سلسلہ کبائر [20] مرد ریشم پہنے ، غلام کا بھاگنا ، غیر اللہ پر ذبیحہ / حديث نمبر: 317

بسم اللہ الرحمن الرحیم

317:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [20]

مرد ریشم پہنے ، غلام کا بھاگنا ، غیر اللہ پر ذبیحہ

بتاریخ : 09/ جمادی الآخر 1438 ھ، م  07، مارچ 2017 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

54- مردوں کا ریشم اور سونا پہننا : ریشم اور سونا  دو معروف چیزیں ہیں ، دونوں  میں معنی قدرے مشترک ہے کہ  دونوں  استعمال  کی جانے  والی چیزوں میں  عمدہ  اور قیمتی  ہیں اور  دونوں  کا استعمال  بطور  زینت  کے ہوتا  ہے  ، ریشم  بطور  لباس کے استعمال  ہوتا ہے اور  سونا بطور  زیور  کے۔ اللہ  احکم الحاکمین  نے کسی  بڑی حکمت  کے تحت  مردوں  کے لئے  ان دونوں  کا استعمال  ناجائز  اور عورتوں  کے لئے  حلال  قرار دیا ہے،  حضرت  علی رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ  اللہ کے نبی ﷺ نے ریشم  لیا اور اپنے دائیں  ہاتھ  میں پکڑا اور سونا لیا اور اپنے بائیں  ہاتھ میں پکڑا  ، پھر فرمایا : بلا شبہ  یہ دونوں  میری امت  کے مردوں پر حرام ہیں ۔ {سنن ابو داود ، سنن النسائی } ایک دوسری حدیث  میں ہے کہ سونے  اور ریشم  کا پہننا  میری  امت کے  مردوں پر حرام  اور ان کی عورتوں  کے لئے حلال  ہے ۔ {سنن ترمذی ، بروایت  ابو موسی } ۔

ایک تیسری  حدیث میں ارشاد نبوی  ہے ، جو  شخص  دنیا میں ریشم  پہنے  گا وہ  آخرت میں اس  سے محروم  کردیا جائے گا ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم  بروایت  عمر }

گویا  ایسا شخص   جنت میں داخل ہی نہ ہوگا  اور یہ  وہ بہت بڑی وعید ہے جس کی  وجہ سے  علماء  نے اسے کبائر  میں شمار کیا ہے ۔

دو ملاحظے : [۱] یہاں ریشم سے مراد وہ ریشم ہے جو ریشم  کی کیڑے سے طیار کیا   جاتا ہے ، البتہ  وہ ریشم  جو بعض  دیگر  نباتی  مادوں سے بنایا  جاتا  ہے اور اسے  مصنوعی  ریشم  کہتے  ہیں اس   حکم میں داخل  نہیں  ہے کیونکہ  اولا اسے  ریشم  مجازا کہا جارہا ہے، وہ حقیقی  ریشم  نہیں ہے  ، ثانیا اللہ  اور اس کے  رسول  نے جس ریشم  کو حرام  بتلایا  ہے وہ اصلی  ریشم ہے   ، البتہ  وہ مصنوعی ریشم  اگر  اس قدر نرم  و ملائم ہو  جیسے عورتوں  کے کپڑے ہوتے ہیں تو مردوں کے لئے ان کا استعمال مناسب نہیں ہے تاکہ مشابہت  سے بچ جائیں  ، واللہ اعلم ۔ {الشرح الممتع : 2/211} ۔

[۲] اگر  خالص  ریشم  نہ ہو بلکہ  کاٹن وغیرہ میں  ریشم کی ملاوٹ  ہو اور  ریشم  کی مقدار  کم ہو یا کوئی  ضرورت  درپیش  ہو تو  ریشم  کا استعمال  مردوں  کے لئے  جائز  ہے ،  حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  نے ایک بار حضرت  عتبہ  بن فرقد کو لکھا  کہ نبیﷺ  نے ریشم  پہننے  سے منع فرمایا  ہے ، الا یہ کہ  اس قدر  ہو یعنی  دو ، تین اور چار  انگلی کے برابر ۔ {صحیح بخاری  و صحیح مسلم } ۔

55- غلام کا بھاگنا :  غلام سے مراد  وہ شخص  ہے جو غلامی  کی زنجیر  میں جکڑا ہوا  ہو اور  اسے  خریدا  اور بیچا  جارہا  ہو ، اسی حکم میں وہ  عورت  بھی  ہے جسے باندی  یا لونڈی  کہتے ہیں  ۔ایسے شخص کو  اگر کوئی  خرید کر لاتا ہے تاکہ  اس سے خدمت  لےپھر  وہ اپنے  مالک  سے بغاوت  کرکے  بھاگ  جاتا  ہے تو بہت  بڑے گناہ کا ارتکاب  کررہا ہے ، کیونکہ  اس میں  مالک  کی نافرمانی،  عہد  کا توڑنا  اور ناشکری  پائی  جاتی  ہے ، چنانچہ  نبی ﷺ  نے ارشاد فرمایا  :  جو غلام  اپنے آقاوں سے  بھاگا  اس نے  کفر کیا  [ناشکری کی ] یہاں تک  کہ وہ  واپس آجائے ۔ {صحیح مسلم و سنن النسائی  بروایت  جریر  بن عبد اللہ }

ایک اور  روایت  میں ہے  کہ جو غلام  اپنے آقا سے  بھاگا  اس پر  سے  اسلام  کا ذمہ و عہد  اٹھ گیا ۔ {صحیح مسلم } نیز  ایک  تیسری  روایت  ہے کہ جب  غلام  بھاگ  جائے تو اس کی نماز  قبول  نہیں کی جاتی ۔ {صحیح مسلم } گویا  وہ غلام  جو ا پنے  آقا سے بھاگ  کر کہیں  اور چلا جارہا ہے اسے تین  وعیدوں  کا سامنا  ہے : ۱- کفر یعنی  مالک کی ناشکری  کا اور  اگر  یہی بھاگنا  دیار اسلام  سے دیار کفر  کی طرف  ہوتو کفر حقیقی  کا خطرہ ہے ۔ ۲- اسلام  کا عہد  و ذمہ اس پر اٹھ چکا ہے ۔ ۳- اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔  واضح رہے کہ  اس حکم  میں عاملوں کا   اپنے کفیلوں  سے بھاگنا داخل نہیں ہے ، البتہ  ایسا کرنا  بھی گناہ ہوگا ، کیونکہ  اس میں  بھی عہد  کا توڑنا ، دھوکہ  اور اسلامی حکومت  کے نظام  کی خلاف ورزی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

56-  غیر اللہ  کے نام  پر ذبح کرنا :  ذبح کرنا  ایک عباد ت ہے جو صرف  اللہ کے نام  اور اللہ  ہی کے لئے  کی جاسکتی ہے ، اگر  اس کا  مقصد  کسی اور  کی رضا مندی  ، اس کا تقرب  اور اس کی ناراضگی  کا خوف  ہوگا  تو یہی چیز  شرک میں داخل  ہوگی   ، ارشاد باری تعالی ہے  : قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162)الانعام

آپ کہہ دیجئے  کہ میری نماز ، میری قربانی  ،  میرا جینا اور میرا مرنا   سب کچھ  اللہ رب العالمین  کے لئے  ہے ،۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے ، اللہ کی لعنت  ہو اس شخص  پر جو  غیر اللہ  کے نام  پر ذبح کرتا ہے ۔ صحیح مسلم ، سنن ابوداود  بروایت علی بن ابی طالب

یہ غیر  کوئی بھی ہو  ، خواہ  کوئی  نبی ہو ، ولی ہو ،  زندہ  ہو یا مردہ  ہو ،  کوئی  جن ہو یا  انسان ہو، یہ   تمام صورتیں  اس حکم میں داخل ہیں،  اسی طرح  ذبیحہ   کسی بڑے  جانور کا ہو یا  کسی چھوٹے  سے چھوٹے  جانورکا  ، کوئی  ایسا جانور  ذبح کیا جائے  جس کا  کھانا  جائز  ہے   یا  ایسا جانور  ذبح کیا جائے  جس کا  کھانا  جائز  نہیں ہے ، سبھی اس  حکم میں  آئیں گے  ، یعنی ایسا ذبیحہ  حرام ہوگا  اور ذبح  کرنے والا  شرک کا مرتکب  ہوگا ۔

بلکہ  اسلام  میں تو  اس معملہ اس قدر شدت   ہے کہ  اگر کسی جگہ  پر  غیر اللہ  کے نام پر  جانور ذبح کیا جاتا  تھا  تو  وہاں اللہ تعالی کی رضا کے لئے  بھی کوئی  جانور ذبح نہ کیا جائے گا ، کیونکہ اس سے اس جگہ کی تعظیم کا شبہ ہوتا ہے الا یہ اس کی کیفیت مکمل طور بدل گئی ہو،چنانچہ  سنن ابو داود وغیرہ  میں حضرت  ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ  : ایک شخص نے بوانہ   نامی کسی مقام پر اونٹ  ذبح  کرنے کی نذر مانی  ، پھر نبی ﷺ سے اس بابت  سوال کیا  تو آپ ﷺ نے فرمایا  : کیا  وہاں  کبھی  دور جاہلیت  میں پوجے جانے   والے  بتوں  میں سے  کوئی بت  رہا  ؟ صحابہ نے عرض کیا  : نہیں ، آپ  ﷺ نے فرمایا  : کیا وہاں  کبھی  کسی  میلے  یا عرس  کا انعقاد  ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا  : نہیں ،  تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اب تم اپنی نذر  پوری کرسکتے  ہو ، بے شک اللہ  تعالی کی نافرمانی  میں نذر پوری کرنا  جائز نہیں ، اور نہ   ہی  اس چیز  میں جو  ابن  آدم کی ملکیت  میں نہ ہو  ۔ { سنن ابو داود }