سلسلہ کبائر [26] رواج بدعت ، تبدیلی خلقت ، فتوی کفر / حديث نمبر: 323

بسم اللہ الرحمن الرحیم

323:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [26]

رواج بدعت ، تبدیلی خلقت ، فتوی کفر

بتاریخ : 20/ شعبان 1438 ھ، م  16/، مئی  2017 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

72- بدعت یا برائی کو رواج دینا: اس سے مراد  یہ ہے کہ انسان  کسی بھی  معاشرے  میں  شریعت  کے مخالف  کسی کام کو رائج  کرے  اور اپنے  قول و عمل  سے اس کی طرف  دعوت دے ، جیسے کسی  شہر یا گاوں  میں شراب  کی دکان  نہیں تھی  لیکن ایک  شخص  آیا  اور اس  نے  اس  شہر میں شراب  کی دکان  کھول  دی جس  سے لوگوں  کے لئے  شراب نوشی  کا  دروازہ  کھل گیا ، اسی طرح  کسی شہر  کی عورتیں  با پردہ رہتی تھیں  اور باہر  نکلتے  ہوئے  اور  حیا  کا لباس  پہنا کرتی   تھیں  لیکن اس گاوں میں کسی  عورت  بے پردگی  اختیار  کیا  اور باہر آتے جاتے  ہوئے حیا سوز  لباس  پہننے لگی   جسے دیکھ  کر کمزور  ایمان  دیگر  عورتیں  بھی اس کی راہ پر چل پڑیں ۔

چونکہ  مذکورہ  برائیاں  اس شہر  میں کسی مرد  یا عورت  کی پیش  قدمی سے پیدا ہوئی ہیں  اس لئے  اس شہر  میں ان برائیوں   کا جو شخص  بھی ارتکاب  کرے گا  تو جہاں  اس مرتکب  کو  اس کا گناہ   ہوگا  وہیں  پر اس   برائی  کو رواج  دینے  والے  پر بھی  اس کا گناہ  ہوگا ، نبی  ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص  کسی گمراہی  کی طرف  دعوت  دیتا ہے اس پر  اپنا گناہ  بھی  ہے  اور جو  اس کی تابعداری  کرتا ہے  اس کا گناہ بھی  ،  اور اس  تابعداری  کرنے والوں  کے گناہ  کم نہیں  ہوجائیں گے ۔ {صحیح مسلم  بروایت  ابو ہریرہ } ۔

یہی وہ لوگ  ہیں جنہیں  اللہ تعالی  نے جہنم  کی طرف  دعوت دینے  والا  امام قرار دیا ہے ، چنانچہ  فرعون و ہامان   وغیرہ  سے متعلق  ارشاد فرماتا ہے  : وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنْصَرُونَ (41) وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُمْ مِنَ الْمَقْبُوحِينَ (42)القصص۔ اور  ہم  نے  انہیں ایسے  امام بنا دئے  کہ لوگوں  کو جہنم  کی طرف بلائیں  اور روز قیامت  مطلق  مدد نہ  کئے جائیں،اور ہم نے اس دنیا میں بھی ان کے پیچھے اپنی لعنت لگا دی اور قیامت کے دن بھی وہبد حال لوگوں میں سے ہونگے ۔

یہی وہ  لوگ ہیں  جنہیں   نبی ﷺ نے "برائیوں  کے   چابیوں”   کا لقب  دیا ہے  : فرمایا : کچھ لوگ نیکی  کی چابیاں  ہوتے ہیں  اور برائی  کے تالے  اور کچھ لوگ  برائی  کی چابیاں  اور نیکی کے  تالے  ہوتے ہیں ، اس   شخص کو مبارک ہو  جس کے ہاتھ  میں اللہ تعالی  نے نیکی  کی چابیاں  دے دیں اور اس شخص  کے لئے   ہلاکت  ہے جس کے ہاتھ  میں اللہ  تعالی  نے  برائی  کی چابیاں  دے دیں  ۔ {سنن ابن  ماجہ بروایت  انس }

 

 

73-  اللہ تعالی  کی تخلیق  میں تبدیلی  پیدا کرنا : اس سے مراد  یہ ہے کہ  اللہ تعالی  نے انسان  کو جس  صورت اور اخلاق  پر پیدا  فرمایا  ہے یا  جس کردار  کے لئے  اس کی تخلیق  ہوئی ہے  بلا کسی  شرعی دلیل  کے اس  سے روگردانی  کرے،  اپنی صورت  و اخلاق  میں ایسی  تبدیلی  کرے جو  شرعی  منشا کے خلاف  ہو اور اپنے  اصل کام  سے ہٹ کر  غیر قوم  یا جنس   مخالف کا رول  ادا کرنا شروع کردے ۔

شیطان  معلون  نے جن  غیر شرعی  امور  میں انسان  کو  مبتلا کردینے  کے لئے  اپنی  پوری  کوشش لگادینے  کا عہد  کیا ہے  اس  میں سے ایک یہ بھی  ہے ، ارشاد باری تعالی  ہے : لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (118) وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا (119)النساء

اسپر اللہ کی لعنت ہو،اور [شیطان نے ] کہا تھا : میں تیرے  بندوں  میں سے  ایک مقرر  حصہ  لے کر رہوں  گا ،  اور میں  انہیں گمراہ  کرکے  چھوڑ وں گا ، انہیں  آرزوئیں  دلاوں گا اور انہیں  حکم دوں گا کہ وہ  چوپایوں  کے کان  پھاڑ ڈالیں  اور انہیں  یہ بھی  حکم دوں گا  کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ  صورت میں تبدیلی  کر  ڈالیں  اور جس نے اللہ کو  چھوڑ کر  شیطان  کو اپنا  ولی  بنالیا  وہ صریح  نقصان  میں  پڑ گیا ۔  اللہ کی تخلیق  میں تبدیلی  کی بہت  سی صورتیں   ہیں جن میں سے  بعض کا ذکر  صراحت  کے ساتھ  حدیثوں  میں وارد ہے  ، چنانچہ  ارشاد نبوی ہے : لعنت  ہے اللہ تعالی   کی ان عورتوں   پر جو  اپنے  بدن کو  گودتی  ہیں اوران پر بھی  جواپنے  بدن کو گودواتی  ہیں ،  اور پلکوں  کے بال  اکھاڑنے والیوں  پر اور  حسن پیدا کرنے  کے لئے  دانتوں  کے درمیان  فاصلہ  کرنے والیوں  پر  [بھی لعنت ہو]جو اللہ تعالی  کی پیدا کی ہوئی  صورت میں تبدیلی کرتی ہیں ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم  بروایت  ابن مسعود } ۔ البتہ  وہ تبدیلی  جس کا  حکم  یا اس کی  اجازت  شریعت  میں مذکور  ہے تو  وہ اس  حکم  سے مستثنی  ہے ،جیسے  ختنہ کرنا ،  ناخن  تراشنا ، مونچھ  کترنا  اور ناف  کے نیچے  کے بال  چھیلنا وغیرہ ۔

74- مسلمان کو کافر  کہنا : کسی کو  کافر قرار دینا  یہ اللہ تعالی  کا حکم  ہے جسے وہ  کافر  قرار دے  وہ کافر  اور جسے  مومن  ہونے کا سرٹیفیکٹ  دے دے   وہ مومن  ہے ، لہذا  کسی بڑے سے  بڑے  گناہ   کے ارتکاب  پر یا کسی سے جہلا ، خطا اور سہوا  کفر و شرک  کے سرزد  ہونے  پر وہ  شخص کافر نہیں ہوتا،  اور نہ  ہی وہ شخص  جس سے شرک  سرزد  ہو  و ہ مشرک  ہوجاتا ہے،  بلکہ کسی  بھی شخص  کے کافر و مشرک  گرداننے کا معاملہ  قرآن و سنت  کے بتائے  ہوئے قانون  کی روشنی  میں معتبر  اہل علم  کا کام ہے ۔

بلکہ  یہ معاملہ  اس قدر  خطرناک  ہے کہ نبی ﷺ  نے ارشاد فرمایا  : جب آدمی  اپنے  مسلمان  بھائی  کو  اسے کافر  کہتا  ہے تو وہ دو باتوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹتا ہے ، اگر وہ واقعی ایسا ہوا جیسا کہ اس نے کہا تو  درست  ورنہ  وہ کفر  اس کی طرف  لوٹ آئے گا ۔ {بخاری  و مسلم  بروایت  ابن عمر } ۔

ایک دوسری  حدیث  میں حضرت  ابو ذر  رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ انہوں  نے رسول اللہ ﷺ  کو فرماتے ہوئے  سنا کہ جس شخص  نے کسی  آدمی کو  کافر  کہہ کر پکارا ، یا  کہا : اے اللہ  کے دشمن  ، جب کہ  وہ ایسا  نہ ہو تو  وہ بات  اسی کی طرف  لوٹ آتی ہے ۔ {صحیح بخاری ومسلم } ۔ ان دونوں حدیثوں سے اس امر کی خطرناکی کا اندازہ ہوتا ہے۔