بسم اللہ الرحمن الرحیم
301:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [4]
جادو ، تارک نماز و زکاۃ
بتاریخ : 15/ صفر 1438 ھ، م 15، نومبر 2016 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
جادو کرنا اور سیکھنا : جادو وہ خطرناک اور گھناونا خفیہ عمل ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کے بندوں کو ضرر و نقصان پہنچایا جاتا ہے ، کسی کو قتل کردیا جاتا ہے اور کسی کو کوئی بیماری لاحق ہوجاتی ہے ، اور یہ سارا کام بعض عملیات ، ٹونے اور گنڈوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے ، اس کا زیادہ تر استعمال کسی عورت سے ناجائز عشقیہ تعلق قائم کرنے اور میاں و بیوی میں جدائی ڈالنے کے لئے ہوتا ہے ، اپنے گونا گوں نقصانات کے پیش نظر ایسا عمل شریعت کے نظر میں گناہ کبیرہ بلکہ کفر اور مذہب سے خارج ہوجانے عمل ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ۔ الآیۃ:102
اور یہ یہود [ تورات کے بجائے ] ان جنتروں منتروں کے پیچھے پڑ گئے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے یعنی جادو سیکھتے اور سکھاتے تھے ، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایسا کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو وہ شیطان لوگ کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :سات ہلاکت خیز گناہوں سے پرہیز کرو ، صحابہ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ وہ کون کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک اور جادو کرنا ، الی آخر الحدیث ۔۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
ایک اور حدیث میں بیان فرمایا : تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے : ۱- شراب پینے کا عادی ۔ ۲- رشتے داری کو توڑنے والا ۔ ۳- جادو کو حق ماننے والا ۔ {مسند احمد ، بروایت ابو موسی }۔ جادو کی قباحتوں کے پیش نظر شریعت میں اس کی سزا قتل رکھی گئی ہے ، چنانچہ اس امر میں تقریبا صحابہ کا اجماع ہے کہ جادو گر کو قتل کردیا جائے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت کے آخری دنوں میں یہ فرمان جاری کیا تھا کہ ہر جادوگر یا جادوگرنی کو قتل کردیا جائے ۔ {سنن ابو داود ، مسند احمد } ۔
نماز کا چھوڑنا : نماز دین اسلام کا رکن عظیم ، اس کا ستون اور نبی کریم ﷺ کا امت سے آخری عہد ہے ، شہادتین کے علاوہ ارکان اسلام میں کسی بھی رکن کے ترک کو صراحۃ کفر نہیں کہا گیا ہے، بلکہ ایک مشہور تابعی حضرت عبد اللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کسی نیک کام کے چھوڑ دینے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے ۔ {سنن ترمذی } ۔
اللہ تبارک وتعالی نے بے نمازیوں کا ٹھکانہ جہنم بتلایا ہے ۔
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (59)مریم
پھر [ ان نیک لوگوں ] کے بعد ان کی نالائق اولاد ان کی جانشین بنی، جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کے انجام [غی ] سے دوچار ہوں گے ۔ مفسر قرآن حضرت ابن عباس نے فرمایا : غی جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں دوزخیوں کا لہو او ر پیپ جمع ہوتا ہے ، اس میں زانی ، شراب خور ، اور ماں باپ کو ستانے والے لوگ جائیں گے ۔ { تفسیر البغوی }۔
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہمارے درمیان اور ان کے یعنی کافروں کے درمیان جو عہد یعنی فرق ہے وہ نماز کا ہے ، پس جس نے نماز چھوڑ دیا اس نے کفر کیا ۔ {سنن ترمذی ، سنن النسائی ، مسند احمد }۔ شہادتین کے بعد نماز اللہ تعالی کا سب سے بڑا حق ہے جو بندوں پر ہے اس کے بر خلاف شرک و کفر باللہ کے بعد سب سے بڑا گناہ اور جرم نماز کا چھوڑ دینا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جہنمی اپنے جہنم میں جانے کا سب سے پہلا عذر ترک نماز بتلائیں گے ۔ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (43)المدثرتمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا ، وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ۔
زکاۃ کا روکنا :
زکاہ اسلام کا ایک عظیم رکن ، اور نماز کی ساتھی ہے ، قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا ذکر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے، جس کا واضح مفہوم ہے کہ جس طرح کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ نماز نہ پڑھے اسی طرح کسی نمازی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ زکاۃ نہ دے ، اسی لئے قرآن مجید میں زکاۃ کا روکنا کفار و مشرکین کا عمل بتلایا گیا ہے ۔ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (6) الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (7)فصلت
اور تباہی ہے مشرکین کے لئے جو زکاۃ نہیں دیتے ، اور وہی لوگ آخرت کے منکر ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا جو زکاۃ نہیں دیتا اس کی نماز بھی قبول نہیں ہے ۔ { الطبرانی الکبیر ، ابن ابی شیبہ } ۔
ارشاد باری تعالی ہے ۔ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الآیۃ۔ آل عمران ۔ جن لوگوں کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں [ یعنی اسے اللہ تعالی کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ] وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لئے اچھی ہے ، نہیں یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے، وہ جو کچھ اپنی کنجوسی سے جمع کررہے ہیں وہی قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق بنے گا ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا : جسے اللہ تعالی مال دیتا ہے اور وہ اس میں سے زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے مال کو زہریلا سانپ بنا کر اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور ڈستے ہوئے کہے گا میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں ۔ {صحیح بخاری } ۔