بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*سولھواں پارہ(قال الم)*
سولہویں پارے کے تین حصے ہیں؛پہلا حصہ سورہ کہف کی آیت 75 تا 110 پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ مکمل سورہ مریم۔ اور تیسرا حصہ مکمل سورہ طہ پر مشتمل ہے ۔
o اس پارے کی ابتداء حضرت موسی او ر حضرت خضر علیہما السلام کے واقعے کی تکمیل پر ہوتی ہے۔
o پھر اس کے بعد ذو القرنین کا قصہ بیان ہوا ہے۔
o ذو القرنین ایک صاحبِ اقتدار ،صالح او ر عادل بادشاہ تھے،اللہ تعالی نے حکومت کرنے اور علاقوں کو فتح کرنے کے وافر سامان ان کو عطا فرمائے تھے۔ان کا مقصد دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنا تھا جس کے لئے انہوں نے اس روئے زمین پر تین بڑے سفر کئے۔ ایک مغرب کی طرف آخری کنارے تک، دوسرا مشرق کی جانب آخری حد تک اور تیسرا شمال کی جانب جہاں پہاڑوں کا لمبا سلسلہ پھیلا ہواہے۔انہی تینوں سفروں کا ذکر اس پارے کی ابتداء میں پایا جاتا ہے؛
پہلا سفر مغرب کی جانب تھا۔ وہ ملک پر ملک فتح کرتے ہوئے مغرب میں اس جگہ پہنچے جہاں سے سمندر کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، وہاں ذو القرنین کو ایک قوم ملی جو کافر تھی، انہوں نے اس قوم پر ایمان پیش کیا ،جن لوگوں نے ایمان قبول کر لیا ان کے ساتھ ذو القرنین نے نرمی و حسن سلوک کا برتاؤ کیا اور اہل کفر کے ساتھ سزا والا معاملہ کیا اور ان جزیہ یعنی ٹیکس نافذ کیا۔
دوسرا سفر مشرق اقصی کی طرف تھا وہاں انہیں ایک ایسی قوم ملی جو گھر وغیرہ نہ بناتی تھی اور ایسے ہی جنگلوں او ر صحراؤں میں رہائش پذیرتھے۔ ان کے ساتھ بھی ذو القرنین کا وہی معاملہ رہا جو پہلی قوم کے ساتھ رہا تھا۔
حضرت ذو القرنین کا تیسرا سفر کچھ پہاڑی علاقوں کی طرف تھا جہاں یاجوج ماجوج فساد مچائے ہوئے تھے،وہاں کے لوگوں کی درخواست پر حضرت ذو القرنین نے وہ آہنی دیوار قائم کی جو عام آبادی اور یاجوج ماجوج کے درمیان رکاوٹ وحفاظت بن گئی۔
o سورت کے اختتام پر آخرت سے متعلق چند اہم امور کا ذکر کیا گیا ہے:
o 1)آخرت پر ایمان لانے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔
o 2)اہل جہنم کی نشانی بتائی گئی ہے ، کہ اللہ کے ذکر و دین کے بارے میں دھیان نہ دیتے تھے اور نہ ہی کچھ دیکھنے اور سننے کے لئے تیار تھے ۔
o 3) اولیاء پرستی کی مذمت بیان ہوئی ہے ۔
یہ اسی بات کی تاکید ہے جو سورت کے شروع میں بیان ہوئی تھی کہ”وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا (4) یہ قرآن ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو کہتے ہیں اللہ کی اولاد ہے۔ اسی بات کا اعادہ آیت نمبر:102 میں کیا گیا ہے۔
اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صرف بتوں کی پوجا کی ممانعت ہے۔
4) کفر کرنے کی وجہ سے سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں ۔
5) اخلاص کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔او ر یہی چیز ہے جو اقتدار وحکومت کے فتنے سے بچا سکتی ہے۔
6) اللہ تعالی کی عظمت کا بیان ہےکہ سارے سمندروں کو سیاہی بنا کر اللہ کی تعریف کے کلمات کو لکھنا شروع کر دیے جائیں تب بھی یہ ممکن نہیں کہ اللہ کی حمد وثنا کے کلمات کو لکھا جا سکے اور اس کی مکمل تعریف بیان کی جا سکے۔
7) اس سورت کا خاتمہ اس جامع آیت پر ہوا کہ "قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا” (110) "آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے”۔
اس آیت میں توحید کا اعلان ہے، شرک سے براءت ہے اور اتباعِ سنت کی طرف اشارہ بھی۔کیونکہ کوئی عمل صالح اس وقت تک مقبول نہ ہوگا جب تک اس میں سنت کی موافقت نہ پائی جائے۔
سورت مریم
یہ سورت مکی ہے اور مکہ مکرمہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے۔
یہی وہ سورت ہے جس کی تلاوت حضرت جعفر الطیاررضی اللہ عنہ نے نجاشی بادشاہ کے دربار میں کی تھی۔
اس سورت کا بنیادی موضوع عقیدہ توحید اور ہر ایسے کام سے اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔
اسی طرح اس سورت کا دوسرا موضوع آخرت ہے، جس پر سورت کے درمیان سے لے کر آخر تک کافی زور دیا گیا ہے۔
اس سورت میں اللہ کی صفتِ رحمت کا خصوصی ذکرہے،بلکہ اس سورت میں اللہ تعالی کا نام "الرحمن” سولہ مرتبہ استعمال ہوا ہے جس سے شاید نصاری کو یہ ہدایت دینی ہے کہ "اسلام ” دینِ رحمت ہے۔
o آیت نمبر 1سے 15تک حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر خیر ہوا ہے کہ ان کے یہاں کس طرح عام عادات سے ہٹ کر حضرت یحیی علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہے،جبکہ وہ بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گئے تھے اور ان کی بیوی بھی بانجھ یعنی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ تھی۔
o حضرت زکریا علیہ السلام جو آلِ یعقوب کے علمی وارث تھے جب ان پر بڑھاپا طاری ہوگیا اور ان کو کوئی اولاد نہ ہوئی جو ان کی علمی وارث بنتی تو آپ نے اللہ تعالی کے اس کرم کاواسطہ دے کر دعاکی جو دعا کی کہ مجھے کوئی وارث عطا فرما جو تیرے یہاں اور لوگوں کا پسندیدہ ہو۔کیونکہ میرے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لائق نہیں ہے۔ حالانکہ وہ انتہائی کمزوری اور بڑھاپے کو پہنچ چکے تھے اور ان کی بیوی بھی ایک بانجھ عورت تھی ، باوجود اس کےاللہ تعالی نے ان کے یہاں حضرت یحیی علیہ السلام کی پیدا ہونے کی خوشخبری دی۔ اور جب حضرت زکریاء کو اس پر تعجب ہوا تو بطور علامت یہ بتلایا کہ تمام اعضاء بظاہر صحیح وسالم ہونگے، اس کے باوجود تم تین رات ودن لوگوں سے گفتگو نہ کر سکو گے ۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ تمہاری بیوی کو حمل قرار پاگیا ہے۔
موضوع سے متعلق ان آیات پر غور کریں تومعلوم ہوگا کہ یہاں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے:
1) دعا کی قبولیت اللہ کی رحمت ہے، جو اس کی شانِ ربوبیت کا ایک مظہر ہے۔ یعنی اللہ تعالی اپنے ہر بندے کی دعا قبول کرتا ہے جیسا کہ ہر ایک بندےکو روزی دیتا ہے ۔
2) دعا کا بہتر طریقہ آہستہ آہستہ دعا کرنا ہے جو اخلاص کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔
3) اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔
4) دعا صرف اولاد کے لئے نہیں بلکہ نیک اولاد کی دعا کرنی چاہئے۔ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (6) اے میرے رب! تو اسے مقبول بندہ بنا۔
5) اصل وراثت علم و دین کی وراثت ہے اور اسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
6) اللہ کی قدرت کہ حضرت زکریا علیہ السلام زبان رکھتے ہوئے صحت مندی کے عالم میں مخصوص دنوں کے لئے لوگوں سے بات نہ کر سکتے تھے۔ جبکہ ذکرو اذکار اور تسبیح و تہلیل کے لئے ان کی زبان برابر چلتی رہتی تھی۔
7) حضرت یحیی علیہ السلام کی فضیلت کہ انہیں بچپن میں ہی حکم(فیصلہ یا نبوت)اور کتاب کا علم ملا، اللہ تعالی نے انہیں بہت شفقت کرنے والا ،نہایت ہی پاکباز اور متقی بنایا ،نیز والدین کا فرمانبردار اور اطاعت شعار بنایا ۔
8) نیز یہ کہ وہ ہر اعتبار سے امن وامان کے پیکر تھے۔
o آیت نمبر 16سے 33تک حضرت مریم بتول کے یہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے ۔
o حضرت مریم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ کس طرح اپنے اہل خانہ سے دور ہوکر تنہائی میں عبادت میں مشغول تھیں کہ حضرت جبریل نے آکر انہیں بیٹے کی خوشخبری سنائی۔حضرت مریم نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ اولاد تو مرد وزن کے ملاپ کے بغیر ممکن نہیں ،جبکہ نہ تو میری شادی ہوئی ہے اور نہ ہی میں بد کردار ہوں، تو میری یہاں اولاد کیسے ممکن ہے؟فرشتے نے اطمینان دلایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور وہ اسے اپنی قدرت تخلیق کی ایک نشانی بنانا چاہتا ہے۔
o پھر جب حمل کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں تو حضرت مریم وہاں سے دور چلی گئیں۔
o آگے حضرت مریم کو دردزہ کی شکایت ،اور اپنی حالت پر افسوس اور پھر اللہ کی طرف سے تسکین کے سامان، ان سب کا ذکر ہوا ہے۔
o پھر قوم کے پاس حضرت مسیح کو لیکر آنے ، قوم کا اس پر تعجب کرنے،اور پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی اس معجزانہ کفتگوکا ذکر ہے، جس سے حضرت مریم کی عصمت وعفت پر لگنے والےہر قسم کے بدنما داغ صاف ہو جاتے ہیں۔ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (30) وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (31) وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا (32) وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (33)”بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا۔ اور اس نے مجھے بابرکت بنایا ہے جہاں کہیں بھی رہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکاۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں اندہ رہوں۔ اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمتگار بنایا ہے اور مجھے سرکش وبدبخت نہیں بنایا ۔اور مجھ پر میری پیدائش کے دن ، میری موت کے دن اور جس دن میں زندہ کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہی سلام ہے۔
o آیت 33تا 37میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حقیقت او ران کی تعلیمات کا ذکر ہوا ہے کہ
1) وہ انسان ہیں،اور یہ کہ اللہ کے مقام کے لائق نہیں کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔
2) ہر ایک کا رب اللہ ہے ،لہذا اسی کی عبادت ہونی چاہئے۔
3) توحید کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے۔
o آیت 38تا 40میں صراط مستقیم سے منہ موڑنے والوں کو آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے اور اس دن کی حسرت اور افسوس سے آگاہ کیا گیا ہے۔
o آیت نمبر 41سے 50تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیرہے،اور چند اہم باتیں بیان ہوئی ہیں۔
1) ان کا اپنے والد کو دعوت دینے کا ذکرہے۔اور قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ والد کافر ہے،سخت مخالف ہے اور گھر سے نکالنے او ر سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہا ہے او راپنےسے جدا ہونے کا حکم دے رہا ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسلوب کس قدر ادب پر مبنی ہے کہ "يَٰٓأَبَتِ ” (اے ابا جان )ہی کہہ کر پکارتے رہے ۔ اور جب باپ اپنی ضد پر اڑا رہا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے دور ہوجانے کا نعرہ بلند کرتا رہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخر میں فرمایا” اگر آپ کی رضا اسی میں ہے کہ میں آپ سے جدا ہو جاؤں تو آپ پر سلام ہو او رمیں آپ کیلئے استغفار کرتا رہوں گا۔
2) کمال دین یہ ہے کہ شرک ،اہل شرک او ر اسباب شرک سب سے دوری اور براءت کا اعلان کیا جائے۔
3) عبادت اور دعا دونوں ہم معنی ہیں۔چنانچہ فرمان الہی : وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا (48) فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ” میں تو آپ لوگوں کو بھی اور جن جن کو اللہ کے سوا آپ لوگ پکارتے ہیں انہیں بھی چھوڑ رہا ہوں، صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ، مجھے یوین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محروم نہ رہوں گا۔ جب ابراہیم ان سب کو اور اللہ کے سوا وہ جن کی عبادت کرتے تھے انہیں بھی چھوڑ دیا "۔
غور کریں اس فرمان میں غیر اللہ کی عبادت کو ایک جگہ دعا اور دوسری جگہ عبادت سے تعبیر کیا ہے۔
4) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے عوض اللہ تعالی نے انہیں اسحاق و یعقوب کا عطیہ دیا۔
o آیت نمبر 51سے 57تک حضرت موسی وہارون ،حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس علیہم السلام کا ذکر خیر ہوا ہے اور ہر ایک کی الگ الگ صفات بیان ہوئی ہیں۔
o حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ وہ مُخلِص تھے ۔
o حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا وہ وعدے کے پکے تھے اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتے تھے۔
o اور حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ صدیق [انتہائی سچے] اورنبی تھے او ر ہم نے انہیں بلند مقام عطا کیا۔
o آیت 58 اور 59 میں اللہ کے نیک بندوں (انبیاء و صالحین)اور اللہ کے ناشکرے بندوں کی صفات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
o اللہ کے نیک بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہوتے ہیں اوروہ جب اللہ کے کلام کو پڑھتے او ر سنتے ہیں تو انہیں رونا آتا ہے۔آیت؛58
تفسیر طبری میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سورت مریم کی تلاوت کی اور جب آیت سجدہ پر پہنچے تو سجدہ کیا۔ پھر فرمایا: یہ تو سجدہ ہو گیا،مگر رونا کہاں ہے؟۔
o ناشکرے بندوں کی صفت یہ بیان ہوئی کہ وہ نمازوں کو ضائع کرتے ہیں اور خواہشات کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ یعنی وہ اللہ کی نہیں نفس کی پوجا کرتے ہیں ۔آیت:59
o البتہ ان کے لئے اللہ نے توبہ کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے، کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور ایمان وعملِ صالح کا اہتمام کرلیں تو وہ جنت میں داخل ہونگے اور ان کا اجر مارا نہ جائے گا ۔آیت:60
o آیت 60تا 63میں جنت کی نعمتوں اور اس کے مستحقین کا ذکر ہے،جس سے واضح ہوتا ہے کہ گویا جنت اس کو ملے گی جو تقوی کی صفت اختیار کرے گا ۔
o آیت 64 اور 65 میں حضرت جبریل کی زبانی اللہ کی عظمت کا بیان ہے اور نبی ﷺ کو تسلی دینے کا ذکر ہے کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر آپ کے پاس نہیں آ سکتے او ر ہم اپنے کسی بھی کا م میں اپنی مرضی اور اختیار سے نہیں چل سکتے ، اللہ تعالی ہمارے تمام امور کا مالک ہے او ر ہم پر اس کو قدرت وطاقت حاصل ہے۔
o یاد رہے کہ آیت نمبر65 (رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا) سے علماء نے توحید کی تین قسموں پر استدلال کیا ہے،آپ بھی کوشش کریں کہ وہ کس طرح ہے ۔
o آیت 67تا 72میں کافروں کے اس باطل خیال کی تردید ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا،اللہ تعالی نے اس کے کئے جواب اس مقام پر دئیے ہیں:
1) اللہ نے اس کا عقلی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ انسان کیوں اپنی تخلیق پر غور نہیں کرتا؟ یہ پہلے کچھ بھی نہ تھا اور ہم نے اسے پیدا کیا ۔ یعنی جو رب اسے عدم سے وجود دے سکتا ہے وہ مارنے کے بعددوبارہ زندہ کرنے پر قادر کیوں نہیں ہو سکتا ؟۔
2) قسم کھا کر بڑے ہی تاکیدی انداز میں ایسے لوگوں کو زندہ کرنے، جمع کرکے پھر جہنم میں ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔ انداز ایسا زبردست ہے کہ دل دہل جائیں ۔
3) شیطانوں کے ساتھ سب کافروں کو جمع کیا جائے گا اور سب جہنم کے پاس گھٹنوں کے بل حاضر کئے جائیں گے۔ پھر حسب جرم ایک ایک کرکے جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے۔
4) جہنم پر سے گزر تو ہر ایک کا ہوگا ،البتہ نیک لوگ بچا لئے جائیں گے او ر کافروں کو اس میں دھونس دیا جائے گا۔
o آیت 73تا 76میں دنیا پر مغرور اور خام خیال لوگ جو قرآن کے بیان کردہ عقیدہ آخرت کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر ہمیں دنیا میں اونچا مقام حاصل ہے تو اللہ تعالی قیامت کے دن بھی ہمیں اچھا مقام دے گا۔
اس کے جواب میں نبی ﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ بھٹکے ہوئے ہیں انہیں اللہ تعالی ایک مدت تک کیلئے مہلت دیتا ہے، لیکن جب ان پر اللہ کے عذاب یا قیامت کا وقت آجائے گا تب انہیں پتہ چلے گا کہ مقام و مرتبے کے لحاظ سے کون برا ہے اور لشکر کے اعتبار سے کون سب سے زیادہ کمزور ہے؟۔
o آیت نمبر 77سے 80تک مکہ کےایک سرکش کافر عاص بن وائل کا ذکر ہے جس نے حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کا حق مارلیا تھا اور مطالبے پر کہتا تھا: تم جب تک محمد ﷺ کے ساتھ کفر نہیں کرو گے اس وقت تک تمہارا حق نہیں دوں گا،اس پر حضرت خباب نے جواب دیا تھاکہ یہ کام تو میں اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالی تجھے مار کر دوبارہ زندہ نہ کرے(یعنی کسی بھی صورت میں ایسا نہیں کر سکتا )۔
o اس نے(مذاق اڑاتے ہوئے ) کہا جب ایسا ہوا تو جس طرح مجھے یہاں مال ملا ہے وہاں بھی ملے گا تو جو مال مجھے وہاں ملے گا میں اس میں سے تیرا حق دے دوں گا ۔
o اس پر اللہ تعالی نے یہ آیتیں نازل فرمائیں کہ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے ؟یا اللہ رحمان سے اس نے عہد لیا ہے کہ اسے وہاں بھی مال و دولت سے نوازا جائے گا؟
o ہرگز نہیں ،ہم اس کی ساری باتیں لکھ رہے ہیں اور اس کی بد کلامی کے عوض اس کے عذاب میں اضافہ کریں گے ، وہ اس دنیا میں اپنے جس مال پر ناز کر رہا ہے اسے ہلاک کر کے ہم اس کے وارث بنے والے ہیں، اورجب وہ قیامت کے دن ہمارے پاس آئے گا تو اس کے ساتھ نہ اس کا مال ہوگااور نہ جماعت وگروہ۔
o یاد رہے کہ وہ اور اس کے ساتھی اپنے جن باطل معبودوں کے پر ناز کرتے ہیں وہ سب قیامت کے دن ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
o آیت نمبر 82سے 87تک نبی ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ،ہم ان کی مدت مہلت پوری ہونے کے منتظر ہیں،انہیں اپنی او ر اپنے باطل معبودوں کی بے کسی کا اندازہ اس وقت ہوگا جب ہم نیک لوگوں کو جنت کی طرف لے جائیں گے اور مجرموں کو جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے جہنم میں دھکیل دیں گے، جہاں ان کا کوئی سفارشی نہ ہوگا۔
o آگے کی آیتوں میں اللہ کی شان کے بارے میں مشرکین کی بعض نازیبا حرکات پر خبر دار کیا گیا ہے۔
o جیسے یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اولاد بنا رکھی ہے ۔
o جبکہ یہ اتنی بڑی بری بات ہے کہ اس کے تصور سے آسمان گر پڑیں، زمین پھٹ جائے او ر پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
o اللہ کی شان تو یہ ہے کہ آدم سے لیکر قیامت تک سبھی لوگ اس کے سامنے تنہا اور ایک مجبور غلام کی شکل میں حاضر ہوں گے ۔
o آخر میں نبی ﷺ کو یہ حکم ہے کہ آپ کاکام صرف اس کتاب کے ذریعے مومنین جن سے اللہ محبت کرتا ہے انہیں خوشخبری سنانا ہے اور مجرم اور جھگڑالو قوم کو ڈرانا ہے ۔
o آخری آیت میں نبیﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ جھگڑالو قوم! جو آپ سے الجھے ہوئے ہیں، یہ سوچیں کہ ان سے قبل حکومت وسلطنت اور جا وتمکنت والے کتنے لوگ گزرچکے ہیں ، ان کے بارے میں سوچیں کہ جب اللہ تعالی نے انہیں نبیوں کی مخالفت کی پاداش میں پکڑا تو آج وہ ایسے بے بس ہوگئے ہیں کہ ان کی کوئی حس وحرکت بھی سنائی نہیں دے رہی ہے۔
سورت طہ
یہ سورت مکی ہے اور مکہ مکرمہ کے درمیانی دور میں نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی اسلامی عقیدہ جیسے توحید،نبوت او رآخرت ہے۔
اس سورت کا اکثر حصہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے پر مشتمل ہے او راس کی روشنی میں آخر کے چند صفحات آخرت پر ایمان او راس میں کامیابی کے اصول پر مشتمل ہیں۔ بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس سورت میں بنیادی چیز یہ پیش کی گئی ہے کہ اسلام اور قرآن سعادت کے مرکز ہیں،شقاوت وبد بختی کے نہیں۔
o آیت 1تا 8میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کسی بھی صورت میں ہو، خواہ پڑھنے پڑھانے ،یا دعوت او رعمل ،کسی بھی لحاظ سے یہ باعث بد بختی نہیں ہے ،بلکہ یہ تو لوگوں کے لئے نصیحت و ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ اور ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ اس کا نازل کرنے والا آسمان و زمین کا خالق،رحمان،عرش پر مستوی ،آسما ن و زمین کا مالک اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تو وہ کسی چیز کو نازل کرکے لوگوں کو بدبخت کیوں کربنا سکتا ہے ۔
o بلکہ وہی عبادت کے لائق ہے۔اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (8)”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،اور اسی کے پیارے پیارے نام ہیں”۔
o آیت نمبر 9سے حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ شروع ہوا ہے اور تقریبا سو آیات میں بیان ہوا ہے۔
o آیت نمبر 9سے 14تک میں موسی علیہ السلام کی مدین سے واپسی پر وادیِ مقدس میں نبوت و رسالت ملنے کا ذکر ہے۔
o آیت نمبر 14سے 16 حضرت موسی علیہ السلام کو توحید پر ثابت قدمی،نماز کے اہتمام اور آخرت کے عقیدے پر توجہ دلائی گئی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی صحبت ،ان کے دباؤ اور ان کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر قیامت پر یقین اور نماز کے بارے میں کوتاہی نہ کریں ۔
o آیت 17تا 24میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو عصا یعنی لاٹھی او رید بیضا یعنی چمکتے ہاتھ کا معجزہ دے کر فرعون کے دربار میں دعوت کیلئے بھیجا۔
o آیت 25تا 37میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو بڑی اہم ہے ۔
o نیز یہ کہ دعوت کے کام میں کسی مخلص ساتھی کی بڑی ضرورت او ر اہمیت ہوتی ہے ،اسی لئے حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کی نبوت کی دعا کی اسسو ر اللہ نے ان کی دعا قبول کی۔
o نیز اللہ تعالی نے جہاں موسی علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا وہیں تسلی او ر اطمینان دلانے کے لئےطور پہاڑ پر وہ انعامات گنوا ئے جو موسی علیہ السلام کی پیدائش سے بڑے ہونے تک ان پر کئے تھے۔جیسے سمندر میں ڈالا جانا، پھر بچا کر فرعون کے گھر میں لانا، اس کے بعد آپ کی والدہ کی گود تک پہنچانا، پھر مدین میں ٹھکانا دینا ۔ اور سب سے بڑا احسان یہ کہ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي (41)یعنی میں نے تمہیں اپنی نبوت کیلئے تیار کیاہے۔
o آیت 42تا 53میں فرعون کے دربار میں حاضری اور اس کے ساتھ ساتھ اس مکالمے کا ذکر ہے جس سے فرعون کی ضد اوردشمنی کھل کر سامنے آتی ہے، چنانچہ موسی علیہ السلام کی دعوتِ توحید پر فرعون سوال کرتا ہے کہ موسی! تم لوگ کس رب کو ماتے ہو؟ موسی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:ہم اس رب کو مانتے ہیں جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر چیز کو اس کی ضرورت کی چیزیں بتلادیں۔ فرعون نے بات کو دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا کہ تو پہلے لوگ جو میری ہی طرح بقول تمہارے کفر وشرک کرتے آئے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ موسی علیہ السلام نے اس کے جواب میں صرف یہ فرمایا کہ ان کا معاملہ اللہ تعالی کے پاس ہے ، اللہ تعالی کے پاس ان کے اعمال ونیتوں کا رکارڈ موجود ہے ، جس کے جیسے اعمال ہوں گے اسے ویسا ہی بدلہ ملےگا۔
o اس مکالمہ کے بعد تین آیات میں توحید کا درس ہے اور وہ بھی اللہ کی چند نعمتوں اور قدرتوں کے کے ذکر کے بعد۔
o یہاں چند باتیں زیادہ قابل غور ہیں ۔
اولا- اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے ذکر کا حکم دیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی اہم کام کو انجام دیتےوقت اللہ کے ذکر کی بڑی اہمیت ہے۔
ثانیا-اسی طرح حضرت موسی و ہارون علیہما السلام سے اللہ تعالی نے فرمایا کہ دعوت دیتے وقت فرعون سے نرم لہجے میں بات کرنا۔
اس سے گویا دعوت کا یہ اسلوب سکھایا جا رہا ہے کہ کسی بھی بڑے منصب والے ، یا مالدار اور سر کردہ لوگوں کو دعوت نرم انداز میں دینی چاہئے۔
ثالثا- اس کائنات میں پائی جانے والی اللہ تعالی کی نشانیوں سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو صاحب عقل ہو اور اپنی عقل سے کام لیتا ہو۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى (54) "بے شک اس میں عقل والوں کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں”۔
o اس مقام پر اہم آیت کا ذکر ہے جو کسی مردے کی قبر پر مٹی ڈالنے والے پڑھتے ہیں۔ جس میں انسانوں کو خبر دارکیا گیا ہے کہ یہ زمیں جو تمہارے لئے بچھونا ہے،تمہاری پیدائش بھی اسی زمین سے ہے اور قریب ہے کہ مرنے کے بعد اسی میں دفن کئے جاؤگے اور وہ وقت دور نہیں ، اس دنیا میں جوکیا ہوگا اس کا حساب دینے کے لئے اسی زمیں سے تمہیں دوبوارہ اٹھایا جائے گا۔ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (55)” اسی زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوباره تم سب کو نکال کھڑا کریں گے”۔
o آیت 57تا 73میں یہ بیان ہے کہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود فرعون موسی علیہ السلام کو جھٹلانے اور حق کے انکار پر اڑا رہا ، اور موسی علیہ السلام کے مقابلہ کے لئے اپنے جادوگروں کو جمع کیا۔
o پھر آگے موسی علیہ السلام کا جادوگروں کو نصیحت کرنا، نہ مانے کی صورت میں مقابلہکرنا، پھر بالآخر موسی علیہ السلام کی کامیابی او ر جادوگروں کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔
o اس میں دو باتیں بڑی اہم ہیں:
1) موسی علیہ السلام کا جادوگروں کے مقابلے میں ان کے کرتب سے خوف کھانا۔ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى (67) "پس موسی (علیہ السلام) نے اپنے دل ہی دل میں خوف محسوس کیا”۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خوف انسان کی فطرت میں ہے۔ لیکن اللہ تعالی ایسے وقت میں اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے او ران کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ جیسا کہ اسی واقعے میں فرمایا: قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى (68) "ہم نے (انہیں تسلی دیتے ہوئے) کہا: کچھ خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا”۔
اور اسی واقعہ کے شروع میں ہے: قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى (46) "اللہ تعالی نے فرمایا: تم مطلقا خوف نہ کرو، میں تمہارے ساتھ ہوں ، سنتا اور دیکھتا رہوں گا”۔
2) سچا ایمان دل پر کس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ جو جادوگر حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں آئے تھے، وہ صبح کو تو کافر تھے لیکن حق واضح ہونے کے بعدشام ہوتے ہوتے ایسے موحد بن گئے کہ قتلہونے،سولی پر لٹکائے جانے اور سخت سے سخت عذاب کی دھمکی بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگا سکی ۔
o آیت 74- 76 میں ضمنا اللہ تعالی نے کافروں اور مومنوں کا انجام بھی بیان کردیا ہے کہ حالت کفر پر مرنے والے کے لئے جہنم ہیں، اور جہنم میں بھی ایسا عذاب ہے کہ جس میں وہ نہ مرے گا کہ آرام مل جائے اور نہ زندہ رہے گا کہ زندگی کو کوئی مزا ملے۔
o اس کے برخلاف جو شخص ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگا اس کے لئے نعمتوں والی جنت اور اس میں بلند درجات ملیں گے۔
o آیت 77تا 82میں یہ بیان ہے کہ جب فرعون اور اس کی جماعت ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئی اور بنو اسرائیل پر اپنا عذاب اور تیز کردیا تو اللہ تعالی نےموسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم اور مومنین کو مصر سے لے کر راتوں ورات سینا کی طرف نکل جائیں۔ لیکن فرعون کو اس کی بھنک پڑ گئی اور فرعون اور اس کے لشکر نے موسی علیہ السلام اور آپ کے ساتھہوں کا تعاقب کیا ۔ نتیجۃ موسی علیہ السلام اور آپ کے ساتھی تو بحکم الہی سمندر پار کر گئے، لیکن اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں ڈبو دیا۔
o ضمنا اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر اپنے متعدد احسانات کو یاد دلایا ہے۔
1- غلامی سے آزادی دلائی۔
2- طور پہاڑ پر بلا کر دینی احکام پر مشتمل کتاب عطا کی۔
3- بلا مشقت من وسلوی کی شکل میں پاکیزہ روزی عطا کی۔
o اس کے عوض مطالبہ یہ کیا کہ تم ہمارا شکر بجا لاؤ اور پاک روزی کھاؤ اور اس میں تجاوز نہ کرو ورنہ عذاب کے مستحق ٹھہرو گے۔
o آیت 82 بڑی اہم اور معنی خیز ہے جس میں جہاں ایک طرف توبہ کی دعوت اور اس کے نیک انجام کا بیان ہےوہیں اس میں توبہ کی متعدد شرطیں بیان کردی گئی ہیں۔ غور کریں اور انہیں اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کریں ۔
o آیت نمبر 82سے 97تک میں چند روز کے لئے موسی علیہ السلام کا اپنی قوم سے دور رہنے کا ذکر ہے۔ یہ وہ موقعہ جب اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے وعدہ فرمایا کہ اپنی قوم کے ستر سرداروں کا نتخاب کرکے ساتھ لاو، اور طور پہاڑ کی دائیں جانب چالیس دن قیام کرو تو تمہاری ہدایت کے لئے تورات عطا کروں گا۔
o یہاں ہوا یہ کہ موسی علیہ السلام اللہ سے ملاقات کے شوق میں اپنی قوم کے ساتھ چلنے کی پرواہ کئے بغیر جلدی جلدی آگے بڑھ گئے اور قوم کے ساتھ ساتھ چلنے کی پرواہ نہ کی ۔
o موسی علیہ السلام کی اس عدم موجودگی کو غنیمت سمجھ کر سامری نے قبطیوں کے زیورات کو جمع کرکے ایک بچھڑا تیار کیا اور بنی اسرائیل کو ایسا دھوکے میں رکھا کہ یہ تمہارا رب ہے۔ موسی اسی کی تلاش میں گئے تھے لیکن راستہ بھٹک گئے۔
o حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا کہ اے میری قوم کے لوگو! یہ بہٹ بڑا فتنہ ہے۔ تمہارا حقیقی معبود اللہ رحمان ہے۔ لہذا میری بات مانو اور میری تابعداری میں رہو۔
o لیکن بنی اسرائیل ہارون علیہ السلام کی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہ ہوئے ۔ اسرائیلیوں کو یہ گائے پرستی اتنی اچھی لگی کہ حضرت ہارون کی نصیحت کو نہ صرف ٹھکرا دیا، بلکہ کہنے لگے کہ ہم اس کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ، جب موسی واپس آئیں گے تو دیکھا جائے گا۔ ۔
o حضرت موسی علیہ السلام واپس آئے تو یہ منظر دیکھ کر غصے میں آگئے اور حضرت ہارون کی داڑھی اور بال پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا ۔
o حضرت ہارون علیہ السلام نے معذرت کی کہ قوم کی گوسالہ پرستی میں میرا کوئی دخل نہیں ہے ۔ میں نے تو انہیں سختی سے روکا تھا ۔ مجھے ڈر رہا کہ اگر مزید سختی کی یا موحدین کو لے کر آپ کے پیچھے چلا آتا تو آپ ہمیں یہ الزام دیتے کہ تم نے قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔
o پھر اس کے بعد موسی علیہ السلام کا سامری سے مکالمہ اور اس کے جواب کا ذکر ہے۔
o اس وقت موسی علیہ السلام نے حجت قائم کرنے کے لئے اور اپنی قوم کے اطمینان کے لئے ایک کام تو یہ کیا کہ اسے "لامساس” یعنی مجھے کوئی نہ چھوئے کی بد دعا دی۔یعنی سامری کو ایسی بیماری لگی کہ کوئی اسے چھوتا یا وہ کسی کو چھولیتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی۔ اس لئے وہ لوگوں سے کہتا پھرتا کہ میرے قریب مت آؤ،مجھ سے دور رہو، مجھے چھونا نہیں۔
o او ردوسرا کام حضرت موسی علیہ السلام نے یہ کیا کہ اس جھوٹے معبود کو جو سامری نےبچھڑے کی شکل میں بنایا تھا جلا کر راکھ کر دیا ،اور اس کی راکھ کو سمندر میں ڈال دیا۔ اور یہ اعلان فرمایا کہ إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا (98) اے لوگو! تمہارا معبود صرف وہ اللہ ہے ، جسکے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے ، وہ اللہ ! جس کا علم ہر چیز پر وسیع ہے۔
o آیت نمبر 99سے 101تک موسی علیہ السلام کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے نبی کریمﷺ کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ یہ قرآن جو اللہ کا ذکر بن کر آیا ہے جو اس سے منہ موڑے گا اس کا انجام قیامت کے دن برےسے برا ہوگا۔
o ایک تو یہ کہ قرآن سے اعراض کرنے والے پر گناہوں کا بڑا بوجھ ہوگا۔ دوم یہ کہ وہ بوجھ بہت ہی برا ہوگا۔ اس معنی میں کہ نہ تو اس سے کبھی نجات ملے گی اور نہ ہی اس کے اٹھانے میں کوئی مددگا رہوگا،۔
o پھر آگے قیامت کے بعض مناظر پیش کئے گئے ہیں:
1) مجرموں کو اس حال میں ہانک کر لایا جائے گا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہونگے۔
2) خو ف ودہشت اور گھبراہٹ کا یہ عالم ہوگا کہ دنیا کی زندگی صرف ایک دن کی مدت محسوس ہوگی۔
3) پہاڑوں کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں اڑا دیا جائے گا۔
4) لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ کسی کو بات کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔
5) اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی جرأت نہیں ہوگی۔
6) جو ظالم یعنی مشرک ہے اس دن وہ اصلی خسارے میں ہوگا۔
7) البتہ اہل ایمان کو اس دن نہ ظلم کا خوف ہوگا اور نہ حق تلفی کا ڈر ہوگا۔
o آیت 113اور 114میں قرآن کی اہمیت اور اس کے بعض آداب کا ذکر ہے۔
اہمیت یہ کہ قرآن مجید اللہ کا نازل کردہ ہے ۔ اس میں طرح طرح کی وعیدوں کا ذکر ہے ۔تا کہ لوگ عبرت اور نصیحت حاصل کریں۔
آداب یہ کہ نبی کریمﷺ کو مخاظب کرکے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کرپڑھا جائے، پڑھتے وقت غور وفکر سے کام لیا جائے۔
ایک ادب یہ بھی ہے کہ قرآن کو پڑھنے ، یاد رکھنے، اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے اللہ تعالی سے دعا کی جائے۔
o آیت 115تا 129میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے کا ذکر ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش کے بعد جب اللہ تعالی نے منجملہ ابلیس کے تمام فرشتوں کو آدم کے لئے سجدے کا حکم دیا تو فرشتوں نے سجدہ کرلیا ، البتہ ابلیس سجدے کا منکر رہا۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ ہدایت کی کہ جنت میں رہو ،البتہ شیطان کے مکر سے ہشیار رہنا۔ کہیں یہ بد بخت جنت سے تمہارے اور ےتمہاری بیوی کےخروج کا سبب نہ بن جائے۔
o لیکن حضرت آدم پر ابلیس کی چال کامیاب ہوئی اورانہیں اپنی بیوی کے سمیت جنت سے نکلنا پڑا۔
o اس ضمن میں یہ وضاحت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے اس دنیا میں آتے ہی اللہ تعالی نے ہدایت و رسالت کا سلسلہ شروع کیا ، اب اس ہدایت کو قبول کرنے ہی میں اصل سعادت مندی ہے ۔
o او راس سے اعراض کرنا ہی اصل شقاوت اور بدبختی ہے ۔
گویا اس طرح ہمیں شیطان کی عداوت کی بھی خبر دی جارہی ہے کہ اس کی اتباع بد بختی کا سبب ہے۔
o آیت 130تا 132میں اللہ کے رسول ﷺ کو خطاب کرکے چند نصیحتیں کی جا رہی ہیں جن کا اہتمام اصل سعادت او ر اسی میں اللہ کی رضا ہے:
1) مخالفین کی بیہودہ گفتگو پر صبر کرنا۔
2) صبح و شام بلکہ ہر وقت اللہ کا ذکر کرنا ۔
3) اللہ نے جو رزق دیا ہے اس پر قناعت اختیار کرنا او ر لوگوں کی دنیاوی زیب و زینت سے دور رہنا۔
4) نماز کا اہتمام کرنا اور اپنے اہل و عیال کی نماز پر تربیت کرنا۔
5) او ر سب سے اہم یہ کہ تقوی کا اہتمام کرنا۔
o آخری آیات میں وہی موضوع بیان ہوا ہے جس سے اس سورت کی ابتدا ہوئی تھی ۔یعنی قرآن مجید کی اہمیت۔
اس کو اس طرح بیان کیا گیا :وہ کہتے کہ محمد ﷺ بھی دوسرے نبیوں کی طرح نشانیاں کیوں نہیں لاتے؟جواب یہ ہے کہ کیا قرآن مجید جیسی کتاب ان کے پاس نہیں آئی جس میں پہلے نازل ہونے والی تمام کتابوں کی تصدیق موجود ہے۔نیز ان سابقہ کتابوں میں اس نبی کی صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔
اگر یہ چیز ان کے ایمان کے لئے کافی نہیں تو پھر انہیں عذاب کا انتظار کرنا چاہئے، جو زیادہ دور نہیں ہے۔
o قُلْ كُلٌّ مُتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى (135)”کہہ دیجئے : ہر ایک (انجام کا) منتظر ہے ، پس تم بھی انتظار میں رہو، قریب ہی جان لوگے کہ راہ راست والے کون ہیں اور کون سیدھی راہ پر چل رہے ہیں”۔