صف مومن / حديث نمبر: 275

بسم اللہ الرحمن الرحیم

275:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

صف مومن

بتاریخ : 10/ ذو القعدہ 1436 ھ، م  25، اگست 2015 م

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ، قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ».

( صحيح البخاري : 719،725 ، الأذان – صحيح مسلم :434 – مسند أحمد :3/103 )

ترجمہ  : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ ایک بار  نماز کی اقامت  کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ  ہوئے اور فرمایا : اپنی صفوں کو درست کرو اور خوب  مل کر کھڑے ہو ، یاد رکھو کہ میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں [حضرت انس بن مالک  بیان کرتے ہیں کہ  اس کے بعد]   ہم ایک دوسرے  کے کندھے سے اپنا کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے تھے ۔   {صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، مسند احمد }۔

تشریح : نماز باجماعت  کے لئے صف بندی ایک ضروری امر ہے ، جس کے بہت سے مادی و معنوی فوائد  ہیں، بلکہ نماز کی تکمیل  اور اس کے تمام ہونے کے لئے  صفوں کا درست رہنا ضروری بتلایا گیا ہے، نبی ﷺکا ارشاد ہے اپنی صفیں درست کیا کرو ، کیونکہ صفوں کی درستی نماز کا کمال و تمام ہے ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم }۔یعنی صفوں  کی درستی  کے بغیر گویا نماز ہی صحیح نہیں ہوتی ، اس امر کی اہمیت کے پیش نظر نبی ﷺ  نے اپنی متعدد حدیثوں  میں صفوں کی درستی کی تاکیدی حکم دیا ہے ، کہیں اس کے فضائل  بیان فرمائے ہیں اور کہیں  اس میں کوتاہی  کرنے کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے ،  چنانچہ ایک حدیث  میں نبی ﷺ نے فرمایا : اپنی صفوں  کو بالکل  سیدھا  کرو ،  کندھوں  کو برابر رکھو  اور صفوں کے درمیان خالی جگہوں  کو پر کرو ، اپنے بھائیوں  کے ہاتھوں  میں  نرم ہوجاو اور شیطان کے لئے درمیان میں جگہ مت چھوڑو  اور یاد رکھو  جو صف کو ملائے گا اسے اللہ تعالی ملائے گا اور جو صفوں کو توڑے گا اللہ تعالی  بھی اس سے [اپنا رشتہ ]توڑے گا ۔ {سنن ابو داود ، مسند احمد ، بروایت  عبد اللہ بن عمر } ۔

اس حدیث سے جہاں ایک طرف صفوں کو سیدھی  رکھنے  اور درمیان  میں بالکل  جگہ نہ چھوڑنے کی تاکید معلوم ہوتی  ہے  وہیں ایک معنوی فائدہ  بیان کیا گیا ہے کہ صفوں میں کجی  اور اس کے درمیان  میں خلا نماز میں خشوع و خضوع کے جانے کا سبب ہے، کیونکہ  جب صفوں میں خالی  جگہ رہتی ہے تو شیطان وہاں پہنچ جاتا ہے اور نمازیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے ، اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی رہنمائی ملتی ہے کہ صف بندی کے سلسلے میں اپنے بھائیوں  کے سامنے نرم ہوجانا چاہئے یعنی  اگرتمہارا کوئی بھائی  صفوں  کو درست کرنے کے لئے  تمہیں  آگے پیچھے  ،یا دائیں بائیں  ہونے کے لئے   کہے تو ناراض  ہونے کے بجائے  اس کے ساتھ تعاون  کرو اور خوش دلی سے اس کی ہدایات پر  عمل  کرو ، حدیث  کے آخر میں صفوں کی درستی کا اہتمام  کرنے والوں کے لئے  پیارے دعائیہ کلمات  ہیں کہ  جو صفوں  کو درست کرنے کی سعی  کرتا ہے  ایسے شخص  سے اللہ تعالی اپنے تعلقات  کو جوڑے رکھے ، البتہ  کوئی بد نصیب  صفوں کو توڑتا  ہے  ، امام یا اپنے ساتھی  کی ہدایت پر عمل نہیں کرتا تو اس کے لئے رسول رحمت کی یہ  بد دعا ہے کہ اللہ تعالی  بھی ایسے شخص سے اپنے تعلقات کو توڑے ۔

زیر بحث حدیث میں بھی نبی ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے کہ  صفوں کو بالکل سیدھا رکھا  جائے  اور چونہ گچ  دیوار  کی طرح ایک دوسرے  سے خوب ملکر کھڑا  ہویا جائے ،جیسا کہ صحابہ  کے عمل  سے ظاہر ہے ، اسی امر کی اہمیت  کے پیش نظر  ہی شاید اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو حالت نماز میں   یہ معجزہ  عطا فرمایا تھا کہ  نماز  کے دوران آپ ﷺ اپنےسے  پچھلی  صفوں  کے لوگوں  کو بھی دیکھ  لیا کرتے تھے،   تاکہ اگر صفوں کی درستگی  میں  ان سے کوئی  کوتاہی  رہ گئی  ہے  تو  اس کی اصلاح کردی جائے ، چنانچہ  ایک دوسری   حدیث   میں صحابی کا بیان ہےکہ رسول  اللہ ﷺ ہماری  صفوں کو ایسا سیدھا کرتے تھے کہ گویا آپ  ان کے ذریعہ  سے تیروں  کو سیدھا   کررہے ہوں ، حتی  کہ جب آپ نے سمجھ  لیا  کہ ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں [ اور اب اپنی صفوں میں  کجی  نہ پیدا ہونے دیں گے ]  پھر ایک روز آپ تشریف  لائے  اور کھڑے  ہوگئے حتی کہ تکبیر  کہنے کو تھے  کہ آپ نے ایک شخص  کو اپنا سینہ  صف  سے باہر  نکالے ہوئے دیکھا تو  [ لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر ] فرمایا : اللہ کے بندو ! اپنی صفوں  کو ضرور سیدھی کرلو ورنہ اللہ تعالی  تمہارے چہروں کے درمیان  اختلاف پیدا کردے گا ۔ {صحیح بخاری  ،صحیح مسلم بروایت  نعمان بن بشیر }۔ واضح رہے کہ  صفوں کو درست کرنے میں  درج ذیل  چیزیں  داخل ہیں :

[۱] پہلی صف جب تک مکمل نہ ہوجائے   دوسری صف نہ بنائی جائے  اور دوسری صف جب تک مکمل  نہ ہوجائے  تیسری صف نہ بنائی جائے ۔ [۲] صف میں کھڑے ہوتے وقت  بالکل سیدھا کھڑا ہویا جائے،  اس طرح کہ ایک دوسرے  کا کندھاےاور ٹخنے  بالکل برابر ہوں ۔ [۳] دو آدمیوں  کے درمیان  میں خالی جگہ  نہ چھوڑی جائے  بلکہ جس طرح  دیوار  بناتے وقت  ایک اینٹ دوسری اینٹ  کے برابر  اور بالکل  متصل  رکھی جاتی ہے اسی طرح ایک نمازی کا قدم  دوسرے  نمازی کے قدم  سے بالکل  ملا رہے ،جیسا کہ صحابہ کاعمل رہا ہے ۔ [۴] دو صفوں کے درمیان  زیادہ فاصلہ نہ رکھا جائے ۔

چنانچہ ایک بار صحابہ کرام کے پاس نبی ﷺ تشریف لائے  اور فرمایا : جس طرح  فرشتے اپنے رب کے پاس صف  بندی کرتے ہیں  ویسے ہی صف بندی تم لوگ کیوں نہیں کرتے ، صحابہ نے عرض کیا :  اے اللہ کے رسول ! اپنے  رب کے پاس فرشتے کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلی صف کو مکمل کرتے ہیں اور خوب مل کر [ چونا گچ دیوار کی طرح ] کھڑے ہوتے ہیں ۔ {صحیح مسلم ، سنن ابود اود بروایت جابر بن سمرہ } ۔

فوائد :

  • صفوں کو سیدھی کرنا اور قریب قریب  ہو کرکھڑا  ہونا واجب ہے ۔
  • سیدھی صف اور خوب مل کر کھڑے  ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قدم کو قدم  اور کندھے کو کندھے  سے ملایا جائے یا کم از کم  ایسا قرب رہے  کہ درمیان  میں کوئی  جگہ باقی نہ بچے ،جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم  کا عمل تھا ۔
  • موذن کے قد قامت الصلاۃ   پر امام  کا تکبیر  تحریمہ  کہنا خلاف  سنت ہے ،بلکہ  اصل یہ ہے کہ  اقامت کے بعد امام صفوں کی درستگی  کی ہدایت  کرے ۔
  • ظاہر کا بگاڑ باطن کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے ۔