سلسلہ کبائر [3] شرک ، نافرمانی والدین ، قتل / حديث نمبر: 300

بسم اللہ الرحمن الرحیم

300:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [3]

شرک ، نافرمانی والدین ، قتل

بتاریخ : 08/ صفر   1438 ھ، م  08، نومبر 2016 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

کبیرہ گناہ نمبر [۱] : شرک باللہ

علی الاطلاق  سب سے پہلا کبیرہ  شرک باللہ ہے ، اسی حکم  میں  کفر بھی داخل ہے ،  ارشاد باری تعالی ہے :

 إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (48)النساء

یقینا  اللہ تعالی  اپنے ساتھ شرک  کئے  جانے کو  نہیں  بخشتا  اور  اس کے سوا  جسے  چاہے بخش دیتا ہے ، اور اللہ تعالی کے ساتھ  جو شریک مقرر کرے  اس نے بہت بڑا  گناہ اور بہتان  باندھا ۔ نبی ﷺ  کا فرمان ہے : کیا میں تم کو سب سے بڑے  گناہ نہ بتلا­ دوں ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتلائیے  اس  میں سب سے پہلی چیز  آپ نے شرک کو بتلایا ۔  {صحیح بخاری  وصحیح مسلم ، بروایت  ابوبکر } ۔

ایک اور  حدیث میں ارشاد نبوی ہے : جس کا  انتقال  اس حال میں ہوا  کہ وہ اللہ تعالی کی  عبادت  میں کسی کو شریک  کرتا تھا  تو وہ جہنم  میں گیا ۔ {صحیح بخاری بروایت  عبد اللہ بن مسعود } ۔  شرک یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ، صفات ، حقوق اور اس کے اختیارات  میں کسی  اور کوکو ئی  حصہ دیا جائے ۔

واضح رہے کہ شرک کی دو قسمیں  ہیں شرک اکبر اور شرک اصغر اور  دونوں ہی کبائر  میں داخل ہیں ، شرک اکبر کی تعریف گزر چکی ہے۔

شرک اصغر : وہ کام  جنہیں  حدیث  میں شرک  کہا گیا ہے لیکن  وہ شرک  اکبر کے مقام  کو نہیں پہنچتے   ، بلکہ   وہ شرک اکبر  کا وسیلہ  ہوتے ہیں  جیسے : ریا و نمود ،

۔  ارشاد نبوی ہے  : حصہ داری  کے معاملہ میں تمام  شریکوں سے بے نیاز  ہوں ، لہذا  اگر کسی  نے کسی کام میں میرے ساتھ کسی کو شریک  کیا تو اسے اور اس کے  شرک  کو چھوڑ دوں گا ۔ { صحیح مسلم  ، بروایت  ابوہریرہ } ۔

غیر اللہ کی قسم  کھانا  ، ارشاد نبوی ﷺ ہے  جس نے اللہ کے بجائے  کسی اور کی قسم کھائی تو اس  نے شرک کیا ۔ {سنن الترمذی ، مسند احمد  ، بروایت ابن عمر }

تعویذ  و گنڈے  لٹکانا  ، ارشاد نبیﷺ ہے: [غیر شرعی]جھاڑ پھونک، تعویذ اور گنڈے سب شرک ہیں۔سنن ابو داو بروایت ابن مسعود

کبیرہ گناہ نمبر [۲] : والدین کے ساتھ  بدسلوکی :

اللہ تعالی  فرماتا ہے :  قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔ الآیۃ الانعام

آپ کہہ دیجئے  کہ آؤ  میں تم  کو وہ چیزیں  پڑھ کر سناؤں جن [ کی مخالفت ]  کو تمہارے  رب  نے تم پر حرام  فرما دیا ہے ، وہ یہ کہ  اللہ تعالی کےساتھ  کسی کو شریک  مت ٹھہراو اور والدین کےساتھ  حسن  سلوک سے پیش  آؤ ۔

ایک اعرابی   خدمت نبوی میں حاضر ہوکر  سوال کرتا ہے کہ  بڑے بڑے  گناہ کیا ہیں ؟  آپ ﷺ نے  جواب  میں  فرمایا : اللہ تعالی کے ساتھ  شرک کرنا ، اس نے پھر سوال کیا : اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا  : والدین کے ساتھ بدسلوکی سے پیش  آنا  ، اس  نے پھر سوال کیا : اس کے بعد ؟  آپ نے فرمایا  : جھوٹی قسم ۔  {صحیح بخاری ، بروایت  ابن عمر } ۔

والدین  اس دنیا میں انسان کے وجود  کا ذریعہ ہیں اسی لئے ارشاد باری تعالی ہے :  أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ۔ لقمان

یعنی تو میری  گزاری کر اور اپنے والدین  کی شکر گزاری کر ۔

لہذا ہر وہ چیز  شکر  والدین  کے خلاف ہوگی وہ  ان کے ساتھ ساتھ بدسلوکی میں شمار ہوگی ، چنانچہ  علماء  لکھتے  ہیں کہ    ہر وہ جائز  کام جس کے کرنے یا نہ کرنے سے والدین  کو نفسانی یا جسمانی تکلیف  پہنچے  وہ والدین  کے ساتھ بدسلوکی میں داخل ہے  ، اب یہ تکلیف جس قدر   زیادہ ہوگی اسی قدر وہ گناہ  بھی  بڑا ہوگا ، واضح  رہے کہ  کسی بھی ناجائز  یا شرعا ناپسندیدہ  کام میں  والدین  کی اطاعت جائز نہ ہوگی  نتیجۃ  ان میں ان کی مخالفت  ان کے ساتھ بدسلوکی میں داخل نہ ہوگی ۔

کبیرہ گناہ نمبر [۳] ناحق انسانی قتل :

اللہ تعالی فرماتا ہے  : وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ۔ الآیۃ الانعام:151

اور کسی جان کو  جس  کا مارنا  اللہ تعالی نے حرام  کردیا ہے ہر گز ناحق  قتل  نہ کرو ۔

ایک موقعہ پر نبی ﷺ  سے بڑے بڑے  گناہوں  کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، والدین  کی نافرمانی کرنا اور کسی  جان کا مارنا ۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم  بروایت  انس } ۔

اسلام  میں کسی  بھی معصوم  جان کے مارنے  کو بڑا برا جرم  بتلایا گیا ہے ، اور اگر یہی جان کسی مسلمان  کی ہو تو اس کا جرم بہت بڑھ جاتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (93)النساء

اور جو شخص  کسی مومن کو عمدا قتل  کرتا ہے تو اس  کی سزا  جہنم  ہے جس میں  وہ ہمیشہ  رہے گا ، اس پر اللہ تعالی  کا غضب  اور لعنت  ہے اور اس کے لئے  بڑا عذاب  مہیا کر رکھا ہے ۔

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ امید ہے کہ اللہ تعالی ہر گناہ کو معاف  فرما دے  گا ،سوا اس  آدمی کے جو حالت شرک میں  مرے یا کسی مومن کو قتل کردے ۔ {سنن ابو داود ، سنن النسائی  } ۔

اسی طرح اگر وہ  جان کسی ذمی  یا معاہد  کی ہو تو  اس کا مارنا بھی بہت بڑا جرم ہے ، ارشاد نبوی ہے :

جس نے کسی  معاھد  کو قتل  کیا [بعض روایات   میں ذمی کا ذکر ہے ] اسے جنت  کی خوشبو بھی نصیب  نہ ہوگی حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال دور سے پائی جاتی ہے ۔ {صحیح بخاری ، سنن النسائی  }