سوگ کے احکام/حديث نمبر :171

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :171

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ :27/28/ جمادی الآخرہ1432 ھ، م 31/30،مئی 2011م

سوگ کے احکام

عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ : ” كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ .

( صحيح البخاري : 5341 ، الطلاق – صحيح مسلم :938 ، الطلاق :67 )

ترجمہ : حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم مسلمان عورتوں کو [ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ] منع کیا گیا ہے کہ ہم کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائیں ، ہاں ! اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن کا سوگ ہے ، اور اس درمیان نہ تو ہم سرمہ لگائیں نہ خوشبو لگائیں ، نہ رنگا ہوا کپڑا پہنیں ، مگر وہ کپڑا جس کی بناوٹ رنگین دھاگوں سے ہو ، البتہ ہمیں یہ رخصت دی گئی کہ حیض سے طہارت کے وقت معمولی قسط یا ظفار کی خوشبو استعمال کرلیں ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }

تشریح : اسلام سے قبل عورتوں پر معاشرتی ظلم کے جو مظاہر رائج تھے ان میں سے ایک مظہر شوہر کی وفات کے بعد سوگ بھی تھا ، بعض قوموں میں اسے سال بھر اس طرح گزارنا پڑتا تھا کہ ایک چھوٹے اور تاریک ترین کمرے میں اسے رکھ دیا جاتا تھا ، خراب سے خراب تر کپڑے پہننے کے لئے دئے جاتے تھے ، نہانے دھونے کی اجازت نہ ہوتی تھی ، حتی کہ سال گزرنے تک اس کی صورت اس قدر وحشتناک اور جسم اس قدر بدبو دار ہوجاتا تھا کہ اگر کسی پرندے یا جانور کے منہ سے وہ اپنی شرمگاہ کو مس کرتی تو اکثر ایسا ہوتا کہ وہ مرجاتا ، بعض قوموں کے یہاں تو بیوہ کو اپنی پوری زندگی سوگ میں گزارنی پڑتی بلکہ بعض قوموں کے یہاں تو اسے زندہ بھی رہنے کی اجازت نہ تھی ، ہند­ؤں میں ستی کی رسم اس کا ایک دردناک مظہر ہے ، لیکن جب اسلام آیا تو عورت کے اس کے تمام جائز حقوق ملے ، سوگ سے متعلق بھی آسان اور مبنی بر حکمت احکام دئے گئے ، جن میں سے اکثر کا ذکر زیر بحث حدیث میں ہے ، نیز دیگر حدیثوں میں عدت سوگ سے متعلق جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

[۱] کسی عورت کا کوئی قریبی عزیز و رشتہ دار شوہر کے علاوہ انتقال کرجائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ تین دن تک سوگ منائے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ وہ صبر و احتساب سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی رہے جیسا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بچے کی وفات پر کیا تھا ۔

[۲] شوہر کے انتقال پر عورت چار ماہ دس دن سوگ منائے گی اور یہ اسی گھر میں سوگ کے دن گزارے جس گھر میں شوہر کا انتقال ہوا ہے خواہ وہ گھر اپنا ہو یا کرایہ پر لیا گیا ہو ، اگر انتقال کے وقت وہ کسی اور جگہ پر موجود تھی تو خبر سنتے ہی وہ واپس آئے ، اس گھر سے صرف انسانی ضرورت کے لئے نکلے گی ، جیسے علاج کے لئے ، ضروری چیزیں خریدنے کے لئے ، اپنے کھیت میں کام کے لئے ، نوکری وغیرہ کے لئے ، اسی طرح اگر گھر میں اکیلی ہے تو پاس پڑوس کے عورتوں کے پاس گپ شپ کے لئے جاسکتی ہے ، البتہ رات اسی گھر میں گزارے گی ۔

[۳] سوگ والی عورت سادہ لباس پہنے گی خواہ کسی رنگ کا ہو ، البتہ زیب وزینت والے کپڑے ، شوخ رنگ کے کپڑے اور ہر ایسے لباس سے پرہیز کرے گی جو اس کی خوبصورتی کو اجاگر کریں ۔

[۴] پورے ایام سو گ میں زیور نہ پہنے گی خواہ چوڑیوں کی شکل میں ہو یا ہار اور کنگن وغیرہ کی شکل میں ، سونے اور چاندی کے زیور ہو یا ہیرے و موتی کے یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے زیور ۔

[۵] ہر قسم کی خوشبو سے پرہیز کرے گی ، نہانے وغیرہ کے لئے ایسے صابون وغیرہ کا استعمال کرے گی جو خوشبودار نہ ہوں ، البتہ حیض وغیرہ سے پاک ہونے کے بعد جسم کی بدبو کو دور کرنے کے لئے کوئی ہلکی قسم کی خوشبو یا صابون وغیرہ استعمال کرسکتی ہے جیسا کہ زیر بحث حدیث سے ظاہر ہے ۔

[۶] سرمہ اور مہندی وغیرہ استعمال نہ کریگی اور نہ ہی چہرے اور ہاتھ وغیرہ میں کوئی بناؤ سنگھار کی چیز استعمال کریگی ، البتہ کنگھی کرنا جائز ہے ، لیکن اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے سرمہ وغیرہ لگانے کی ضرورت پڑے ، بالوں میں تیل وغیرہ کی ضرورت محسوس ہو تو صرف رات کو استعمال کریگی ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو سلمہ کی وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میں نے اپنی آنکھوں پر ایلوا لگا رکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام سلمہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ یہ ایلوا ہے اور اس میں کوئِی خوشبو نہیں ہے ، آپ نے فرمایا : یہ ایلوا تو ہے لیکن یہ چہرے کو نکھار دیتا ہے ، لہذا صرف رات کو استعمال کرو اور دن میں اسے صاف کردیا کرو ، اور کسی خوشبو والی چیز اور مہندی کے ساتھ سر کو کنگھی نہ کرو ، کیونکہ یہ خضاب ہے ، میں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول تو میں کس چیز کے ساتھ کنگھی کروں ، آپ نے فرمایا : بیری کے پتوں کےساتھ ۔

{ سنن ابو داود ، سنن النسائی } ۔

[۷] جو عورت سوگ کی عدت گزار رہی ہو نہ وہ نکاح کرسکتی ہے ، نہ اسے پیغام نکاح دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی شادی سے متعلق اس سے کوئی معاملہ کیا جاسکتا ہے ۔ { سورۃ البقرۃ : 235 }

[۸] سوگ ان تمام عورتوں پر ہے جو میت کی زوجیت میں ہوں ، خواہ وہ مطلقہ رجعیہ ہی کیوں نہ ہو ، یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جس کی رخصتی نہ ہوئی ہو ، البتہ حاملہ عورت کے لئے عدت و فات وضع حمل ہے یعنی زچگی کے ساتھ ہی اس کی سوگ کے دن بھی پورے ہوجائیں گے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : [وَأُولَاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (4) ].{الطَّلاق}. ” اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے ” ۔

[۹] مذکورہ بالا امور کے علاوہ سوگ والی عورت عام عورتوں کی طرح زندگی بسر کرے گی ، اس پر کسی لباس ، بات یا آمد و رفت وغیرہ کی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کھانے پینے کے بارے میں اس پر کوئی پابندی ہے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں