بتاریخ :22 / جمادی الآخرہ 1435 ھ، م 22،اپریل 2014م
عن أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ مَنْ خَلَقَ كَذَا مَنْ خَلَقَ كَذَا حَتَّى يَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ ( صحيح البخاري : 3276 – صحيح مسلم : 1344 ، الإيمان )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :تم میں سے کسی کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا ، فلان چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ سوال کردیتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ تو معاملہ جب یہاں تک پہنچ جائے تو چاہئے کہ اللہ تعالی سے پناہ مانگے اور رک جائے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب ایسے خیالات پیدا ہوں تو بندہ کہے : ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ۔ { صحیح بخاری – صحیح مسلم } ۔
تشریح :شیطان انسان کاکھلا دشمن اور اس کا ازلی بدخواہ ہے ، وہ انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ، اس کا اصل مقصد اپنے ساتھ انسان کو جہنم تک پہنچانا ہوتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : [إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ] {فاطر:6} یاد رکھو شیطان تمہارا دشمن ہے ، تم اسے دشمن جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنم واصل ہوجائیں۔ یعنی چونکہ شیطان تمہارا دشمن ہے اور اس کا مقصد تمہیں جہنم میں ڈال دینا ہے ، لہذا تم اس حقیقت کو جاں نشیں کرلو اور بالمقابل تم اس سے سخت عداوت رکھو اور اس کے دجل و فریب اور ہتھکنڈوں سے بچو ۔ شیطان ملعون انسان کو صراط مستقیم سے ہٹا نے کے لئے جو حربے استعمال کرتا ہے اس میں سے ایک وسوسہ بھی ہے ،وسوسہ انسانی دلوں کے ان خیالات کو کہا جاتا ہے جو غیر پسندیدہ ہوتے ہیں ، کبھی تو یہ خیالات محض معصیت اور نافرمانی کے قبیل سے ہوتے ہیں ،بسا اوقات ملحدانہ خیالات ، شرع اسلامی پر اعتراضات کے قبیل سے ہوتے ہیں اور کبھی کبھار یہی خیالات عبادت کے فساد کا سبب بنتے ہیں ۔ ملحدانہ خیالات سےمراد وہ وساوس ہیں، جو ذات باری تعالی اور دین اسلامی پر عقیدہ کے مسلمات کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں اس کی مثال حدیث میں یہ دی گئی ہے کہ ہر چیز کو اللہ تعالی نے پیدا کیا تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ، یا جیسا کہ کمیونسٹ اور دہریہ حضرات اس قسم کے سوالات کرتے ہیں ۔
اسی طرح یہ وسوسہ کہ فلاں چیز جیسے سود میں تو فائدہ ہی فائدہ ہے یہ حرام کیسے ہوسکتی ہے ، یا یہ سوچنا کہ عورتوں کا پردہ کیوں واجب قرار دیا گیا ، یا آخر لاٹری میں کیا خرابی ہے کہ اسے حرام کہا جاتا ہے وغیرہ ، اسی طرح طہارت کے معاملے میں وسوسہ یہ ہے کہ وضو کرتے وقت دو بار ، تین بار بلکہ اس سے زیادہ دھولینے کے بعد بھی یہ شبہ باقی رہے کہ شاید ابھی تک ہر جگہ پانی نہیں پہنچا ۔ اس قسم کے متعدد خیالات انسانی دلوں میں شیطان ڈالتا ہے ، اور اس کی کوشش رہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بندے کا عقیدہ یا اس کی عبادت فساد کی شکار ہوجائے
جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کی زندگی مشکل بن جاتی ہے ، عبادات میں انہیں کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی ، حتی کہ بسا اوقات انسان کے دل میں معصیت و نافرمانی یا بد عقیدگی سے متعلق ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان خیالات کو اپنی زبان پر لانا انسان کے لئے موت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہوتا ہے ۔
ایسے موقعہ پر ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہئے اس سلسلے میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ : اولا : ان خیالات پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، ہاں جب یہی خیالات ، خطرات و وساوس سے بڑھ کر قول وعمل کی شکل اختیار کرلیں تو یقینا اس پر مواخذہ ہے ، ارشاد نبوی ہے : اللہ نے میری امت سے دل کے برے خیالات اور وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ اس پر عمل نہ ہو اور زبان سے کہا نہ جائے ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
ثانیا : حتی الامکان ان وساوس کو دور کیا جائے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، جس کے لئے زیربحث حدیث میں تین طریقے بتلائے گئے ہیں : ۱- رک جائے ۔ ۲- اللہ کی پناہ چاہے ۔ ۳- ایمان ۔
[۱] رک جائے۔ اس کا معنی ہے کہ انسان اپنی سوچ کو مزید آگے نہ بڑھائے ،بلکہ یہ سوچے کہ اس کی سوچ اور فکر باری تعالی کے کنہ تک نہ پہنچ سکتی ہے اور نہ اس کی تخلیق کی حکمتوں کو پاسکتی ہےاسے تو صرف یہ سوچنا چاہئے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی انتہا ہے اور تمام مخلوقات کی انتہا اس کا خالق ہے اور اس کے بعد کچھ نہیں ہے، خود اللہ تعالی نے اپنے بارے میں جوکچھ فرمایاہے وہ کافی ہے :[هُوَ الأَوَّلُ وَالآَخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ] {الحديد:3} وہی پہلے ہے [ اس سے پہلے کچھ نہیں ]اور وہی آخر ہے [ اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ] اور وہی ظاہر ہے [ اس سے اوپر کوئی چیز نہیں ] اور وہی باطن ہے [ اس سے پرے کوئی چیز نہیں ] ، نیز فرمایا : [وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ المُنْتَهَى] {النَّجم:42}[۲] اللہ تعالی کی پناہ چاہو۔ یعنی چونکہ یہ جاہلانہ وسوسے اور ملحدانہ خیالات شیطان کی طرف سے پیدا کئے جارہے ہیں، لہذا ان سے بچنے کا سب سے کامیاب علاج اللہ تعالی کی پناہ میں آنا ہے اور اس سے دعا کرنا ہے کہ ایسے خیالات کو دور کردے: [وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ] {فصِّلت:36} اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو یقینا وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ [۳] ایمان۔ ایمان سے مراد یہ ہے کہ چونکہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ خبر ہمیں الصادق و المصدوق نبی ﷺ نے دی ہے جس میں کسی بھی قسم کے شبہے کی گنجائش نہیں ہے ،لہذا ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس سے آگے نہیں بڑھتے ، یہ سوال ہمارے لئے بعینہ اسی طرح قابل غور نہیں ہے جس طرح کسی بینا شخص کے لئے دوپہر کے وقت سورج کی روشنی قابل غور نہیں ہوتی ۔
فوائد :
1) جو چیز انسان کے بس میں نہیں ہے اللہ تعالی اس پر انسان کا مواخذہ نہیں کرتا ، جیسے دلی خیالات و وساوس ۔
2) شیطان کے وساوس سے بچنے کا سب سے بہتر ذریعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے ، ارشاد نبوی ہے : شیطان کو برا بھلا نہ کہو بلکہ اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ۔
3) صحیح ایمان ہر قسم کے برے خیالات کا علاج ہے ۔