سولہواں سال /16:درس نمبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

16:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سولہواں سال  

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

ہجرت کا تیسرا سال :

سن 2 ہجری  کی طرح  ؁  3 ھ    میں  بھی مسلمانوں کو چھوٹی بڑی کئی مہم پر نکلنا پڑا ، جن میں سے بعض یہ ہےہیں :

[۱] کعب بن اشرف کا قتل : یہ ایک عربی النسل  یہودی تھا ،شاعر اور زبان دراز تھا ، غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی پر جل اٹھا تھا  اور سیدھے مکہ مکرمہ جا کر اہل مکہ کی تعزیت کی اور ان کے ساتھ   اپنی  ہمدرد ی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک  کہا  آپ لوگوں  کا دین مسلمانوں  کے دین سے بہتر ہے : [أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آَمَنُوا سَبِيلًا] {النساء:51}

پھر واپس  آکر مسلمانوں  کے خلاف اشعار  کہنے اور مسلمان عورتوں  کا نام لے کر غزلیں  پڑھنا شروع کیا  ، حضرت محمد بن مسلمہ  نے نبی ﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی ، چنانچہ آپ ﷺ اجازت  دے دی چنانچہ  حضرت محمد بن سلمہ اور چند صحابہ نے اس کے قلعہ میں گھس کر اسے  قتل کردیا ۔

[۲] غزوۂ ذی امر ، ربیع الاول ؁  3 ھ   : نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو غطفان  کے لوگ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے  ” ذی امر ” نامی  مقام پر جمع ہورہے  ہیں ، لہذا قبل اس کے یہ لوگ زور پکڑیں  نبی ﷺ نے ان کے اوپر حملہ کرکے تتر بتر کردیا ۔

[۳] سریہ  القردۃ ، جمادی الآخرہ؁  3 ھ   :جب قریش  کی شامی  تجارتی شاہراہ محفوظ نہ رہی تو انہوں نے  راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا  اور عراق کے راستے شام جانے کا ارادہ کیا  ، چنانچہ  ان کا ایک تجارتی قافلہ  عراق کی طرف  روانہ ہوا ، نبی ﷺ  کو جب اطلاع ملی تو آپ نے زید بن حارثہ  کی قیادت  میں سو سواروں  کا ایک دستہ  روانہ کیا ، یہ لوگ القروہ نامی چشمے  پر قریش کے قافلے  کو جا لیا  ، ان کے سردار اور مزید دو آدمی قتل ہوئے  اور بہت سارا مال غنیمت  مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔

[۴] غزوۂ  احد ، شوال؁  3 ھ   :بدر کے مقتولین کا بدلہ  اور اپنی تجارتی  شاہراہوں  کی حفاظت  کے لئے قریش نے 3 ہزار کی فوج جمع کی اور مدینہ منورہ کی طرف  روانہ ہوئے   تاکہ مسلمانوں  سے ایک فیصلہ کن معرکہ  کیا جائے  ، نبی ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ  سےمشورہ کیا ، نبی ﷺ  کے رائے تھی کہ مدینہ منورہ  میں محصور  ہوکر لڑا جائے  لیکن زیادہ تر صحابہ  خصوصا  جوانوں  کی رائے تھی  کہ باہر نکل  کر مقابلہ کیا جائے  ، ادھر  سے قریش  کا لشکر آکر  اور پہاڑ کے پاس آکر خیمہ زن ہوگیا  ، نبی ﷺ  بھی ایک   ہزار  کی فوج کے ساتھ   احد کی طرف  روانہ ہوئے  ، راستے میں  میں عبد اللہ بن ابی   اپنے تین سو ساتھیوں  کے ساتھ واپس ہوگیا  ، باقی فوج احد کے دامن میں  جا کر ٹھہر گئی  ، نبی ﷺ  نے میدان کا جائزہ  لیا ور ابو  عینین نامی ایک   پہاڑی پر 50 تیر اندازوں  کو متعین کردیا  اور تاکید کی کہ کسی بھی صورت میں بغیر  میری اجازت کے یہاں سے نہ ہٹیں  تاکہ  پیچھے  سے مسلمانوں پر  حملہ نہ ہوسکے ۔

چنانچہ  دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں  ، ابتداء میں  انفرادی  مقابلہ کا دور چلا  جس میں  مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا  ، پھر عام حملہ  ہوا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے سے بھڑ گئیں ، تھوڑی ہی دیر میں قریش  کی فوج پسپا ہونے لگی  اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے ، مسلمان فوج ان کا پیچھا  کرنے لگی  اور کچھ لوگ مال غنیمت جمع کرنے لگے  ، ٹھیک  اس وقت تیر اندازوں  میں سے چالیس افراد نے اپنی جگہ چھوڑ دی ، حضرت خالد بن ولید  موقعہ کی تلاش میں تھے  لہذا پہاڑی  کے پیچھے  سے جا کر مسلمانوں کے عقب پر حملہ کردیا  جس سے جیتی جنگ ہار میں تبدیل ہوگئی ، مسلمان  اس اچانک  اور غیر متوقع حملہ کی تاب نہ لاسکے  اور تتر بتر ہوگئے ، ا للہ کے رسول ﷺ  صرف چند صحابہ کے ساتھ  کافروں  کے نرغے میں محصور ہوکر رہ گئے  ، کافروں  کا پورا  زور یہ تھا کہ  رسول اللہ کو شہید کردیں  لیکن آپ کے ساتھ موجود مسلمانوں نے آپ کی حفاظت کا حق ادا کردیا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ  نبی ﷺ کے سر اور چہرے وغیرہ پر متعدد زخم آئے لیکن  کافر  آپ ﷺ  تک پہنچنے میں کامیاب  نہ ہوسکے  ، پھر جب  مسلمانوں  نے آہستہ آہستہ  اپنی طاقت  کو جمع کیا اور نبی ﷺ تک پہنچنے  میں کامیاب ہوگئے  تو قریش  فوج  کو مایوسی  ہوئی اور وہ میدان چھوڑ  کر چلے گئے ۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید  ہوئے جن میں حضرت حمزہ ، حضرت مصعب بن عمیر ، انس بن  النضر ، سعد بن الربیع  اور عبد اللہ بن جرام جیسے  جیالے بھی تھے  ، نبی ﷺ نے تمام شہداء کو بغیر  غسل  میدان جنگ ہی  میں  دفن کردینے کا حکم دیا ۔

کافروں کے مقتولین کی تعداد 22 سے لے کر 37 بتائی جاتی ہے ، واللہ اعلم ۔۔

غزوۂ حمراء الاسد ، شوال ؁3 ھ : غزوۂ احد  میں چونکہ قریش کا پلہ بھاری تھا  لہذا  بغیر فیصلہ کن جنگ لڑے واپس جانے پر وہ شرمندہ ہوئے او رتقریبا  ساٹھ کیلو میٹر  واپس جانے کے بعد پھر واپسی کا ارادہ  کیا ، نبی ﷺ کو جب اس کی اطلاع  ملی تو  ان تمام  مسلمانوں  کو جو غزوۂ  احد میں شریک  تھے تیار ہونے اور نکلنے کا حکم دیا ، چنانچہ  غزوۂ احد سے واپسی  کے دوسرے ہی دن  مسلمان جنوب کی  جانب چل دئے اور  مدینہ منورہ  سے باہر  نکل کر 15 کیلو میٹر کی دوری پر خیمہ زن ہوگئے ، لیکن اللہ تعالی نے دشمنوں کے دل میں خوف ڈالا اور  انہوں نے واپسی کا ارادہ ترک کردیا ۔

حضرت  حسن بن علی کی پیدائش : اسی سال  رمضان میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ  ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے  بطن سے پیدا ہوئے ۔

حضرت حفصہ سے شادی : اسی سال غزوۂ بدر  و احد  کے درمیان  وقفہ میں نبی ﷺ نے حضرت  حفصہ  بنت  عمر  رضی اللہ عنہما سے شادی کی ، ان کے شوہر  حضرت  خنیس  بن حذافہ  جو ایک صاحب الہجرتین  ، سابق الاسلام  اور بدری صحابی تھے ، بدر یا کسی غزوہ میں  زخم لگے کی وجہ سے انتقال کرگئے تھے ۔

حضرت زینب بنت خزیمہ سے شادی : یہ زمانہ جاہلیت میں ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں  ، ان  کے شوہر  غزوۂ بدر میں شہید  ہوگئے تھے ، اسی سال نبی ﷺ  نے ان سے شادی کی تقریبا نو ماہ آپ کی زوجیت میں رہ کر ؁  4  ھ میں وفات پائیں ۔

حضرت عثمان کی شادی حضرت ام کلثوم سے رضی اللہ عنہما : حضرت عثمان کی بیوی  حضرت رقیہ بنت  رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوچکا تھا ، لہذا ان کی دل جوئی  کے لئے  نبی ﷺ نے اپنی  دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم  کو بھی  ان کی زوجیت  میں دے دیا ، یہ ربیع الثانی ؁   3 ھ کا واقعہ ہے ۔