س / ایک شخص نے اپنی صاحبزادی کی شادی اس عوض میں دوسرے سے کردی کہ وہ اپنی صاحبزادی کی شادی اس سے کردے گا ، ان دونوں میں سے کسی نے بھی لڑکیوں کو علامتی مہر ادا نہیں کی ، تو ایک لڑ کی کے عوض دوسری لڑکی سے شادی جائز ہے یا دونوں کے لئے مہر مقرر کرنا ضروری ہے ؟

س / ایک شخص نے اپنی صاحبزادی کی شادی اس عوض میں دوسرے سے کردی کہ وہ اپنی صاحبزادی کی شادی اس سے کردے گا ، ان دونوں میں سے کسی نے بھی لڑکیوں کو علامتی مہر ادا نہیں کی ، تو ایک لڑ کی کے عوض دوسری لڑکی سے شادی جائز ہے یا دونوں کے لئے مہر مقرر کرنا ضروری ہے ؟
جواب السؤال
بسم الله الرحمن الرحيم

ج : کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیٹی یابہن یا اپنی زیر ولایت کسی دوسری لڑکی کی شادی اس شرط پر دوسرے سے کردے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت کسی دوسری عورت سے اس کی یا اس کے بیٹے کی شادی کردےگا ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسطرح کی شادی سے منع کیا ہے اور اسے ” شغار ” کا نام دیا ہے جس کو کچہ لوگ ” نکاح بدل ” [ سٹے بٹے کا نکاح ] سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔

یہ شادی درست نہیں ہے خواہ اس میں مہر مقرر ہو یا نہ ہو ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح سے منع کرنے کے ساتھ اسے ” شغار ” سے موسوم کیا ہے ، اور اس کی تفسیر یوں کی ہے ” نکاح شغار یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی لڑکی یا بہن کی شادی اس شرط پر دوسرے سے کرے کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی اس سے کردیگا ” یہاں آپ نے مہر کا تذکرہ نہیں کیا ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ممانعت دونوں صورتوں کو شامل ہے ، علماء کے دواقوال میں صحیح ترقول یہی ہے ۔ مسند احمد اور سنن ابی داود میں ” سند جید ” کے ذریعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدینہ منورہ منورہ کے گور نر نے ان کے پاس دو ایسے آدمیوں کے بارے میں لکھا جنہوں نے بدل کی شادی کی تھی اور مہر بھی مقرر کی تھی تو آپ نے جوب میں امیر مدینہ کو حکم دیا کہ دونوں میں تفریق کردی جائے اور کھا کہ یہ وہی ” شغار ” ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ شرط اولیاء کی جانب سے عورتوں پر ظلم ہونے ، نا پسندیدہ شخص سے شادی کرنے پر مجبور کرنے اور انہیں سامان تجارت سمجھ کر اپنی خواہش اور مصلحت کے مطا بق تصرف کر نے کا سبب بنتی ہے ، جیسا کہ آج کل لوگ کر رہے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔

البتہ حضرت ابن عمر کی حدیث میں شغار کی جو تعریف آئی ہے کہ ” کوئی آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر دوسرے شخص سے کردے کہ وہ بھی اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردیگا اور دونوں میں کوئی مہر ادانہ کرے ” تو یہ نافع کا کلام ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے ۔ اور شغار کی نبوی تفسیر نافع کی تفسیر پر مقدم مانی جائے گی ۔ واللہ ولی التوفیق ۔

{مرسل : قیصر محمود، ماخوذ : فتاوی شیخ ابن باز رحمہ اللہ ، ص :168، مطبوعہ : دارالداعی }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں