بسم اللہ الرحمن الرحیم
302:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [5]
تارک روزہ ، تارک حج ، قطع رحمی
بتاریخ : 22/ صفر 1438 ھ، م 22، نومبر 2016 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
روزہ چھوڑنا : طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک اللہ کی رضا کے لئے کھانے پینے اور دیگر مخصوص چیزوں سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے ، روزہ اللہ تعالی کی ایک اہم عبادت ہے ، رب کی رضا کے حصول کا بہترین سبب اور گناہوں کی معافی کا ایک بڑا اہم ذریعہ ہے ، روزہ جہنم سے ڈھال اور دخول جنت کا بہترین عمل ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے روزہ کو ہر امت پر فرض قرار دیا تھا ، اس امت پر بھی روزہ دیگر امتوں کی طرح فرض کیا گیا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183)البقرۃ۔
اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح کہ تم سے قبل امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی بن جاو ۔
بلکہ اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے روزے کو دین اسلام کا ایک رکن قرار دیا ہے ، ارشاد نبوی ہے : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : ۱- لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا ۔ ۲- نماز پڑھنا ۔ ۳- زکاۃ دینا ۔ ۴- ماہ رمضان کا روزہ رکھنا ۔ ۵- بیت اللہ کا حج کرنا ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم ، بروایت ابن عمر } ۔
اسلام کی رکنیت کا تقاضا ہے کہ رمضان کے روزوں کا ترک خواہ ایک ہی روزہ کیوں نہ ہو کبیرہ گناہوں میں شمار ہو ، بلکہ علماء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ تارک صوم کا ایمان بھی شکوک ہے ، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ” یہ بات مومنین کے نزدیک طے شدہ ہے کہ بلا کسی مرضی اور ضرورت کے رمضان کے روزوں کا ترک کرنے والا زنا کرنے والے ، شراب کے عادی اور ناجائز ٹیکس لینے والے سے بھی برا ہے، بلکہ علماء اس کے ایمان کے بارے میں شک کرتے ہیں اور اس کا بے دین اور زندیق ہونا تصور کرتے ہیں ۔ {الکبائر ص:57 } ۔
روزے کی یہی اہمیت ہے کہ روزے کا تارک عالم برزخ میں بھی سخت عذاب سے دوچار ہوتا ہے ، چنانچہ نبی ﷺ کو ایک بار خواب میں دکھلایا گیا کہ کچھ لوگوں کو ان کی ایڑیوں کے بل الٹا لٹکا دیا گیا ہے اور ان کی باچھیں چیری جارہی ہیں ، جب آپ ﷺ نے ان کے جرم کے بارے میں سوال کیا تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے روزہ افطار کردیتے تھے ۔ {صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان ، بروایت ابو امامہ }۔
استطاعت کے باوجود حج کا تارک :
حج اسلام کا آخری رکن اور صاحب استطاعت پر اللہ تعالی کا حتمی فریضہ ہے ، حج اللہ تعالی کے گھر کی زیارت اور رب کائنات کی میہمانی کی سعادت حاصل کرنا ہے ، حج بندوں کے گناہوں کا کفارہ اور دین و دنیا میں برکت کا سبب ہے ، نبی ﷺ کا ارشاد ہے ، پے درپے حج اور عمرے کا اہتمام کرو کیونکہ یہ دونوں گناہوں اور غربت کو اس طرح ختم کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ { سنن النسائی ، سنن ترمذی ، بروایت ابو ہریرہ }
حج کو اسلام کا رکن قرار دینے کا تقاضا ہے کہ اس کا ترک کبیرہ گناہ میں شمار ہو،بلکہ بلا عذر حج کو ترک کرنے والا کفر کے دھانے پر کھڑا ہوتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (97)آل عمران
اور لوگوں پر اللہ تعالی کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو شخص کفر کرے [یعنی اس حکم کو نہ مانے ] وہ خوب سمجھ لے کہ اللہ تعالی تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔
استطاعت کا معنی یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ کے علاوہ اتنا مال ہو کہ وہ بیت اللہ تک پہنچ جائے اور کوئی جسمانی ، مالی اور ماحولی رکاوٹ نہ ہو ۔
خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ مختلف شہروں میں نمائندوں کو بھیجوں اور وہ جائز لیں کہ جو مسلمان استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا اس پر جزیہ مقرر کردوں ، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ {سنن سعید بن منصور } ۔
قطع رحمی :
اللہ تعالی نے اس دنیا میں انسان کے دو رشتے رکھے ہیں ، نسبی رشتہ اور سسرالی رشتہ ، ان دونوں میں بعض رشتے بہت قریبی ہوتے ہیں جو محرمیت کا درجہ رکھتے ہیں جیسے :والدین ک اولاد ، چچا ، مامو ، خالہ ، اور پھوپھی وغیرہ، یہ ایسے رشتے ہیں جن کے جوڑنے کا وجوبی حکم ہے اور انہیں توڑنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے ، رشتے کا توڑنا کبھی انہیں ایذا پہنچانے سے ہوتا اور کبھی بلاکسی شرعی عذر کے ان سے تعلق توڑنے سے ہوتا ہے ، یہ دونوں صورتیں ممنوع ہیں ، ارشاد باری تعالی ہے : فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23)محمد۔ پھر اے منافقو تم لوگوں سے کیا بعید ہے کہ اگر تم حاکم بن جاو تو زمین پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ، انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھ کو اندھا کردیا ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا، جب وہ اس سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تجھ سے پناہ مانگے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : ہاں ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق جوڑوں جو تجھے جوڑے اور اس شخص سے تعلق قطع کرلوں جو تجھے توڑے ، رحم نے کہا کیوں نہیں ، ایسا ہی ہونا چاہئے ، تو اللہ تعالی نے فرمایا : پس یہ تیرے لئے ہے یعنی ایسا ہی ہوگا ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت : ابو ہریرہ }۔
دونوں حدیثوں سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ قریبی رشتے داروں سے تعلق جوڑنا کس قد اہم نیکی اور اس تعلق کا پاس و لحاظ رکھنا کتنا بڑا گناہے ۔