بسم اللہ الرحمن الرحیم
322:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر 25]
نشانات زمین مٹانا ، طعنہ نسب ، وصیت سے نقصان
بتاریخ : 21/ رجب 1438 ھ، م 18/، اپریل 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
69- زمین کے نشانات مٹانا :نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو اپنے باپ کو لعنت کرتا ہے ، اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرتا ہے ، اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو کسی بدعتی کو پناہ دیتا ہے اور اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو زمین کی علامات کو تبدیل کردیتا ہے ۔ {صحیح مسلم ، النسائی بروایت علی }۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ من جملہ کئی لوگوں کے ایک وہ شخص بھی اللہ کی لعنت کا مستحق ہے جو زمین کی علامات اور نشانات میں تبدیلی کرتا ہے ۔ زمین کی علامات مٹانے کا معنی کیا ہے اس کی دو اہم توجیہیں اہل علم کے یہاں معروف ہیں ۔
[۱] اس سے مراد زمین کی وہ علامات ہیں جو کسی کی ملکیت کی حد کے لئے بنائی جاتی ہیں ، خواہ دیوار اٹھا کر ہو ، رسی باندھ کر ہو، کھونٹی اورمیخ گاڑ کر ہو ، یا صرف کاغذی کاروائی کرکے اس کی حد بندی کرلی گئی ہو ، اس طرح کی حدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کرنا ، خواہ کاغذات کے ذریعہ ہو ، پڑوسی کے انجانے میں اس کی زمین کا کچھ حصہ اپنے حصے میں شامل کرلینا ہو فعل حرام اور کبیرہ گناہ ہے ، بلکہ جس سلسلہ کلام میں نبی ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا ہے اس سے اس کی قباحت واضح ہوتی ہے یعنی شرک باللہ ، والدین کے ساتھ بدسلوکی اور دین میں بدعت ایجاد کرنے جیسے جرموں کے ساتھ۔ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے : جو شخص اپنے بھائی کی ایک بالشت زمین پر ظلما قبضہ کرلے گا تو بروز قیامت اس زمین کے سات طبق کا طوق اسے پہنایا جائے گا ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت عائشہ } ۔
[۲] اس سے مراد راستوں اور خصوصا صحراوی علاقوں کے وہ نشانات ہیں جن کی مدد سے مسافر منزل مقصود تک پہنچنےہیں اس میں تبدیلی سے نہ صرف راستہ بھٹک جانے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ جان بھی جاسکتی ہے ۔ اسی حکم میں حکومتوں کی طرف سے متعین کردہ مسافتیں یا علامتیں بھی ہوسکتی ہیں جن کی مدد سے مسافر اپنے سفر کی سمت اور مسافت کا اندازہ لگاتے ہیں ۔
70- نسب میں طعنہ زنی : ارشاد نبوی ﷺ ہے : دو چیزیں لوگوں میں ایسی ہیں جو عمل کفر سے ہیں نسب میں طعن کرنا اور فوت شدہ پر بین کرنا ۔ {صحیح مسلم ، مسند احمد بروایت ابو ہریرہ } نسب میں طعن کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کو اس کے باپ یا خاندان کی وجہ عار دلائی جائے اور اسے حقیر سمجھا جائے ،جس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں :
[۱] ایک شخص کا باپ اس کاگھر اور خاندان معروف ہے ، اس کا نسب شرعی طور پر ثابت ہے لیکن صرف دشمنی یا شبہ کی بنیاد پر اسے اس کے باپ کے علاوہ کسی اورکا نطفہ بتلا کر اسے عار دلائی جائے اور ذلیل کیا جائے ، چونکہ اس سے گویا اس کی ماں پر زنا کی تہمت لگتی ہے اور اس کی وجہ سے پورے خاندان کی رسوائی ہے اس لئے اسے کافروں اور جاہلوں کا عمل قرار دیا گیا ہے : اللہ تعالی فرماتا ہے : إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (23)النورجو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔
[۲] اس کے خاندان اور والدین کو حقیر و ذلیل تصور کرتے ہوئے کہا جائے تیری ماں تو ایسی رہی ہے یا تو جلاہا ہے ، لوہار اور دھوبی ہے، تیری کیا حیثیت ہے تو مجھ سے بات کرے ۔ چونکہ سارے لوگ آدم و حوا کی اولاد اور اصل کے لحاظ سے سب برابر ہیں ، یہ قبیلے اور انساب تو اللہ تعالی نے صرف معرفت کے لئے رکھے ہیں ورنہ اصلی فضیلت تقوی کے لحاظ سے ہے ، ارشاد نبوی ہے : لوگو ! اللہ تعالی نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کو دور کردیا ہے [ اب مسلمان ہونے کے بعد آدمی دو قسم کے ہیں ] صاحب ایمان اور متقی یا فاجر اور بدبخت ، [ یاد رکھو ] تم سب آدم کے بیٹے ہو اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیاگیا ، لہذا لوگوں کو قومی نخوت کو چھوڑنا پڑے گا، وہ لوگ [ ان کے باپ دادا تو کفر و شرک کے سبب ] جہنم کے کوئلے بن چکے ہیں ، ورنہ یہ لوگ [ جو اپنی قومی شیخی کا اظہار کرتے ہیں ] اللہ تعالی کے نزدیک اس کیڑے سے بھی زیادہ حقیر ہوجائیں گے جو اپنے نتھنے سے گندگی کو ڈھکیلتا ہے ۔ {سنن ابو داود ، سنن ترمذی بروایت ابو ہریرہ }۔
[۳] کسی شخص کو اس کے پیشے کی وجہ سے عار دلائی جائے کہ تو تو بڑھئی ہے یا نائی ہے وغیرہ ۔ یہ چیز بھی ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ تمام نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں اور حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے ۔
71- وصیت سے نقصان پہنچانا : تقسیم میراث کے ضمن میں اللہ تعالی کافرمان ہے :مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (12)النساء[اور یہ تقسیم ] میت کی وصیت کی تعمیل اور اس کے قرضے کی ادائیگی کے بعد ہوگی بشرط یہ کہ [ اس وصیت کی تعمیل میں کسی کو نقصان نہ پہنچ رہا ہو ]، یہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ ہے اور اللہ تعالی علم رکھنے والا اور بردبار ہے ۔
وصیت میں نقصان پہنچانے کا معنی یہ ہے کہ وصیت کرنے کا مقصد اس وصیت سے کسی وارث کو خواہ وہ قریب کا وارث ہو جس کے حصے متعین ہیں یا دور کا وارث جس کے حصے متعین نہیں ہیں اس کے حصے سے محروم کرنا یا اس کا حصہ کم کرنا ہو بلکہ کسی جائز مقصد اور جائز حد تک وصیت کررہا ہے ، علماء نے اس کی متعدد صورتیں لکھی ہیں : [۱] اپنے مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کی وصیت کرے ۔ [۲] وصیت میں یہ کہہ جائے کہ فلاں کا میرے اوپر اتنا قرض ہے اسے دے دینا، حالانکہ وہ اس اقرار میں جھوٹا ہو ۔ [۳] یا یہ کہ فلاں کے اوپر جو میرا قرض تھا اسے ہم نے لے لیا ہے حالانکہ یہ جھوٹ ہو ۔ [۴] یا اپنے کسی غیر وارث کو وصیت اس لئے کرے تا کہ اس کے عصبہ جیسے چچا زاد بھائی وغیرہ کو میراث سےمحروم کردیا جائے ۔ [۵] یا کسی کو اپنا گھر ، زمین یا دوکان وغیرہ سستے میں بیچ دے تاکہ ورثہ کو اس کا حصہ نہ ملے وغیرہ وغیرہ ۔۔
اسی قسم کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ماحول میں بہت عام ہیں ، حالانکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے : ایک انسان مرد یا عورت ساٹھ سال تک اللہ تعالی کی اطاعت کے کام کرتا رہتا ہے ، پھر جب اس کی موت کا وقت ہوتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ان کے لئے جہنم واجب ہوجاتی ہے ، پھر راوی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی ۔ {سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ بروایت ابو ہریرہ }
مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا :ضرر پہنچانے کی نیت سے وصیت کرنا کبیرہ گناہ ہے ۔ {سنن النسائی الکبری }