگا ، چنانچہ سب سے  بڑا عیب  اور   قبیح  فعل  کفر ہے ، اس سے متعلق   ارشاد  نبوی ہے  : جو شخص  کسی کو کافر  کہہ کر یا  اللہ کا دشمن  کہہ کر  بلاتاہے اور  وہ شخص  ویسا نہیں ہے  تو اسکا  اثر  کہنے  والے کی طرف پلٹ جاتا ہے ۔ { صحیح بخاری  وصحیح مسلم بروایت  انس }۔

نیز نبی ﷺ نے ارشاد  فرمایا  کہ بڑے  سے بڑا  گناہ  یہ ہے  کہ کوئی شخص  اپنے  والدین  کو گالی  دے ،  عرض  کیا گیا  کہ اے  اللہ کے رسول  کوئی  اپنے  والدین  کو کیسے  گالی  دے سکتا ہے ؟ آپ  نے فرمایا  : کوئی  کسی کے   باپ  کو گالی  دیتا  ہے تو  وہ  پلٹ  کر اس کے  باپ  کو گالی دیتا ہے  اور کوئی  کسی کی  ماں کو گالی دیتا ہے تو پلٹ  کر وہ  اس کی ماں  کو گالی دیتا ہے ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت  ابن عمرو } ۔

اسی طرح  جس مسلمان  کو گالی  دی جارہی  ہے وہ اپنے  ایمان  و تقوی  میں جس قدر  زیادہ  ہوگا اس  کو گالی  دینا  بھی  اسی قدر  بڑا  جرام  ہوگا ، جیسے  صحابہ  کرام  کو  گالی  دینا  اور  ان کے  عیوب  کو بیان  کرنا ، نیز  اللہ تعالی  کے ولیوں  کو برا بھلا  کہنا  اور ان کے عیوب  کو برملا  بیان کرنا    اللہ اور اس کے رسول  کی ناراضگی  کا سبب اور ان  کے ساتھ   اعلان  جنگ کاہم معنی ہے ، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان   ہے :  جو میرے  کسی ولی  سے دشمنی کرنا  ہے اس کے ساتھ    میرا  اعلان جنگ ہے ۔ { صحیح بخاری  بروایت  ابو ہریرہ } نیز نبی کریم ﷺنے فرمایا: جو میرے  صحابہ  کو  برا  بھلا  کہتا ہے اس پر  اللہ تعالی  کی لعنت  ہے ، فرشتوں  کی  لعنت ہے اور تمام  لوگوں  کی لعنت  ہے ۔ { صحیح  الجامع  الصغیر  ، بروایت  ابن عباس } ۔

52- تکبر سے  کپڑا  ٹخنے  سے نیچے  لٹکانا :  تہبند ، شلوار  ، پینٹ  اور جبہ وغیرہ  کو ٹخنے  سے نیچے  رکھنے  کو  ” اسبال ”  کہتے ہیں اور ٹخنے  سے نیچے  اس قدر  لٹکایا  جائے کہ زمین  سے چھو جائے   تو اسے "جر الثوب”  یعنی  کپڑا  گھسیٹنا  کہتے ہیں ۔

یہ دونوں  چیزیں  شریعت  کی نظر  میں ممنوع  ہیں، اور  اگر اس  کے ساتھ ساتھ  کبر و غرو  کا جذبہ  پایا جائے تو یہ نہایت   ہی قبیح  فعل ہے ، ارشاد نبوی ہے  : مسلمان  کا تہہ بند آدھی  پنڈلی  تک ہوتا ہے ، آدھی  پنڈلی  سے  ٹخنوں  تک کے  مابین  کوئی  حرج نہیں ، اور جو ٹخنوں  سے نیچے   ہو وہ  آگ  میں ہے  اور جس نے تکبر سے اپنا  تہہ بند  گھسیٹا  اللہ تعالی  [ قیامت کے دن ]  اس کی طرف  نہیں دیکھے  گا ۔ { سنن ابو داود  ، ابن ماجہ  ، مسند احمد ، بروایت  ابو سعید  } ۔

ایک اور حدیث  میں بیان فرمایا   : اسبال  [ کپڑا لٹکانا ]  تہہ  بند ، قمیص   اور   پگڑی سبھی میں  [ ممنوع ] ہے ، اور جس  نے تکبر  سے اس  میں  سے کچھ  بھی لٹکایا  تو قیامت   کے دن  اللہ تعالی  اس کی طرف  نظر نہیں کرے گا ۔ {ابو داود  ، ابن ماجہ ، بروایت  ابن عمر } ۔

بعض  لوگ ٹخنے   سے نیچے  اپنے  لباس  رکھنے کو  برا نہیں سمجھتے  اور یہ کہتے ہیں  کہ ہم  ایسا تکبر  سے نہیں  کر رہے ہیں ،  حالانکہ  ان کا یہ عذر  خود  فریبی  سے زیادہ  اور کچھ نہیں ہے  ،کیونکہ  شریعت   میں  ٹخنے  س نیچے  کپڑا  رکھنےکونا جائز ، جہنم میں  جانے کا سبب  اور  کبر کی علامت  قرار دیا گیا  ہے اور  اس سے  سختی سے منع  کیا گیا ہے  ، حضرت  جابر  بن سلیم  رضی اللہ عنہ  بیان  کرتے ہیں  کہ  نبی ﷺ نے مجھ  سے فرمایا  : ٹخنوں  سے  نیچے  تہ  بند لٹکانے  سے بچنا   کیونکہ   بلاشبہ  یہ تکبر ہے اور اللہ تعالی  تکبر کو پسند نہیں کرتا ۔ {سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، مسند احمد } ۔  بلکہ   شریعت  کی نظر میں یہ اتنا  بڑا جرم  ہے کہ اللہ تعالی  ایسے شخص  کی نماز  قبول  نہیں کرتا  ، ارشاد  نبوی ہے  :جس نے  نماز  میں تکبر  کرتے ہوئے  اپنا  تہبند  ٹخنوں  سے نیچے  لٹکایا  اللہ کے نزدیک  وہ حلال  و حرام  کسی چیز  میں نہیں  ہے ۔ {سنن ابوداود  ، بروایت  ابن مسعود  }، یعنی  اللہ تعالی  نہ اس کے گناہ  معاف فرمائے  گا  اور نہ برے  کاموں  سے بچائے گا ۔

53- سونے  اور چاندی  کے  برتنوں میں کھانا  پینا :  سونے اور چاندی  کے برتنوں میں  کھانا  اور پینا  ، تکبر کی علامت  ، فضول خرچی  اور غریبوں کے حقوق  مارے  جانے کا سبب ہے  ،اس لئے  اسلام  نے اسے  حرام  قرار دیا ہے،  بلکہ  اس کے  استعمال  پر سخت  وعید  سنائی ہے  ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے  جو شخص  چاندی  کے برتن   میں  پیتا ہے وہ اپنے  پیٹ میں  جہنم  کی آگ  گٹ گٹ ڈال  رہا ہے ۔ { صحیح بخاری  وصحیح مسلم  ، بروایت  ام سلمہ  } ۔

حضرت  حذیفہ  بیان کرتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ  نے سونے  اور چاندی  کے برتنوں  میں  پینے اور کھانے  سے  منع فرمایا  اور فرمایا کہ یہ دنیا   میں کافروں  کے  لئے  ہیں اور آخرت میں تمہارے  لئے ۔ {صحیح بخاری  ، صحیح مسلم  ، مسند احمد  } یعنی  جو شخص سونے اور چاندی کے برتنوں کو   دنیا میں  کھانے  اور پینے  کے لئے  استعمال  کرے گا وہ  آخرت میں  ان سے  محروم رہے گا ۔

ٹوٹ :  ۱- کھانے  پینے کی  برتنوں  پرہر اس چیز  کو قیاس کیا جائے گا  جن کا  استعمال  برتنوں  کے ساتھ ہوتا ہے   ، جیسے  چمچہ  وغیرہ ۔

۲-  کھانے  پینے  پر  جمہور  علماء نے  دیگر  استعمال کی چیزوں  کو بھی قیاس  کیا ہے  جیسے  سرمہ دانی ، وضو کا برتن یا اس  قسم کے اوردیگر استعمالات ۔ واللہ اعلم ۔