سلسلہ کبائر [7] مال یتیم کھانا، نبی پر جھوٹ، جنگ سے فرار / حديث نمبر: 304

بسم اللہ الرحمن الرحیم

304:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر [7]

مال یتیم کھانا، نبی پر جھوٹ، جنگ سے فرار

بتاریخ : 07/ ربیع الاول   1438 ھ، م  06، ڈسمبر 2016 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

13- یتیم کا مال کھانا : یتیم  اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں  جس کا والد فوت ہوچکا ہو ، چونکہ گھر کے سارے امور کا ذمہ دار، نان و نفقہ ، تعلیم و تربیت  اور دیگر  گھریلوں انتظام  کی ذمہ داری والد پر ہوتی ہے ، اس لئے  کسی بچے کے والد  کا ایسی عمر میں فوت پاجانا  جب کہ وہ ہر قدم پر اس کا حاجت  مند ہے  بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے ،  ایسا بچہ اس بات کا حقدار  ہوتا ہے کہ ہر شخص  اس کی مدد کرے ، اس کے سر پر شفقت  کا ہاتھ رکھے ۔ نبی ﷺ نے اس پر ابھارتے  ہوئے فرمایا : میں اور یتیم  کی کفالت  کرنے والا  جنت میں اس طرح  ہوں گے ، یہ کہتے ہوئے نبی ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی  اور درمیانی   انگلی  سے اشارہ فرمایا ، البتہ  دونوں کے درمیان  تھوڑی  سی کشادگی رکھی ۔

اب ایسی صورت میں  اگر کوئی  شخص  یتیم  کا سہارا بننے  کی بجائے  اسے اجاڑ رہا ہے اور اس کے مال کو ناجائز   طریقہ سے ہڑپ  کرلے  رہا ہے تو وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب  ہورہا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :   إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10) النساء جو لوگ یتیم  کا مال  ظلم  سے ہڑپ  کرلے  رہے  ہیں یقینا  وہ اپنے  پیٹ  میں آگ  بھرتے ہیں ، عنقریب  وہ جہنم میں داخل ہوں گے ۔

نبی ﷺ نے اپنی  ایک سے زائد  حدیثوں  میں یتیم  کا مال  ہڑپ کرنے کو  بڑے  بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے ، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا  : سات برباد کردینے والے گناہوں سے بچو ، صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ وہ کیا ہیں ؟  آپ نے فرمایا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کرنا ، کسی معصوم جان  مارنا  اور یتیم  کا مال کھانا ۔ الحدیث ۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم  بروایت ابو ہریرہ } ۔

۱۴- نبی ﷺ پر جھوٹ بولنا :  جھوٹ بولنا ویسے بھی کبیر گناہ اور جہنم  میں لے جانے والا راستہ ہے ، لیکن  اگر یہی  جھوٹ   ایسی ہو کہ اس  سے  بنی ﷺ کی ذات منسلک  ہے تو اس  کی قباحت  اور بڑھ جاتی ہے ، کیونکہ  نبی ﷺ کا فرمان  یا آپ کا عمل  شریعت کی حیثیت  رکھتا ہے اور اس  پر کسی  واجب، سنت اور مستحب  مسئلے کی بنیاد رکھی جاتی ہے ، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :  «إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»صحیح البخاری، صحیح مسلم بروایت مغیرہ

میرے اوپر  جھوٹ بولنا  کسی اور  پر جھوٹ بولنے  کے  ہم معنی نہیں ہے ، جس نے  میرے اوپر عمدا جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔

نیز  یہ بھی  دھیان  میں رہے کہ نبی ﷺ  کا عمل  اور آپ  کے زبان  مبارک  سے نکلے  ہوئے الفاظ  فی الحقیقت  اللہ رب العالمین  کا منشا  ہوتے ہیں  لہذا اللہ کے رسول  ﷺ پر جھوٹ بولنا  گویا فی الواقع اللہ رب العزت  پر جھوٹ بولنا ہے ، جو نہایت  ہی قبیح  گناہ  اور قیامت  کے دن  بڑی رسوائی  کا سبب ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :  وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ. الآیۃالزمر: 60قیامت کے دن آپ دیکھیں  گے کہ  ان کے چہرے کالے  سیا ہ ہورہے  ہوں گے  جن لوگوں  نے اللہ پر جھوٹ بولا تھا۔

نبی کریم ﷺ پر جھوٹ بولنے  میں یہ بھی  داخل ہے کہ کسی ایسے عمل کی  نسبت جو آپ نے نہ کیا ہو اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی  فرمان  دیا ہے اس کے بارے میں کہ کہا جائے کہ آپ ﷺ نے ایسا  کیا  یا آپ نے ایسا فرمایا  ہے ، یا آپ کی حدیث  یہ  ہے وغیرہ وغیرہ ۔

بلکہ یہ معاملہ  اتنا  حساس ہے کہ اگر  کسی حدیث  کے بارے میں یہ معلوم  ہو کہ  وہ سخت ضعیف  ہے یا موضوع  ہے تو  اس کی حقیقت  کو واضح کئے بغیر اس کا بیان کرنا  بھی نا جائز  اور گناہ  کبیرہ  ہے ، ارشاد  نبوی ہے  : جس نے میری طرف سے کوئی ایسی حدیث  بیان کی جسے  وہ جھوٹی سمجھتا ہے تو  وہ بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے ۔ { مقدمہ صحیح مسلم  بروایت  سمرہ و مغیرہ } ۔

۱۵-  میدان جنگ سے فرار :  اس سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص میدان  قتال  میں ہے اور جب دونوں  فوجیں  آمنے  سامنے ہوئیں تو  بلا کسی عذرکے   صرف موت کے ڈر سے  وہاں سے بھاگ کھڑا ہو ، چونکہ  اس کا یہ عمل  بہت بڑے خسارے  کا سبب بن سکتا ہے اس لئے  اس سے  شریعت  میں سختی سے روکا گیا ےہے ۔ اولا : یہ کہ  اس کا یہ عمل  بزدلی اور تقدیر  پر ایمان  کی کمزوری  کی دلیل ہے، کیونکہ  موت   کاجو وقت  اللہ تعالی کی طرف  سے متعین  ہے  اس میں  کسی بھی  قسم کی تبدیلی  نہیں ہوسکتی ۔

ثانیا :  اس سے پوری فوج میں بھگ ڈر مچ  جانے کا خطرہ ہوتا  ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کا بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوسکتا ہے ۔

ثالثا :  اگر اس کے اس عمل سے مسلمان ہار گئے تو   کافروں  کا ان کے شہر اور علاقے پر قبضہ ہوسکتا ہے ، جس کی وجہ سے  معصوم  جانیں جائیں گی  ، عزتیں  لٹیں  گے اور شعائر اسلام  کی ادائیگی  پر پابندی  بھی لگ سکتی ہے  ۔ انہیں وجوہات  کی بنیاد  پر بلا عذر  میدان جہاد سے بھاگنے  کو شریعت  میں گناہ  کبیرہ قرار دیا گیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ (15) وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (16)الانفال

اے ایمان والو !  جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دو چار ہو تو  ان کے مقابلے میں  پیٹھ  نہ پھیرو  ،جس نے ایسے موقعہ پر  پیٹھ  پھیری  الا یہ کہ جنگی  چال کے طور پر  ایسا کرے ، یا کسی  دوسری فوج سے جا ملنے  کے لئے  تو وہ اللہ کے غضب میں گھر گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم  ہے اور وہ بہت  برا ٹھکا نا ہے ۔

نبی کریم ﷺ  نے بھی  اسے سات ہلاک کر دینے والے  گناہوں میں شمار کیا ہے ، بلکہ  ایک حدیث میں آپ نے یہاں  تک فرمایا  کہ :  پانچ گناہ ایسے ہیں کہ ان کا کوئی کفارہ نہیں ہے ، 1– اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ۲، ۔ کسی جان کو ناحق قتل کرنا ۔ ۳ – کسی مومن  کو لوٹ لینا ۔ ۴-  دوران  جنگ  میدان سے فرار اختیار کرنا ۔ ۵- جھوٹی قسم  کے  ذریعہ  ناحق  مال کھانا ۔ { مسند احمد بروایت  ابو ہریرہ }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں