بسم اللہ الرحمن الرحیم
305:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [8]
ظالم حاکم ، متکبرڈینگیں باز، جھوٹا
بتاریخ : 14/ ربیع الاول 1438 ھ، م 13، ڈسمبر 2016 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
16- حاکم کا رعایا کو دھوکہ دینا اور ظلم کرنا:کسی بھی جگہ لوگوں کے معاملات کی نگرانی اور دینی و دنیوی امور کا انتظام کرنے کے لئے کسی حاکم یا ارباب اختیار کا ہونا ضروری ہے ورنہ کوئی بھی معاشرہ پر امن زندگی بسر نہیں کرسکتا ہے ، لیکن عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ ارباب اقتدار اپنے اقتدار کے زعم اور اپنی ریاست کے نشے میں دو خرابیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، ایک تو یہ کہ عام رعایا اور کمزور پبلک کی ضروریات پورا کرنے میں کوتاہی نہیں بلکہ سخت لاپرواہی کا برتتے ہیں اور دوسرے ان کے جائز اور واجب حقوق کو پامال کرتے اوران پر ظلم کرتے ہیں ، جب کہ یہ دونوں چیزیں ان کے منصب کے خلاف اور عہدے کے منافی ہیں ، ان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے زیر تسلط علاقے کے ہر چھوٹے بڑے انسان کی خیر خواہی کریں اور ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی کوشش کریں ، ارشاد نبوی ہے :” جو شخص بھی خواہ وہ دس آدمیوں پر ہی نگراں ہے قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوں گے ، پھر اس کا انصاف کرنا اسے چھڑا دے گا یا پھر اس کا ظلم اسے جہنم میں ڈال دے گا” ۔ {مسند احمد بروایت ابو ہریرہ } ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اہل اقتدار سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ نرمی ، ان پر شفقت ، ان کے ساتھ خیرخواہی اور ان کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں ، برخلاف اس کے ان کے مصالح سے غفلت برتنا ، ان کی ضروریات کو نظر انداز کرنا ،مزید ان پر ظلم کرنا اپنے آپ کو عذاب الہی کے حوالے کرنا ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :” کوئی بھی بندہ جسے رعیت کی ذمہ داری دی گئی [ یعنی حاکم بنایا گیا ] اور اس نے ان کے حقوق کی ادائیگی میں خیرخواہی سے کام نہیں لیا بلکہ ا ن کےساتھ خیانت کرنے والا رہا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا” ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت معقل بن یسار}۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ” قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حاکم کا ہوگا” ۔ { الطبرانی بروایت ابو سعید الخدری } ۔
بلکہ ایسا شخص اس قدر محروم تصور ہوگا کہ اسے نبی رحمت ﷺ کی شفاعت بھی نصیب نہ ہوگی ، ارشاد ہے:” میری امت کے دو قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں میری شفاعت نصیب نہ ہوگی ظالم اور دھوکہ باز حاکم اور بدعتی” ۔ {الطبرانی الکبیر بروایت ابو امامہ } ۔
۱۷ – گھمند کرنا اور ڈینگیں مارنا : تکبر ، بڑائی اور فخر و غرور اللہ رب العزت کا خاصہ ہے اس لئے اسے یہ قطعا پسند نہیں ہے کہ کوئی مخلوق ان صفات سے متصف ہونے کی کوشش کرے ، کیونکہ اصل خلقت کے لحاظ سے سارے لوگ برابر ہیں ، کسی کو صحت کا مل جانا ،کسی کو مال مل جانا ، کسی کا طاقتور ہونا یہ خالص اللہ تعالی کی دین ہے ، لہذا اپنے منصب ، قوت وطاقت اور مال و متاع کو بنیاد بنا کر بڑائی ظاہر کرنا اور لوگوں پر فخر کرنا اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ، حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے :
"عزت و بڑائی میرا پہناو اہے اور کبریائی میری چادر ہے ، لہذا جو بھی ا ن میں سے کوئی ایک چیز بھی مجھ سے کھینچے گا میں اسے عذاب دونگا "۔ {صحیح مسلم ، سنن ابو داود بروایت ابوہریرہ } ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ (23) النحل اللہ تعالی کبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے :”جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا” ۔ {صحیح مسلم بروایت عبد اللہ بن مسعود } ۔
واضح رہے کہ اچھے کپڑے پہننا اور اچھے کھانے کھانا یا اچھے مکان میں رہنا یہ کبر میں داخل نہیں ہے ،بشرط یہ کہ جذبہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا اظہار اور اس کا شکر ادا کرنے کے لئے ہو ، چنانچہ جب مذکورہ حدیث نبی ﷺ نے صحابہ سے بیان فرمائی تو ایک صحابی نے عرض کیا : آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتے اچھے ہوں [تو کیا یہ بھی کبر ہے ؟ ] نبی ﷺ نے فرمایا :”یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی صاحب جمال ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ، کبر یہ ہے کہ حق بات کو قبول نہ کرے اور لوگوں کو اپنے سے حقیر سمجھے” ۔
۱۸- جھوٹ بولنا یا جھوٹی گواہی دینا : ہر معاشرے میں جھوٹ کو ایک قبیح اور نا پسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے ، جو شخص جھوٹ سے معروف ہوجاتا ہے وہ لوگوں کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے ، جھوٹ کے قبیح ہونے کے لئے یہی کیا کم ہے اس میں اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دینا اور اس کے اعتماد کو پامال کرنا ہے ، جھوٹ ایسی بری بلا ہے کہ بسا اوقات ایک جھوٹ کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ، اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا : جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق جہنم میں پہنچا کر چھوڑتا ہے ۔ {صیح بخاری و صحیح مسلم بروایت ابن مسعود } ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جھوٹ کا ذکر شرک باللہ کے ساتھ کیا ہے : فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (30)الحج
لہذا بچو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹ بولنے سے ۔ متعدد حدیثوں میں نبی ﷺ نے جھوٹ بولنے کو منافق کی نشانی بتلائی ہے ۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور امانت میں خیانت کرے ۔ {متفق علیہ } ۔ ویسے تو جھوٹ کی تمام صورتیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں مگر بعض صورتیں ایسی ہیں جو قبیح ترین ہیں،جیسے:1- اللہ اور اسکے رسول پر جھوٹ بولنا۔2– جھوٹی گواہی دینا ۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :” کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں میں سے بڑے گناہ نہ بتلاؤں ، صحابہ نےعرض کیا : ضرور ضرور یا رسول اللہ ، آپ نے فرمایا : باری تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ، جھوٹی گواہی دینا” ۔ الحدیث {صحیح بخاری ، صحیح مسلم بروایت ابو بکرہ } ۔
3-جھوٹا خواب بیان کرنا :ارشاد نبوی ہے "سب سے بڑ جھوٹ یہ ہے کہ آدمی وہ خواب بیان کرے جو اس نے دیکھا ہی نہیں ہے "۔ {صحیح بخاری } ۔
4- لوگوں کے ہنسانے کے لئے جھوٹ بولنا :ارشاد نبوی ہے :”تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لئے جو اس لئے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے ، بربادی ہے اس کے لئے ، بربادی ہے اس کے لئے” ۔ {سنن ابو داود ، سنن ترمذی } ۔
5- حاکم کا جھوٹ بولنا :”روز قیامت اللہ تعالی تین قسم کے لوگوں سے نہ بات کرے گا ، ان کی طرف نہ نگاہ ررحمت سے دیکھے گا ، نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لئے دردنا ک عذاب ہوگا ،،،، ان میں سے ایک جھوٹا بادشاہ ہے ۔ {صحیح مسلم ، سنن النسائی }