بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :66
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 28 / 29 صفر 1430ھ، م 24/23فروری 2009
شیطان سے نجات؟
عن النعمان بن بشير عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السماوات والأرض بألفي عام أنزل منه آيتين ختم بها سورة البقرة ولا يقرآن في دار ثلاث ليال فيقربها شيطان .
( مسند الترمذي : 2882 ، ثواب القرآن ، مسند أحمد : 4/2473 ، عمل اليوم والليلة للنسائي : 967 )
ترجمہ : حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے اللہ تبارک وتعالی نے ایک کتاب لکھی [ اور اسے عرش کے نیچے رکھ دیا ] سورہ بقرہ کو جن دو مبارک آیتوں پر ختم کیا ہے وہ آیتیں اسی کتاب سے لے کر نازل کی گئی ہیں ، وہ دونوں آیتیں جس گھر میں تین دن لگاتار پڑھی جائیں گی ،شیطان اس گھر کے قریب بھی نہ بھٹکے گا ۔
{ سنن الترمذی ، مسند احمد }
تشریح : اللہ تبارک و تعالی نے جس طرح انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اسی طرح قرآن مجید کی بعض سورتوں کو بعض سورتوں پر اور بعض آیتوں کو بعض پر فضیلت بخشی ہے ، انہیں فضیلت والی آیتوں میں سے دو آیتیں سورہ بقرہ کے آخر کی ہیں جن سے متعلق پچھلے درس میں یہ گذر چکا ہے کہ وہ ایسا نور ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کسی نبی کو وہ نور نہیں عطا کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ انہیں یہ انوکھی اور بابرکت چیز عطا کی گئی ہے ، اسی طرح ان آیتوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جوشخص رات میں سورہ بقرہ کے آخری کی دو آیتیں پڑھے گا وہ اس کے لئے کافی ہوجائیں گی
[ بخاری و مسلم بروایت ابو مسعود ]
کافی ہوجانے کا مطلب علماء نے یہ لکھا ہے کہ یہ دونوں آیتیں شیطان کے شر سے پڑھنے والے کو بچالیں گی اوریہ بھی معنی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں آیتیں محنت و مزدوری کرنے والے اور دن میں مشقت کا کام کرنے والے لوگ جو تہجد کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لئے تہجد کے قائم مقام ہوجائیں گی ۔
یہی وجہ ہے کہ صحابی رسول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نہیں سمجھتا کہ ایک شخص مسلمان ہو اور وہ سورہ بقرہ کے آخر کی آیتیں پڑھے بغیر سو جاتا ہو ، کیونکہ وہ آیتیں آپ کے نبی کو عرش کے نیچے کے خزانے سے عطا کی گئی ہیں
[ تفسیر ابن کثیر ]
زیر بحث حدیث میں بھی ان آیتوں کی اسی فضیلت کا بیان ہوا ہے کہ جس گھر میں ان آیتوں کو تین دن تک لگاتار پڑھ دیا جائے اس گھر کے قریب بھی سرکش شیطان نہیں بھٹکتے ، آج ہمارا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جو مردود شیطان کے شر سے محفوظ ہو اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ رات میں ہمارے گھر سے گانوں اور قوالیوں کی آواز تو آتی ہے لیکن قرآن کے تلاوت کی آواز نہیں آتی ، ہمارے بچے فلمی گانے تو گنگناتے رہتے ہیں لیکن قرآن مجید کی آیات ان سے نہ سنیں گے ، ہمارے گھروں میں فلمی رسالے ، گندے پرچے ، فلموں کی سیڈیاں اور گانوں کی کیسٹیں تو کثرت سے مل جائیں گی ، لیکن تفسیر و حدیث کی کتابیں ، اسلامی پرچے اور قرآن و تقاریر پر مشتمل سیڈیاں اور کیسٹیں مشکل سے ملیں گی ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھروں پر شیطان کا تسلط ہے اور رحمت کے فرشتے وہاں سے دور ہیں ، اللہ المستعان ۔
ان مبارک آیتوں کی ایک فضیلت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ جو شخص بھی ان آیتوں کو اخلاص کے ساتھ پڑھے گا اللہ تبارک وتعالی اسے ان آیتوں میں مذکور ہدایت و سعادت سے نوازے گا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے ، جب بندہ ان آیتوں کی تلاوت کرتا اور کہتا ہے کہ ” رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ” اے ہمارے رب ہماری بھول اور خطاوں پر ہماری گرفت نہ فرما ، تو اللہ تعالی فرماتا ہے : ہاں ، میں ایسا ہی کروں گا ، پھر جب بندہ کہتا ہے : ” رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْراً كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ” اے ہمارے رب ! ہم پر اس طرح بوجھ نہ ڈالنا جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اللہ تعالی فرماتا ہے : ہاں ، ایسا ہی ہوگا ، پھر جب بندہ کہتا ہے : ” رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ” اے ہمارے رب !ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہمارے پاس طاقت نہ ہو ، اللہ تعالی فرماتا ہے : ہاں ، میں ایسا ہی کروں گا ، پھر جب بندہ کہتا ہے کہ : ” وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ” اے ہمارے رب ! ہمیں معاف فرمادے ، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، تو ہی ہمارا کار ساز ہے ، پس تو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ، تو اللہ تعالی فرماتا ہے : ہاں ، ایسا ہی کروں گا ۔ [ صحیح مسلم ]
وہ مبار ک تین آیتیں یہ ہیں:
لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَو تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(284) آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْراً كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
مذکورہ تینوں آیتوں کا ترجمہ :
***جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے****
****رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے***
***خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما ***
ختم شده