بسم اللہ الرحمن الرحیم
321:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [24]
حرم میں الحاد ،رحمت الہی سے مایوسی ، اشارہ ہتھیار
بتاریخ : 14/ رجب 1438 ھ، م 11، اپریل 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
66- حدود حرم میں الحاد :”الحاد” کا معنی ہے ایک طرف مائل ہونا ، سیدھی راہ سے ہٹ جانا ، شریعت سے دور ہونا ،حرم میں الحاد سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے گھر اور اس کے ارد گرد کا جو علاقہ حرمت والا قرار دیا گیا ہے وہاں کوئی ایسا کام کیا جائے جو شریعت کے خلاف ہے حتی کہ بعض وہ کام جو دیگر جگہوں پر حلال ہیں لیکن حدود حرام میں ان کا بھی ارتکاب حلال نہیں ہے، جیسے شکار کرنا ، حدود حرم کے خود رو پودوں کو اکھاڑنا اور وہاں کے درخت کاٹنا ، وہاں کی پڑی ہوئی چیزوں کا اٹھانا، الا یہ کہ مالک تک پہنچانے کا ارادہ ہو ، اسی طرح بلا ضرورت ہتھیار اٹھانا وغیرہ ، گویا کسی بھی گناہ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا حدود حرم میں ان کا ارتکاب نی صرف نا جائز بلکہ دیگر مقام پر ان کے ارتکاب کے مقابلہ میں بہت بڑا ہے،حتی کہ علماء کا کہنا ہے کہ صغیرہ گناہ بھی حدود حرم میں کبیرہ کا مقام رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (25)الحج۔اور جو کوئی از راہ ظلم مسجد حرام میں کجروی اختیار کرنے کا ارادہ کرے گا اسے ہم دردناک عذاب چکھائیں گے ۔ بلکہ اس آیت کے ظاہر سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم میں کسی گناہ کے کام کاعزم بھی کرتا ہے تو اس پر بھی وہ دردناک عذاب کا مستحق ٹھہررہا ہے ۔ ایک حدیث میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے : لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ تعالی کے نزدیک تین قسم کے لوگ ہیں : ۱- حرم میں الحاد کرنے والا ۔ ۲- اسلام میں جاہلیت کی کسی سنت کو رواج دینے والا ۔ ۳- کسی مسلمان کے نا حق قتل کی کو شش کرنے والا ۔ {صحیح بخاری بروایت ابن عباس } ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے مین سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :وہ نو ہیں ۔۔۔ ان کا شمار کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمان ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور بیت اللہ الحرام کی بے حرمتی کرنا جو جیتے مرتے تمہارا قبلہ ہے ۔ {سنن ابو داود بروایت عمیر اللیثی }
خلاصہ یہ ہے کہ حدودو حرم میں کسی بھی چھوٹے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنا خاص کر شرک وبدعت اور وہ گناہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو کبائر میں داخل ہیں ، جیسے لوگوں سے جھگڑنا ، انہیں بے عزت کرنا ، چوری کرنا ، لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھانا وغیرہ ۔
67- اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا :
ایک مومن سے مطالبہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن رکھے اور اس کی رحمت سے کبھی بھی مایوس و نا امید نہ ہو ، کیونکہ اللہ تعالی رحیم و رحمان ہے اور اس کی خصوصی رحمت اپنے مومن بندوں کے لئے ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (156)الاعراف۔ اور میری رحمت تمام اشیاء کو محیط ہے ، تو وہ رحمت ان لوگوں کے لئے ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔
لہذا ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی خواہ اس پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹیں اور خواہ دشمن چاروں طرف سے اس کو گھیر لیں لیکن اللہ کی رحمت و مدد سے امید کا دامن اس سے کبھی بھی نہ چھوٹنے نہ پائے اور مایوسی اس کے قریب نہ آنے پائے، کیونکہ ایسا کرنا گویا اللہ تعالی کی قدرت پر اعتراض اور اس کی شان رحیمیت و رحمانیت میں شک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی صفت بیان ہوئی اور آخری دم تک اللہ کی رحمت کی امید مومنوں کی صفت بیان ہوئی ہے ، چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے جدا ہوئے سالہا سال گزر چکے تھے، ان کے غم میں روتے روتے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی بھی جا چکی تھی ، اس پر مزید یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا بھائی بھی جدا ہو چکا تھا بظاہر حضرت یوسف کے وجود کے کوئی آثار نہ تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید ی نہیں ہوئی بلکہ اپنے بچوں سے کہا : يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (87)یوسف۔ میرے پیارے بچو ! تم جاو اور یوسف کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ، یقینا اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔ متعدد حدیثوں میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوسی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : [ کبیرہ گناہ یہ ہیں ] اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، اللہ کی رحمت سے نا امید ہونا اور اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہونا ۔ {مسند البزار } ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ درج ذیل ہیں ، اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی تدبیر اور چال سے غافل رہنا ، اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید ہونا اور اللہ کے فضل سے مایوس ہونا ۔ {مصنف عبد الرزاق ، الطبرانی الکبیر } ۔
68- اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی اور خیر خواہ ہوتا ہے ، ایک مسلمان ہر جگہ و لمحہ اپنے بھائی کے لئے امن وسلامتی کا گہوارہ ہوتا ہے، لہذا کسی بھی صورت میں اسے ڈرانا اور اسے خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اس کےلئےجائز نہیں ، بلکہ جو چیز اس کا سبب بھی بنے اس سے بھی روکا گیا ہے ، اسی لئے مذاق میں بھی کسی کو خوفزدہ کرنے سے روکا گیا ہے ، ارشاد نبوی ہے : کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے ۔ {سنن ابود اود ، مسند احمد } ۔
بلکہ بعض حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اس ڈرانے میں اگر مسلمان کے لئے سخت اذیت پہنچے یا اس کی جان کے جانے کا خطرہ ہو تو یہ کام حرام اور کبیرہ گناہ میں شمار ہوگا ، ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ "جس نے اپنے بھائی کی طرف دھار دار آلے سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ، حتی کہ اگر چہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہو” ۔ {صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ } ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے ، اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے چلوا دے ، پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے ۔ {صحیح بخاری و مسلم بروایت ابو ہریرہ } اسی حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جس سے لا اختیاری طور پر خطرہ میں پڑنے کا ڈر ہو، جیسے بڑے پتھر سے مارنے کا اشارہ ، کسی اونچی جگہ سے گرانے کی دھمکی وغیرہ ۔۔