سلسلہ کبائر [21] نسبت غیر ، پانی روکنا ، ناپ تول میں کمی / حديث نمبر: 318

بسم اللہ الرحمن الرحیم

318:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [21]

نسبت غیر ، پانی روکنا ، ناپ تول میں کمی

بتاریخ : 15/ جمادی الآخر 1438 ھ، م  14، مارچ 2017 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

57- اپنی نسبت کسی اور کی طرف کرنا : اسلام میں نسب ، والد  اور خاندان  کا ایک مقام ہے ، اسی  بنیاد پر  صلہ رحمی ،  میراث، دیت  اور شادی  وغیرہ  میں  محرمیت  کا مسئلہ  حل کیا جاتا ہے  ، اس لئے  شریعت  میں اپنے  باپ ،  خاندان  یا قومیت  وغیرہ  کو بدلنا  حرام قرار دیا  گیا ہے  ، بلکہ  علماء  نے اسے  کبائر  الذنوب  میں شمار کیا ہے ،  چنانچہ  ارشاد  نبوی ہے  جس نے  اپنے آپ کو کسی  اور کا بیٹا  بنایا  جب کہ  وہ جانتا  ہو کہ  یہ  [دوسرا]اس  کا  باپ نہیں ہے  تو جنت  اس  پر حرام  ہے  ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم ، بروایت  سعد بن ابی وقاص }، نیز فرمایا : لوگو ! اپنے باپ دادا [اپنے خاندان ] سے اعراض  نہ کرو،  اس لئے کہ جس شخص  نے اپنے  باپ سے اعراض کیا تو یہ کفر ہے  ۔ {صحیح بخاری  ومسلم  بروایت  ابی ہریرہ ،}مزید یہ کہ  ایسا کرنے  والے پر رسول  اللہ ﷺ نے لعنت  بھیجی ہے ۔ {سنن ابو داود ، بروایت  انس } ۔ اہل علم کہتے ہیں کہ اگر  کوئی شخص   اس کی  حرمت  کو جانتے  ہوئے  محض عناد  کے طور پر  ایسا کرتا  ہے تو یہ کفر  ہے جس سے  اس کے دین  کو خطرہ  ہے  لیکن  اگر اس کی  حرمت  پر  ایمان  رکھتا  ہے لیکن کسی  دنیاوی مقصد  کے حصول  کے لئے  ایسا کرتا ہے تو یہ کبیرہ  گناہ ہے  جس  کے مرتکب  پر جہنم  کی وعید  وارد ہے ۔  آج ہمارے   یہاں  ایک غلط  رواج  یہ چل  چکا ہے کہ عورتیں  شادی کے بعد اپنی  نسبت  اپنے باپ  اور خاندان سے ہٹا کر  اپنے شوہر  اور  شوہر  کے خاندان  کی طرف  کرتی  ہیں  جو بلا شبہ  ناجائز  اور حرام  ہے اور  بہت ممکن  ہے کہ  اس کا بھی حکم  کبیرہ  گناہ  کا ہو  ،کیونکہ  اس میں کئی  خرابیاں  ہیں :

[۱] ایسا کرنا   اسلامی  طریقے  اور شرعی  حکم کے خلاف ہے ، ارشاد  باری تعالی ہے : ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ۔ الآیۃ الاحزاب۔

ان {منہ بولے بیٹوں  کو } ان کے  باپوں  کے نام  سے پکارا کرو  ، اللہ  تعالی  کے یہاں یہی  انصاف کی بات ہے ۔  گویا کسی کو  جانتے  ہوئے اس کے باپ  کے علاوہ کسی اور  کی طرف  نسبت  کرکے  پکارنا  انصاف کے خلاف ہے ۔ [۲] غیر قوم کی مشابہت ہے ، کیونکہ  یہ طریقہ  لوگوں  نے  مغرب  کی ملحدانہ  تہذیب  سے متاثر   ہوکر  اپنایا ہے ۔ [۳] اس میں  عورت کی توہین  ہے اور اس کی شخصیت کو قتل  کرنا ہے ، چنانچہ  آج اس کی نسبت  اس کے باپ  کی طرف ہے  ، کل شادی کے بعد  اس کے شوہر  کی طرف  ہے  ، پرسوں  طلاق کے بعد پھر باپ کی طرف لوٹے گی  یا بغیر  کسی نسبت  کے رہے گی  ، پھر  چند دن کے بعد کسی  اور  سے شادی  ہوئی تو اس کی نسبت  اس کی طرف  ہوجائے گی ۔   اس قسم  کی متعدد  خرابیوں  کے پیش  نظر سعودیہ  عرب  کے فتوی کمیٹی  کا متفقہ  فتوی ہے کہ ایسا کرنا  ناجائز اور گناہ کبیر ہے ۔ {ج 20، ص:378}۔

58-  اپنی حاجت  سے زائد پانی روکنا :  اس سے مراد   وہ پانی ہے  جو صحراوں  ، عام چراگاہوں  ، ندیوں اور تالابوں  کا پانی  ہے جو کسی  شخص  کی نہ ملکیت  ہے اور نہ ہی کسی کے حدود ہے ، یہ پانی چونکہ  اللہ تعالی کا نازل کردہ  ہے لہذا  اس پر کسی  کا حق خاص نہیں ہے  ، ہر شخص  جو وہاں  پہنچ  سکتا ہے اس سے مستفید ہونے کا مکمل  حق  رکھتا ہے  ، کسی  کے لئے  جائز نہیں ہے  کہ ایسی جگہوں  پر قبضہ  جما کر  بیٹھ  جائے  اور دوسروں  کو  اس سے  مستفید   نہ ہونے دے ، یا پھر منھ  مانگی  قیمت پر بیچے  ، ارشاد نبوی ہے:  مسلمان تین چیزوں  میں ایک  دوسرے کے شریک ہیں : ۱- گھاس ، ۲- پانی ، ۳- آگ  ۔ {سنن ابوداود  ، مسند احمد } ۔

اب  اگر کوئی  شخص  اس عام  حق  میں دخل  اندازی  کرتا ہے  یا خود  اس پر قابض  ہوجا رہا ہے  تو اللہ تعالی  کے نزدیک  سخت وعید  کا مستحق  ٹھہر رہا ہے ، ارشاد نبوی ہے  : تین قسم کے  آدمیوں  سے اللہ عزو جل  قیامت  کے روز انکی طرف دیکھے گا اور نہ ان سے  کلام  کرے گا  ، ایک وہ آدمی  جس نے  مسافر  سے میدان  میں  بقیہ  پانی روک لیا  ہو ، دوسرا  وہ  جو عصر کے بعد کسی سودے  پر جھوٹی قسم کھا کر  بیچا ہو ، تیسرا  وہ  شخص  جس نے  امام  وقت  سے بیعت  کی ہو  ، اگر وہ  اسے  دنیا کا مال  دیتا ہے تو اس  کا وفادار   رہا  اور  اگر  نہ دیا  تو عہد  کو توڑ دے ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم  ، بروایت  ابو ہریرہ } ۔ بلکہ  اسی حدیث  میں مزید یہ بھی وارد ہے کہ اللہ تعالی  قیامت  کے دن اس  سے  کہے گا: آج کے دن  تجھ  سے میں اپنا فضل روک  لیتا ہوں جس طرح تو نے  دنیا میں میرا دیا ہوا وہ فضل روکا  تھا  جسے تیرے ہاتھوں  نے نہیں کمایا تھا ۔ {صحیح بخاری : 2369 } ۔ واضح  رہے کہ اس میں  وہ پانی  داخل  نہیں  ہے جس کے حصول کے لئے  انسان  کو شش کرتا اور آلات  وغیرہ  استعمال  کرتا ہے ،جیسے کنویں  ، تالاب  اور  ٹیوب  ویل  وغیرہ  کا پانی  ،یا  وہ  پانی تو عام ہی   ہے لیکن  اسے جمع  کرکے  اس کی صفائی  وغیرہ  کا کام کرتا ہے ، بلکہ  اس سے مراد  وہ پانی  اور گھاس  وغیرہ  ہے جو  چرا گاہ  اور صحراء میں قدرتی  ہوں تو  خود قابض  ہوکر  دوسروں  کو  ان سے  روکنا جائز نہیں ہے ۔

59- ناپ تول میں کمی  کرنا :  ارشاد باری تعالی ہے : وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3) أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (4) لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (5) يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (6)

ڈنڈی مارنے  والوں کے لئے  ہلاکت  ہے ، یہ وہ لوگ  ہیں کہ  جب خود   ماپ کر تے  ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب  دوسروں کو ماپ  کر   دیتے ہیں  تو گھٹا  کر  دیتے  ہیں ، کیا  وہ یہ خیال  نہیں کرتے  کہ وہ اٹھائے  جانے  والے ہیں ، ایک بڑے  دن کے لئے،  جس دن  سب لوگ اپنے  پروردگار  کے حضور  کھڑے  ہوں گے ۔

ناپ تول میں کمی  وہ اخلاقی  برائی  ہے جس میں کئی  برائیاں  جمع ہوجاتی ہیں،  جیسے  چوری ، خیانت ، دھوکہ اور لوگوں  کا مال  باطل  طریقے  سے کھانا ، اس لئے  اسے ربانی  شریعت  میں حرام  اور بہت  بڑا جرم  قرار دیا  گیا ہے  ،  قوم شعیب  میں شرک  کے علاوہ  جو سب سے  بڑی اخلاقی  برائی  پیدا ہوگئی تھی  وہ ناپ تول  میں کمی  کی برائی  تھی  ، جس کی اصلاح  حضرت شعیب  علیہ السلام  نے خصوصی  توجہ دلائی  اور اسے زمین  میں فساد قرار دیا  :  أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ (181) وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ (182) وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (183) ناپ پورا  بھرا کرو،  کم  دینے  والوں  میں نہ  بنو ، اور سیدھی  صحیح  ترازو  سے تولا  کرو  ، لوگوں  کو ان کی  چیزیں  کمی سے  نہ  دو ، بے باکی  کے ساتھ  زمین  میں فساد  مچاتے نہ پھرو ۔

لیکن  جب قوم  نے نہیں سنا  تو ان پر  تین قسم کے عذاب  ایک ساتھ  آئے  ، زلزلہ ، زور کی چیخ اور آسمان سے ٹکڑے گرائے گئے ۔ اسی حکم میں ہر وہ دھوکہ  داخل  ہے جو خرید وفروخت کے موقعہ  پر کسی بھی  سودے کے  حقیقت  کے خلاف  ظاہر  کرکے  بیچا جاتا ہے  ، جیسا کہ آج مارکٹ کا عام  حال ہے ، ارشاد نبوی ہے  : "من غش فلیس منا ” {صحیح مسلم  بروایت  ابو ہریرہ } جو [خرید و فروخت میں] دھوکہ  دے وہ  ہم  میں سے نہیں ہے ۔